Two Mothers - Article No. 1813

Two Mothers

دو مائیں - تحریر نمبر 1813

مجھے کچھ نہیں ہو سکتا تھا۔آخر دو دو مائیں میرے لئے دعائیں کر رہی تھیں

بدھ 7 اکتوبر 2020

تسنیم شریف
یہ موسم گرما کی ایک دوپہر کا ذکر ہے۔اس روز موسم خاصا خوش گوار تھا۔پچھلے کئی دنوں کی جھلستی دھوپ میں آج کچھ کمی تھی۔شاید اس لئے امی پڑوسن کے ساتھ بازار گئی ہوئی تھیں۔انھیں میرا نیا یونیفارم خریدنا تھا اور میں اچھی طرح جانتا تھا کہ ان کی واپسی تین چار گھنٹے سے پہلے ممکن نہیں۔ابا جان اپنے کمرے میں سو رہے تھے۔
یعنی راوی ہر طرف چین ہی چین لکھ رہا تھا۔
اس موقع سے فائدہ اُٹھا کر میں نے جو ناول پڑھنا شروع کیا تھا وہ ضخیم تھا اور دلچسپ بھی۔اسے پڑھتے پڑھتے وقت کا احساس ہی نہیں ہوا۔ جب امی نے آکر ہاتھ سے چھینا تب پتا چلا کہ کتنا وقت گزر گیا ہے۔
امی ناول اپنے ساتھ کمرے میں لے گئیں اور ان سے مانگنے کی مجھے جرأت نہ ہوئی۔

(جاری ہے)


اپنے معمول کے کام کرتے ہوے بھی میرا دھیان ناول کی طرف تھا۔

کیا شہزادے نے شہزادی کو کالے دیو کی قید سے چھڑوا لیا ہو گا۔کیا شہزادی اپنے ملک واپس چلی گئی ہو گی۔یقینا دونوں کی شادی ہو جائے گی۔مگر اس سے پہلے شہزادے کا دیو سے مقابلہ بھی تو ہو گا۔ ابھی تو شہزادہ کوہ قاف پہنچا ہی تھا کہ․․․․
اب آگے جو کچھ ہونا تھا وہ کل ہی معلوم ہوتا،کیونکہ ناول امی کے کمرے میں تھا۔میرے دادا کے کمرے میں چار کھڑکیاں تھیں۔
دو سڑک کی طرف کھلتی اور دوگلی کی طرف۔ہمارا گھر گلی کے کونے پر تھا۔میرے کمرے میں ایک ہی کھڑکی تھی جو دادا جان کے کمرے میں کھلتی تھی۔میں اکثر دروازے کے بجائے کھڑکی سے کود کر دادا کے کمرے میں جاپہنچتا۔دادا کے کمرے میں کبوتروں نے گھونسلا بنا رکھا تھا۔
ان کے کمرے کی ساری کھڑکیاں کھلی رہتی تھیں جس سے صرف ہوا ہی نہیں،بلکہ چوہے،بلیاں اور کبوتر بھی آجاتے تھے۔
بلیاں اور چوہے تو واپس چلے جاتے تھے،مگر کبوتروں نے گھر ہی بنا لیا تھا۔
دادا کے انتقال کے بعد کبوتر بھی وہاں سے چلے گئے تھے۔گھونسلا ویران ہو گیا تھا،البتہ بلی اور چوہے اسی طرح آتے جاتے رہے۔میں نے دادا کے کمرے کو اپنا اسٹڈی روم بنا لیا۔مجھے جب بھی کوئی کہانی پڑھنی ہوتی تو میں دادا کی مسہری پر لیٹ جاتا۔کھڑکیوں سے آتی ٹھنڈی ہوائیں،خاموشی اور سکون کہانی کا لطف دوبالا کر دیتے۔

میں بے فکری سے ناول پڑھنے میں مگن ہو گیا۔ناول انتہائی دلچسپ اور سنسنی خیز موڑ پر پہنچ چکا تھا۔شہزادے کا دیو سے سامنا ہو گیا تھا۔اچانک نہ جانے کہاں سے ایک چڑیا چوں چوں کرتی میرے سرہانے بیٹھ گئی۔میں نے جیسے ہی اس کی طرف دیکھا وہ پُھر سے اُڑ گئی۔ میں واپس ناول کی طرف متوجہ ہوا تو چڑیا پھر سے آگئی۔میں نے کوئی توجہ نہ دی۔شہزادہ ،پری کی دی ہوئی جادو کی چھڑی سے دیو کو زیر کرنے ہی والا تھاکہ پھر چڑیا آگئی۔
وہ بے قرار سی کبھی یہاں بیٹھتی کبھی وہاں۔
میں غصے سے اسے دیکھنے لگا۔کہانی کا سارا مزا کر کرا ہو گیا تھا،مگر چڑیا میرے جذبات سے بے پروا چوں چوں کرتی اِدھر اُدھر پھدک رہی تھی۔اچانک مجھے احساس ہوا کہ چڑیا مجھے کچھ کہنا چاہ رہی ہے۔اب کہانیاں پڑھ پڑھ کے مجھ میں اتنی عقل تو آہی گئی تھی۔میں ناول رکھ کر اس کی حرکتیں دیکھنے لگا۔جلد ہی مجھے پتا چل گیا کہ چڑیا مجھ سے کیا کہ رہی ہے۔
چڑیا کا ننھا سا بچہ زمین پر گر گیا تھا۔وہ چاہتی تھی کہ میں اس کے بچے کی مدد کروں۔میں نے ناول ایک طرف رکھا اور چڑیا کے بچے کو اُٹھا لیا۔بچہ کیا تھا گوشت کا لوتھڑا تھا۔آنکھیں بھی بند تھیں البتہ پیٹ خوب پھولا ہوا تھا۔چڑیا نے اسے خوب کھلا پلا رکھا تھا۔آتی جاتی سانسوں سے اس کا پیٹ پھول اور پچک رہا تھا۔میں نے اسے اُٹھایا تو اس نے جھرجھری سی لی۔
اب بچہ تو میں نے اُٹھالیا،مگر اسے رکھوں کہاں؟
چڑیا شاید میری پریشانی بھانپ گئی۔وہ تیزی سے گھونسلے کی طرف گئی،پھر نیچے اُتر آئی۔بار بار گھونسلے میں جاتی اور مجھ سے کچھ فاصلے پر بیٹھ جاتی۔اس نے کبوتر کے گھونسلے کو آباد کر رکھا تھا۔چڑیا نے مجھے یہ تو بتا دیا کہ بچہ کہاں رکھنا ہے،مگر کیسے رکھنا ہے؟اس کا جواب مجھے خود تلاش کرنا تھا۔
میں اسٹور روم سے لکڑی کا اسٹول اُٹھا لایا۔اسٹول پر چڑھ کر بھی میرا ہاتھ گھونسلے تک پہنچنے سے قاصر تھا۔ادھر چڑیا تھی کہ بے قرار ہوئی جا رہی تھی۔میں نے مسہری پر سے گدا ہٹا کے زمین پہ ڈالا اسٹول کو مسہری پر رکھا اور چڑھ کر دیکھا۔گھونسلہ اب بھی ذرا سے فاصلے پر تھا۔میں کچن سے پٹرا اُٹھا لایا۔اب صورت حال یہ تھی کہ مسہری پر پٹرا،پٹرے پہ اسٹول،اسٹول پر میں،میرے ہاتھ میں چڑیا کا بچہ اور میرے سر پر چکراتی چڑیا․․․․․
”یہ کیا ہو رہا ہے؟“امی کی تیز آواز گونجی۔
میں نے گھبرا کر نیچے دیکھا تو اسٹول ڈگمگایا۔میں نے امی کے منہ سے ایک خوف زدہ سی آواز سنی۔میں نے خود کو سنبھالا۔
”نیچے اُترو فوراً۔‘امی نے تیز آواز میں کہا۔میں اپنے ہاتھ میں موجود بچے کو بھول کر اُترنے لگا تھا کہ چڑیا چوں چوں کرتی ایک بار پھر میرے سر پر چکرانے لگی۔میں نے اپنی امی کو دیکھا۔ان کی آنکھوں میں خوف تھا۔انھیں ڈر تھا کہ کہیں میں گر نہ جاؤں۔

ایک طرف میری ماں تھی،جسے میرے گرنے کا اندیشہ تھا۔دوسری طرف وہ ماں تھی جس کا بچہ گر چکا تھا۔نہ میں چڑیا کی زبان سمجھتا تھا نہ چڑیا میری،لیکن مجھے لگا کہ چڑیا شاید امی کی بات سمجھ گئی ہے تب ہی کبھی گھونسلے میں جا بیٹھتی کھڑکی میں اسے کسی پل چین نہ تھا۔میرے سامنے دو مائیں تھیں اور دونوں کے دل دھک دھک کر رہے تھے۔ایک بچہ لا چار تھا اور دوسرا بچہ گرنے سے ڈر رہا تھا۔
میں نے اپنے خوف پر قابو پایا اور ہاتھ بڑھا کر بچے کو گھونسلے میں رکھ دیا۔چڑیا اُر کر گھونسلے میں چلی گئی۔میں بھی آہستگی اور احتیاط سے اسٹول سے اُترا۔میرے نیچے اُترتے ہی امی نے تیزی سے بڑھ کر مجھے لپٹا لیا۔
”اگر تمہیں کچھ ہو جاتا تو؟“انھوں نے رندھی ہوئی آواز میں کہا۔
”مجھے کچھ نہیں ہو سکتا تھا۔آخر دو دو مائیں میرے لئے دعائیں کر رہی تھیں۔“
امی نے میری بات سن کر میرا ماتھا چوما اور دوبارہ مجھے اپنی آغوش میں چھپا لیا۔مجھے یقین تھا کہ اس وقت گھونسلے میں بیٹھی ماں بھی اپنے بچے کو ایسے ہی پیار کر رہی ہو گی۔

Browse More Moral Stories