Tashkent Ka Lakarhara - Article No. 1407

Tashkent Ka Lakarhara

تاشقند کا لکڑ ہارا - تحریر نمبر 1407

بہت دن گزرے ،تاشقند میں ایک غریب لکڑ ہارا رہتا تھا۔اس کا نام شیرازی تھا۔وہ جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر شہر میں فروخت کرتا تھا۔

جمعرات 9 مئی 2019

معراج
بہت دن گزرے ،تاشقند میں ایک غریب لکڑ ہارا رہتا تھا۔اس کا نام شیرازی تھا۔وہ جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر شہر میں فروخت کرتا تھا۔اسے اتنا تھوڑا معاوضہ ملتا کہ اس کا گزارہ بہت مشکل سے ہوتا۔
شہر سے بہت دور ایک درویش کی جھونپڑی تھی ۔وہ ہر وقت اللہ کی یاد میں مشغول رہتے تھے۔شیرازی ان درویش کی خدمت میں حاضر ہوا اور جھونپڑی کے باہر سے آواز لگائی :”’اے محترم بزرگ !کیا میں اندر آسکتا ہوں؟“
درویش نے کہا:”دروازہ کھلا ہے ،تم اندر چلے آؤ۔

شیرازی جھونپڑی میں داخل ہوا۔اس نے ادب سے درویش بابا کو سلام کیا اور بولا:”باباجی!میں ایک غریب آدمی ہوں ۔اللہ کے واسطے !میری کچھ مدد کیجیے۔“
درویش نے کہا:”کل ہی شہر کے قاضی نے مجھے ایک ہزار اشرفیوں کی تھیلی بھیجی ہے ۔

(جاری ہے)


یہ سن کر شیرازی کی آنکھیں خوشی سے چمکنے لگیں۔
درویش نے کہا:”بیٹا!میں مفت میں اشرفیاں نہیں بانٹا کرتا۔

تم مجھے اپنی کوئی چیز دے دو اور اشرفیوں کی تھیلی لے لو۔“
شیرازی بولا:”میرے پاس آپ کو دینے کے لیے ہے ہی کیا؟ایک کلہاڑی اور ایک جھونپڑی ۔“
درویش نے کہا:”یہ دنیاوی مال واسباب میرے لیے بے کار ہے ۔تم کوئی ایسی چیز دو ،جو تمھاری اپنی ہو۔مثلاً تمھاری دیکھنے کی قوت (قوت باصرہ)۔”یہ کہہ کر درویش نے اپنا ہاتھ شیرازی کی آنکھوں پر رکھ کر ہٹایا ۔
اس کے ساتھ ہی شیزاری کی بینائی (نظر )جاتی رہی ۔
شیرازی گھبرا کر بولا:”باباجی! آپ نے تو میری دنیا ہی اندھیری کردی ۔اب میں قدم قدم پرٹھوکریں کھاؤں گا۔راستے میں کسی گڑھے میں گرجاؤں گا یاکسی چیز سے ٹکرا کر زخمی ہو جاؤں گا۔
اللہ کے واسطے!میری بینائی واپس کر دیجیے۔“
درویش نے اپنا ہاتھ شیرازی کی آنکھوں پر رکھا اور اس کی بینائی واپس آگئی۔

شیرازی نے کہا:”آپ میری کوئی اور چیز لے لیں۔“
درویش بابا نے کہا:”رنگوں کی شناخت لے لوں؟“
شیرازی خوش ہو کر بولا:”جی ہاں،آپ مجھ سے رنگوں کی شناخت لے لیجیے۔“
درویش نے اس کی آنکھوں سے ایک رنگین جھلی نکال کر شیشی میں بند کر دی ۔
ابھی کچھ ہی دن گزرے تھے کہ شیرازی پھر درویش کے دروازے پر دستک دے رہا تھا۔
درویش نے کہا:”دروازہ کھلا ہے ۔میرے بچے!تم اندر چلے آؤ۔“
شیرازی نے کہا:”میں اپنی زندگی سے بیزار ہو گیا ہوں ۔رنگوں کی شناخت ختم ہونے سے سب رنگ سفید یا سیاہ نظر آتے ہیں۔آسمان کی نیلا ہٹ ،زمین کا مٹیا لارنگ ،درختوں کی ہریالی،گھاس کی سبزہ ،پھولوں کی رنگینی ،سب ہی جاتی رہیں ۔کالے رنگ کا شوربا اور دودھیا سفید روٹیاں دیکھ کر مجھے کراہیت محسوس ہوتی ہے ۔
کالے سیاہ رنگ کے تربوز کی کالی قاش کھاتے وقت دل متلانے لگتا ہے ۔اللہ کے واسطے!میری رنگوں کی شناخت مجھے واپس کر دیجیے۔“
درویش نے شیشی سے رنگین جھلی نکال کر شیرازی کی آنکھوں پر دوبارہ لگادی۔
شیرازی فوراً جھونپڑی سے باہر کی طرف دوڑا۔وہ بہت دیر تک نیلے آسمان ،سر سبز گھاس،سرخ اور گلابی پھولوں ،طرح طرح کے رنگین پرندوں کو دیکھتا رہا اور آخر میں بولا:”اللہ!تیرا شکر ہے ۔

مجھے تو اب معلوم ہوا کہ رنگوں کے بغیر زندگی کتنی بے مزہ ہے ۔“
درویش نے کہا:”ہاں بھئی!اب بتاؤ ،تم اپنی کون سی صلاحیت مجھے فروخت کروگے؟تمھاری قوت سماعت یعنی سننے کی طاقت لے لوں؟“
شیرازی بولا:”ہاں ،بھوکوں مرنے سے بہتر ہے کہ انسان بہراہو کر زندگی گزارے”
درویش نے شیرازی کے کانوں سے کچھ نکال کر ایک ڈبیا میں بند کر دیا۔

ابھی تھوڑے دن ہی گزرے تھے کہ شیرازی پھر درویش کی جھونپڑی کے باہر کھڑا تھا اور کہہ رہا تھا:”میرے بابا!میری مدد فرمائیے۔“
درویش نے کہا:”کیا بات ہے ،تم بہت پریشان دکھائی دیتے ہو؟“
شیرازی بولا:”اے بزرگ !اب میں چڑیوں کے چہچہانے ،کویل کی کوکو،بلبل کی سریلی آواز سے محروم ہو گیا ہوں ۔بازار جاتا ہوں تو ہر وقت حادثے کا دھڑ کا لگا رہتا ہے ۔
کل شام میرے پیچھے سے آنے والا گھوڑا بدک گیا۔لوگوں نے مجھے متوجہ کرنے کے لیے زور زور سے آوازیں دیں،لیکن مجھے کچھ سنائی نہ دیا۔ایک شخص نے مجھے بازو سے پکڑ کر ایک طرف کھینچ لیا اور گھوڑا میرے پاس سے گزر گیا۔اللہ کا شکر ہے کہ میں حادثے کا شکار ہونے سے بچ گیا۔آپ میری سننے کی طاقت واپس کردیجیے۔“
درویش نے شیرازی کو سننے کی طاقت واپس کر دی اور کہا:”ہاں بھئی!اب تمھاری کون سی صلاحیت حاصل کروں؟حسِ ذائقہ اور حسِ شامہ لے لوں ۔
پھر نہ تمھیں کسی چیز کا ذائقہ محسوس ہو گا اور نہ خوش بویا بدبو۔“
شیرازی نے کہا:”جی ہاں!ذائقے اور سونگھنے کی حس میرے لیے کسی کام کی نہیں ہے ۔یہ آپ لے لیجیے۔“
درویش نے اپنی دو اُنگلیاں شیرازی کے حلق میں ڈال کر کوئی شے نکالی اور شیشی میں بند کرکے ڈاٹ لگادی ۔شیرازی خوشی خوشی اپنے گھر لوٹا۔
ابھی کچھ ہی دن گزرے ہوں گے کہ وہ پھر بزرگ درویش کی جھونپڑی کے باہر کھڑا دروازہ کھٹکھٹا رہا تھا۔

درویش نے کہا:”میرے بچے!دروازہ کھلا ہی ہے ۔تم اندر چلے آؤ۔“شیرازی بولا:”میرے محترم بزرگ!میں عجیب مصیبت میں پھنس گیا ہوں۔“
درویش نے کہا:”اللہ تمھارے حال پر رحم فرمائے۔“
شیرازی نے کہا:”میری قوت ذائقہ کیا گئی،زندگی بے مزہ ہوکررہ گئی۔دال روٹی ہو یا پراٹھا کباب،حلواپوری ہو یا بریانی ،ہر چیز کا لطف جاتا رہا۔
پتا ہی نہیں چلتا کہ میں زردہ پلاؤ کھا رہا ہوں یا بھو سا چبا رہاہوں ۔پچھلے دنوں تو مرتے مرتے بچا۔“
درویش نے پریشانی سے پوچھا:”کیوں؟کیا ہوا؟“
شیرازی بولا:”میں نے سڑا ہوا کھانا کھالیا۔ذائقہ محسوس نہ کرنے اور سونگھنے کی صلاحیت ختم ہونے کی وجہ سے میں یہ محسوس نہ کر سکا کہ یہ کھانا خراب اور بدبو دار ہو گیا ہے ۔میں شدید بیمار ہو گیا۔
بہت دن تک اسی حال میں پڑا رہا۔تب کہیں اس قابل ہو سکا کہ آپ کے آستانے پر حاضر ہو سکوں۔“
درویش نے پھر کہا:”اللہ تمھارے حال پر رحم فرمائے۔“
پھر بزرگ اس شیشی کو اُٹھالائے اورا س میں سے کوئی شربت شیرازی کے حل میں اُنڈیل دیا۔اس کے ساتھ ہی شیرازی کی قوت ذائقہ بھی صحیح ہو گئی۔
درویش نے کہا:”ہاں،اب بتاؤ کہ میں تمھاری کون سی چیز ضبط کروں؟حس لامسہ یعنی چھو کر کسی چیز کو معلوم کرنے کی صلاحیت لے لوں؟“
شیرازی بولا:”’ہاں ،یہ بے کارہے ۔
میں خوشی سے چھونے کی حس دینے کو تیار ہوں۔“
درویش نے شیرازی کے جسم پر ہاتھ پھیرا اور بولے:”جب تم اپنے گھر پہنچو گے تو تمھاری چھونے کی قوت ختم ہو جائے گی۔“
ابھی تھوڑے ہی دن گزرے ہوں گے کہ وہ پھر درویش کے دروازے پر دستک دے رہا تھا۔وہ سر سے پاؤں تک پٹیوں میں جکڑ ا ہوا تھا۔
درویش نے حیرانی سے اسے دیکھا اور پوچھا :”یہ کیا ہوا تمھیں؟“
شیرازی بولا:”حضور! اس بار زبردست مصیبت میں گرفتار ہو گیا ہوں ۔
۔جب سے میں چھونے کی قوت سے محروم ہوا ہوں مجھے یہ محسوس ہی نہیں ہوتا کہ پاؤں زمین پر رکھ دیا ہے کہ نہیں۔اس طرح میں کئی دفعہ گرا۔ایک بار تو زینہ اُترتے وقت میں سمجھا کہ میں نے قدمچے پر اپنا پاؤں رکھ دیا ہے ،حالانکہ میرا پاؤں ابھی قدمچے سے کچھ اُوپر ہی تھا۔جونہی میں نے دوسرا پاؤں اُٹھایا،میں زینے سے لڑھکتا ہوا نیچے آگرا۔بہت دن بیمار اور زخمی پڑا رہا۔
اب کہیں اس قابل ہو سکا کہ آپ کے آستانے پر حاضر ی دے سکوں۔“
درویش کو شیرازی کا یہ حال دیکھ کر افسوس ہوا۔انھوں نے کہا:”اللہ تمھارے حال پر رحم فرمائے۔“
شیرازی پھربولا:”حضور!آپ قوت لامسہ مجھے واپس کر دیجیے اور اس کے بدلے میں کوئی اورچیز لے لیجیے۔“
بزرگ اور درویش نے شیرازی کے جسم پر ہاتھ پھیرا اور اس کے ساتھ ہی شیرازی کی چھونے کی حس بیدار ہو گئی۔

سیڑھیوں سے گرنے کے بعد اسے جوچوٹیں آئی تھیں ،اب ان میں درد اور تکلیف ہونے لگی اور چیخ کر بولا:”اے بابا!مجھے بہت تکلیف ہورہی ہے ،لیکن اس درد میں بھی راحت ہے۔“
بزرگ درویش نے کہا:”اب بتاؤ کہ تم مجھے کیا چیز دینا پسند کرو گے ؟تم اپنا سایہ مجھے دے ڈالو،ویسے بھی یہ فضول ہے اور تمھارے کسی کام کا نہیں ہے۔“
شیرازی خوش ہو کر بولا:”جی ہاں،آپ نے درست فرمایا۔
یہ سایہ واقعی میرے لیے بے کار اور بے مصرف چیز ہے ۔آپ شوق سے میرا سایہ لے سکتے ہیں۔“
درویش نے کہا:”تم سورج کی طرف منھ کرکے کھڑے ہو جاؤ۔“
شیرازی نے حکم کی تعمیل کی ۔درویش نے ایک تیز دھار والا خنجر نکالا اور ایڑی کے پاس سے سایہ کاٹ کر جسم سے علیحدہ کر دیا۔پھر انھوں نے سائے کو کپڑے کی طرح لپیٹ کر الماری میں رکھ دیا۔
شیرازی خوشی خوشی اپنے گھر روانہ ہوا۔
راستے میں کچھ لڑکے ملے۔اتفاق سے ایک لڑکے کی نظر اس پر پڑی تو و ہ چیخ کر بولا:” ارے دیکھو!اس آدمی کا تو سایہ ہی نہیں ہے۔“
ایک بچہ سہم کر بولا:”میں نے سنا ہے کہ جن بھوتوں کا سایہ نہیں ہوتا ۔ضرور یہ شخص کوئی جن ،بھوت ہے یا کوئی خبیث روح ہے۔“
سب بچے ڈر کر چلاتے ہوئے بھاگے۔محلے کے کتے بھی شیرازی کو دیکھ کر بھونکنے لگے۔
وہ بھی اسے کوئی جن بھوت سمجھے ہوں گے۔
اب شیرازی دن بھر اپنے کمرے میں بیٹھا رہتا۔رات کے وقت گھر سے نکلتا اور گھپ اندھیری گلیوں میں پھرا کرتا۔اس کے دوست ،رشتے دار بھی اس کی اس حرکت پر حیران تھے۔ وہ اسے بلاتے ،لیکن شیرازی کسی سے ملنے کے لیے نہ جاتا۔
آخر وہ اس قید تنہائی سے گھبرا گیا اور ایک دن پھر بابا کے آستانے پر حاضر ہو گیا اور لگا چیخ چیخ کر پکارنے:”یا مرشد!پیر صاحب!“
درویش نے دروازہ کھولا اور شیرازی کو دیکھ کر کہا:”کہو،کیسے آنا ہوا؟“
شیرازی رونے لگا اور بولا:”حضور!میں بہت تکلیف میں ہوں ۔
اللہ کے واسطے!میری مدد کیجیے اور مجھے اس مصیبت اور قید سے نجات دلائیے۔“
درویش نے پوچھا“اب کیا ہوا؟“
شیرازی نے جواب میں اپنی کہانی سناڈالی اور کہا:”حضور !مجھے تو اب معلوم ہوا کہ انسان کا سایہ بھی بہت کام کی چیز ہے ۔یہ وہ ساتھی ہے جو ہمیشہ ساتھ رہتا ہے ۔کبھی آگے آگے چلتا ہے اور کبھی پیچھے پیچھے ۔اس سے محروم ہو کر محسوس ہوا کہ جیسے ایک سچا دوست اور دکھ سکھ کا ساتھی ساتھ چھوڑ گیا ہو۔
سائے کے بغیر میں اپنے آپ کو اکیلا اکیلا محسوس کرتا ہوں۔“
بزرگ درویش نے کہا:”دیکھو بھئی،تمھاری روز روز کی دخل اندازی سے میری عبادت میں خلل پڑتا ہے ۔اب آخری موقع تمھیں دے رہا ہوں ۔اس کے بعد میں تمھاری کوئی بات نہیں سنوں گا۔“
یہ کہہ کر درویش بہت دیر خاموش بیٹھے کچھ سوچتے رہے ،پھر بولے:”تم مجھے اپنا مسام دے ڈالو۔“
شیرازی خوش ہو کر بولا:”جی ہاں،آپ میرے مسام لے لیجیے۔
ویسے بھی یہ میرے کسی کام کے نہیں ہیں۔“
درویش نے ایک صراحی سے شیرازی کے جسم پر پانی اُندیلا اور اس کے ساتھ ہی بہت باریک باریک ذرات شیرازی کے جسم سے علیحدہ ہو کر فرش پر گر پڑے۔درویش نے ان ذرات کو جمع کیا اور ایک بوتل میں دال کر الماری میں رکھ دیا۔
شیرازی خوشی خوشی اپنے گھر کی طرف چلا۔ابھی وہ تھوڑی ہی دور گیا تھاکہ اس کا جسم گرمی سے تپنے لگا ۔
گھر پہنچے پہنچتے اس کی کھال گرمی سے جھلس گئی۔کھال میں بے شمار باریک باریک مسام یعنی سوراخ ہوتے ہیں ،جن کے راستے پسینا خارج ہوتا رہتا ہے ۔پسینا آنے سے جسم کی جلد گیلی ہوجاتی ہے اور اس کا درجہ حرارت بڑھنے نہیں پاتا۔مسام ختم ہونے کے بعد شیرازی کا جسم تانبے کے برتن جیسا ہو گیا۔گرمی کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ جسم بھی گرم ہوتا چلا جاتا۔اپنے جسم کو ٹھندا رکھنے کے لیے شیرازی کودن میں دس پندرہ بار نہاناپڑتا۔
وہ گیلے کپڑے پہنتا۔جسم پر پانی ڈالتا رہتا ،پھر بھی جسم کو سکون نہیں ملتا۔وہ دن بھر کمرے میں لیٹا رہتا ،شام کے وقت گھر سے نکلتا۔
شیرازی جلد ہی اپنی اس حالت سے عاجز آگیا ۔ایک بار پھر وہ درویش کی جھونپڑی کے باہر کھڑا ہو کر آوازیں لگا رہا تھا:”اللہ کے واسطے!آپ میرے مسام واپس کر دیجیے۔“
درویش نے الماری سے وہ بوتل نکالی ،جس میں مسام تھے۔
بوتل میں پانی ڈال کر اچھی طرح ہلایا اور شیراز ی کے اوپر اُنڈیل دی۔
شیرازی بولا:”حضور!اب میں اچھی طرح سمجھ گیا ہوں کہ اللہ نے مجھے بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے ۔ہر نعمت ہزاروں اشرفیوں سے زیادہ قیمت رکھتی ہے ۔یہ رہی آپ کی ہزار اشرفیوں والی تھیلی ۔میں اب محنت اور ہمت سے اپنی روزی کماؤں گا۔“
وہ جانے کے لیے مڑا ،تب درویش نے اسے آواز لگائی:”ٹھیرو!“
شیرازی رک گیا۔درویش نے کہا:”میں جو کچھ تمھیں دے چکا ہوں ،واپس نہیں لوں گا ،اسے اپنے استعمال میں لاؤ۔محنت اور ایمان داری سے روزی کماؤ۔اللہ تمھیں برکت دے گا۔“

Browse More Moral Stories