Ten Rupees Ka Jhoot - Article No. 1456

Ten Rupees Ka Jhoot

دس روپے کا جھوٹ - تحریر نمبر 1456

سہیل کچھ دن پہلے تک بہت اچھا اور نیک بچہ تھا۔وہ پانچویں جماعت میں پڑھتا تھا ۔اس کی تربیت اس کے والدین نے بہت اچھی طرح کی تھی

بدھ 26 جون 2019

سیدہ مبین فاطمہ عابدی،پنڈدادن خان
سہیل کچھ دن پہلے تک بہت اچھا اور نیک بچہ تھا۔وہ پانچویں جماعت میں پڑھتا تھا ۔اس کی تربیت اس کے والدین نے بہت اچھی طرح کی تھی ،اس لیے اس کی عادتیں بہت اچھی تھیں،مگر پھر اس کی دوستی اسکول میں موسیٰ نامی ایک لڑکے سے ہوگئی ۔جسے بات بات پر جھوٹ بولنے اور چوری کرنے کی عاد ت تھی۔
موسیٰ دوسروں کو ہنسانے اور ان کی توجہ اپنی طرف کرنے کے لیے طرح طرح کے جھوٹ بولتا تھا اور اپنی چرب زبانی اور مزاج کی وجہ سے کلاس کے لڑکو ں میں بڑا مشہورتھا ،مگر رفتہ رفتہ سہیل کو موسیٰ کی یہ عادت انھیں بے ضررسی لگنے لگی تھی ،کیوں کہ وہ کسی کو نقصان نہیں پہنچا تا تھا اور وہ دوسروں کا دل خوش کرتا تھا ۔

وہ سہیل سے کہتا کہ اگر اس کے بے ضرر جھوٹ سے کسی کادل خوش ہوجاتا ہے تویہ گناہ نہیں نیکی ہے۔

(جاری ہے)


رفتہ رفتہ وہ موسیٰ کے رنگ میں رنگ گیا اور کچھ دنوں کے بعد ہی وہ اتنی روانی سے جھوٹ بولنے لگا کہ کسی کو شبہ تک نہیں ہوتا تھا۔
ایک دن موسیٰ نے اسے سمجھایا کہ اس کے ماں باپ کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ سب اسی کا تو ہے ۔لہٰذا کبھی کبھار ان سے زیادہ پیسے لینے میں کوئی حرج نہیں۔

موسیٰ کی باتوں میں آکر سہیل نے جھوٹ بول کر اپنے پاپا سے اسکول فنڈ اور غریب دوستوں کی مدد کرنے کے نام پر کئی مرتبہ رقم لی اور موسیٰ کے ساتھ مل کر خوب مزے اُڑائے۔
کہتے ہیں کہ کوئی راز راز نہیں رہتا وہ کبھی نہ کبھی فاش ہو جاتا ہے ۔سہیل کی امی کو پتا چل گیا کہ ان کا بیٹا اب جھوٹ بولنے لگا ہے تو انھیں اتنا دکھ ہوا کہ وہ ہر وقت فکر مند رہتیں۔
وہ بہت نیک اور سلجھی ہوئی ایمان دار خاتون تھیں ،مگر انھوں نے سہیل سے کچھ نہیں کہا اور اپنے شوہر کو اعتماد میں لے لیا اور پھر دونوں نے مل کر کوئی حل ڈھونڈنے کی کوشش میں لگ گئے۔
سہیل کے بابا کپڑے کے بیو پاری تھے۔ان کا ایک چھوٹا ساگودا تھااور وہ زیادہ تر کپڑے خرید کر منافع پروہیں فروخت کر دیتے تھے۔ایک دن وہ گھر بیٹھے کھانا کھارہے تھے کہ ان کے بوڑھے منیجر کا فون آیا کہ رضی سنزوالوں نے کپڑے کی لاٹ کاریٹ دینے کے لیے بلایا ہے۔

اس دن سہیل کے بابا کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔وہ کھانا کھانے کے بعد نماز پڑھ کر آرام کرنا چاہتے تھے۔انھوں نے سہیل کے ذریعے کہلوا بھیجا کہ چالیس روپے کے حساب سے سودا فائنل ہوتا ہے تو وہ کپڑا اُٹھا کر گودا م میں پہنچادیں۔سہیل کو یک دم شرارت سوجھی اور اس نے منیجر سے مذاق کرنے کا سوچا اور انھیں چالیس کے بجائے پچاس روپے بتادیے اور پھر اپنے جھوٹ پر خوب ہنسا،مگر اسی رات اس نے اپنے باباجان کو سخت پریشان پایا اور وہ ان کے کمرے کی طرف آہی رہا تھا تو اسے باتوں کی آواز آرہی تھی اور باتوں کے دوران جب اس نے اپنا نام سنا تو وہ وہیں رک گیا اور پھر اس نے جو کچھ سنا اس نے اس کے ہوش اُرادیے۔

اس کے بابا اس کی امی کو بتارہے تھے کہ وہ چھوٹے سے بیو پاری ہیں جو ایک میٹر کپڑے پر ایک روپیہ پچاس پیسے منافع کماتے ہیں ،مگر سہیل کے ایک جھوٹ کی وجہ سے انھیں لاکھوں روپے کا نقصان ہو گیا ہے ،کیوں کہ سہیل نے منیجرکو پچاس روپے کاریٹ بتایا اور اس نے اسی ریٹ میں کئی سوتھان کپڑا خرید لیا ہے جس کی وجہ سے انھیں بہت سخت نقصان ہو گیا ہے اور اسی کا ازالہ کرتے کرتے ان کا سارا کاروبار ختم ہو جائے گا اور دوسری نوکری کرنے پرمجبور ہو جائیں گے اور دوبارہ نوکری بھی مشکل سے ملے گی۔

سہیل یہ جان کر سخت پریشان ہو گیا ۔اپنے امی ابو کی پریشانی سے بھری باتیں سن کر اس کا دل بیٹھنے لگا ۔اس کی حالت غیر ہونے لگی تھی کہ اس کے بابا نے باہر آکر اسے خود سے لگا لیا اور اس کی امی بھی باہر آگئیں۔
سہیل روتے ہوئے بولا:”باباجان!مجھے معاف کردیجیے،میری وجہ سے آپ کو اتنا نقصان ہو گیا۔میں وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ کبھی جھوٹ نہیں بولوں گا۔
اگر میں نے جھوٹ دوبارہ بولا تو خدا مجھے کبھی معاف نہیں کرے گا۔“
سہیل کی امی نے جلدی سے آگے بڑھ کر اس کے منھ پر ہاتھ رکھ دیا اور اسے خوب رونے دیا تاکہ ندامت کے آنسوؤں میں دھل کر وہ راہ راست پر آجائے۔اسی لمحے سہیل کے بابا نے اس کی امی کی طرف دیکھا اور انگوٹھے کی مدد سے ویل ڈن کا اشارہ کیا وہ بھی چپکے سے مسکرادیں۔اگر منیجر انھیں اتنے زیادہ ریٹ کے بارے میں فون نہ کرتا توانھیں اپنے بیٹے کو راہ راست پر لانے کے لیے ڈراما نہ سوجھتا۔ایک بے ضرر جھوٹ نے سہیل سے جھوٹ بولنے کی عادت ہمیشہ کے لیے چھڑادی تھی۔

Browse More Moral Stories