Tain Tain - Article No. 1510

Tain Tain

ٹیں ٹیں - تحریر نمبر 1510

قونا،فونا اور سونا تینوں دوستیں تھیں۔یہ ایک کم گہرے تالاب میں رہنے والی چھوٹی چھوٹی بطخیں تھیں۔

ہفتہ 31 اگست 2019

مریم جہانگیر
قونا،فونا اور سونا تینوں دوستیں تھیں۔یہ ایک کم گہرے تالاب میں رہنے والی چھوٹی چھوٹی بطخیں تھیں۔قونا سفید رنگ کی بطخ تھی اور اس کی پیلی سنہری چونچ اور ویسے ہی پاؤں بہت خوبصورت لگتے تھے۔اسے اپنی خوبصورتی کا ادراک تھا۔ہمیشہ تھوڑا سا تیرا کرتی اور اس کے بعد اپنی پونچھ پیچھے سے جھٹکتی ۔پانی پینے کے لئے چونچ پانی میں ڈال کر پانی منہ میں بھرتی اور جب چونچ اوپر آسمان کو کرتی تو پانی اُس کی سفید گردن سے اترتا نظر آتا۔
سارے تالاب میں رہنے والوں کو قونا بہت خوبصورت لگتی۔
بلبل کے غول اور کبوتروں کے غول دور دور سے آتے اور جاتے وقت قونا کی خوبصورتی سے متاثر ہو کر اپنا دانہ دنکا بھی اُسے بھیج دیتے اور وہ فخر سے اناج لے لیتی۔

(جاری ہے)

فونا بھی اسی جیسی تھی،پیاری اور چھوٹی سی۔اس کے نچلے پروں پر سر مئی رنگ کے دھبے تھے،ویسے ہی دھبے اُس کے سر پر بھی تھے،لیکن ان دھبوں کی وجہ سے وہ اور بھی زیادہ پر کشش لگتی تھی۔

سونا کی چونچ پیلی سنہری تھی۔سر اور گردن کا کچھ حصہ بھورے رنگ کا تھا۔نیچے کا سارادھڑ گہرے سبز رنگ کا تھا۔سونا بھی دیکھنے والوں کو بری نہیں لگتی تھی۔لیکن قونا اور فونا کی موجودگی میں سونا اتنی بھی پیاری نہیں لگتی تھی۔
قونا اور فونا اپنے ساتھ سونا کو ہمیشہ لے کر گھومتی تھی۔اس سے انہیں اپنی خوبصورتی کا مزید احساس ہوتا تھا۔وہاں جاتے آتے وقت وہ دونوں راستہ بھر سونا کو تنگ کرتی رہتی تھی”دیکھو وہ دور بیٹھا طوطا بھی ہمیں دیکھ رہا ہے۔
دیکھنا وہ امرودکتر کر ہماری طرف ضرور پھینکے گا۔“فونا نے دور بیٹھے طوطے کو دیکھ پر پیشین گوئی کی۔
سونا نے حسرت بھری آنکھوں سے طوطے کی طرف دیکھا ۔طوطا درخت کے شاخ سے اڑا۔اُس کی چونچ میں کترا ہوا امرود تھا۔اُس نے وہ امرود سونا کی طرف پھینکا اور بولا”یہ لو تم کھاؤ،میری اچھے دل والی چھوٹی سے بطخ۔“
پانی میں کنکر گرا اور سونا کی سوچ کا تسلسل ٹوٹا۔
طوطا ابھی بھی سامنے درخت کی شاخ پر بیٹھا ہوا تھا،یعنی یہ صرف اور صرف سونا کی خیالی بریانی تھی۔سونا خود پر ہنس دی۔طوطا حقیقتاً اڑا اور تالاب کے اس حصے میں جس پر سونا،قونا اور فونا تیر رہی تھیں،کترا ہوا امرود پھینکا۔“یہ ہلکی سر مئی اور بہت سفید والی بطخ کے لئے۔“اس کا اشارہ فونا کی طرف تھا۔
گوقونا کو مایوسی ہوئی ،مگر وہ روزانہ کی ستائش کی عادی تھی ،لیکن سونا کو بہت ہی برا لگا۔
اُسے عجیب طرح کی احساس کمتری نے اپنے گھیرے میں لے لیا۔اُس نے اپنا منہ پانی کی سطح کے اور قریب کر لیا۔
فونا موج میں آچکی تھی۔اس نے امرود چونچ میں دبایا اور تھوڑے سے سبزے کے گردگول گول چکر لگانے لگ گئی۔ساتھ ساتھ وہ اپنی پونچھ بھی ہلا رہی تھی۔
بطخ میں بطخ ٹیں ٹیں
پیاری سی بطخ ٹیں ٹیں
بلبل کو جو پیاری لگی
بطخ وہ بطخ ٹیں ٹیں
بہت سفید کہیں مجھے
بطخ میں بطخ ٹیں ٹیں
امی ابو کو پیاری لگوں
بطخ وہ بطخ ٹیں ٹیں
تیروں تو دُم بھی ہلاؤں
بطخ میں بطخ ٹیں ٹیں
قونا پیاری کی دوست ہوں
بطخ وہ بطخ ٹیں ٹیں
فونا لہراتی لہراتی مزید بھی گانا گاتی لیکن سبزے کے ساتھ لگی ڈور اُس کے پاؤں میں الجھ چکی تھی ۔
پاؤں سے ڈور نکالنے کے لئے اُس نے جھٹکے دئیے۔ایک ٹانگ کو جھٹکنے کی وجہ سے سارا وزن دوسرے پاؤں پر آگیا تھا۔اور دوسرا پاؤں کہاں اتنا سارا وزن برداشت کر سکتا تھا۔پھر شش شڑاپ ۔فونا کا سارا منہ پانی میں گرا ہوا تھا۔اُس چھوٹی سی بطخ سے یہ بے وقت کی غوطہ خوری ہضم نہیں ہورہی تھی۔فوراً سے قونا اور سونا آگے بڑھی۔دونوں طرف سے ڈور دونوں نے کھینچی اور ڈور الگ ہو گئی۔

فونا نے چہرہ اوپر کیا۔کافی دیر تک پانی میں منہ رکھنے کی وجہ سے اُس کا چہرہ ہلکا سرخ ہو چکا تھا۔قونا ایک دم ہنسنے لگ گئی۔ اس کی دیکھا دیکھی سونا بھی ہنس پڑی۔فونا کو اُن کے ہنسنے پر غصہ آگیا۔پانی ہمیشہ نچلی طرف بہتا ہے ،وہ قونا کو تو کچھ نہیں کہہ سکتی تھی۔کیونکہ قونا بہت منہ پھٹ تھی ۔اس نے سونا کو کہا:۔
”تم نے خود کو دیکھا ہے ۔
تمہارا پانی میں اتنی دیر تک منہ رہتا تو عجیب سی شکل ہوجاتی۔اتنی بدرنگ سی جلد ہے تمہاری۔سمجھ ہی نہیں آتی کہاں سے کہاں تک کون سا رنگ ہے۔“وہ دونوں ہی سونا پر ہنسنے لگی۔
سونا کی موٹی موٹی آنکھوں میں آنسو آگئے۔”ایسے تو نہیں کہا کروبے شک میرا رنگ سفید نہیں ،لیکن میں بھی تمہاری طرح کی ہوں۔میری چونچ بھی تمہاری جیسی ہے اور میں چلتے ہوئے تمہاری طرح پونچھ بھی ہلا سکتی ہوں۔
“سونا نے مٹک مٹک کر انہیں چل کر دکھایا۔
فونا اور قونا پھر ہنسنے لگ گئی۔”تم ہمارے ساتھ ہوتی ہو اس لئے تمہیں کچھ نہ کچھ کھانے پینے کو مل ہی جاتا ہے ۔تم اگر اکیلی ہوتو کوئی بھی تمہیں نہ پوچھے۔کالی بطخیں کس کو اچھی لگتی ہیں؟“اب کے قونا نے طنز کیا۔
”میں بہت پیاری نہیں ہوں ،لیکن دیکھو کوے بھی تو کالے ہوتے ہیں ،انہیں بھی تو اس دنیا میں رہنے کا اتنا ہی حق ہے جتنا سبز طوطوں کو ہوتا ہے۔
وہ بھی کھاتے پیتے ہیں ،اُن کے غول بھی اسی طرح گزرتے ہیں۔“سونا نے پھر دلیل دی۔
قونا اور فونا ایک دوسرے کی پونچھ کے ساتھ پونچھ ملائی اور پھر مٹک مٹک کر گانے لگ گئیں۔
بطخ ہم بطخ ٹیں ٹیں
پیاری ہیں بطخ ٹیں ٹیں
گھومتی ہیں پورے تالاب
بطخ ہم بطخ ٹیں ٹیں
پرندے ہمیں دیکھنے آئے
بطخ ہم بطخ ٹیں ٹیں
اپنا دانہ سب ہی دے جائیں
بطخ ہم بطخ ٹیں ٹیں
پیاری پیاری چھوٹی چھوٹی
بطخ ہم بطخ ٹیں ٹیں
گاتے گاتے پھر دونوں سبزے کے پاس پھیلی ڈور میں پاؤں الجھا بیٹھی۔
دونوں کا منہ اب پانی کے اندر تھا۔اُن سے باہر منہ نکالنا دو بھر ہوا تھا۔پھر شش شڑاپ ۔پانی اچھلتا دور دور پھر رہا تھا۔سونا نے اپنا منہ ڈور کے پاس کیا۔چونچ میں ڈور دبائی اور پیچھے کی طرف کھینچنے لگ گئی۔ڈور میں تنا ؤ آیا۔ساتھ ہی ڈور چونچ سے نکل گئی ۔قونا اور فونا کا براحال تھا۔اُن کی ہانپی ہوئی سانسیں محسوس ہورہی تھی۔اب سونا نے اپنا پیر لکڑی میں پھنسایا جو کہ لکڑی تالاب کے نچلے پتھروں میں مضبوطی سے پھنسی ہوئی تھی۔
اب سونا نے چونچ میں ڈور لے کر ڈور کو کھینچنا شروع کیا۔ڈور میں تناؤ آیا۔ڈور ایک دفعہ پھر چونچ سے نکل ہی جاتی،مگر سونا نے لکڑی کے سہارے پر ڈور کو اور بھی زیادہ زور سے کھینچا۔نتیجتاً ڈور ٹوٹ گئی۔سونا کی چونچ پر ڈور سے پڑنے والے نشانات تھے۔جن سے ہلکا ہلکا خون رس رہا تھا۔قونا اور فونا کا منہ پانی سے باہر آگیا تھا۔بے وقت کی غوطہ خوری سے دونوں کے منہ اچھے خاصے سرخ ہو چکے تھے۔
اور کافی دیر تک کی اس غوطہ خوری نے دونوں کے ہوش بھی ٹھکانے لگا دئیے تھے۔قونا اور فونا سونا کے پاس گئیں اور چونچ اُس کی گردن کے ساتھ پیار سے لگا کر بولی:
بطخ تم بطخ ٹیں ٹیں
بڑی پیاری بطخ ٹیں ٹیں
سوہنے کاموں کی سونا
بطخ تم بطخ ٹیں ٹیں
اس کے بعد دونوں بطخوں نے سونا سے معافی مانگی۔اب وہ تینوں ساتھ ساتھ گھومتی ہیں ۔مٹک مٹک کر چلتی ہیں۔اور کوئی سونا کے رنگ کے بارے میں کچھ نہیں کہتا۔اچھے موسم میں پورا تالاب سنتا ہے:
بطخ ہم بطخ ٹیں ٹیں
بڑی پیاری بطخ ٹیں ٹیں

Browse More Moral Stories