Uchalne Wala Juta - Pehla Hissa - Article No. 2235

Uchalne Wala Juta - Pehla Hissa

اُچھلنے والا جوتے (پہلا حصہ) - تحریر نمبر 2235

کیا ہی اچھا ہو کہ مجھے بھی تیز دوڑنے والے جوتے مل جائیں۔میں جہاں چاہوں منٹوں میں پہنچ جاؤں۔

پیر 18 اپریل 2022

نیلم علی راجہ
فہد اور احمد دونوں جگری یار تھے۔ایک ہی جماعت میں پڑھنے کے ساتھ دونوں کے گھر بھی ایک دوسرے کے قریب تھے۔تھے تو دونوں فٹ بال کے بہترین کھلاڑی مگر باقی کھیلوں کے میچ دیکھنا ان کا من پسند مشغلہ تھا۔علاقے میں کسی کھیل کا میچ ہوتا دونوں کی حتیٰ الامکان کوشش ہوتی کہ ہر صورت پہنچ جائیں۔چاہے میلوں پیدل سفر کرنا پڑے۔
وہ دونوں صبح فجر کے بعد نکل پڑتے۔ایسا ہی کچھ ہوا جب علاقے میں کرکٹ کا میچ منعقد ہوا۔دونوں کے پاس کوئی سواری نہ تھی۔لہٰذا طے پایا پانچ میل کا سفر پیدل طے کیا جائے گا۔شارٹ کٹ لے چکر میں جنگل والا راستہ منتخب کیا گیا۔دونوں میچ دیکھنے کے شوق میں اس سنسان راستے کی پرواہ کیے بنا چلتے رہے۔فہد تین میل جنگل میں چلتے چلتے تھک کر وہیں مٹی پر ہی بیٹھ گیا۔

(جاری ہے)

”مجھ سے اب اور نہیں چلا جاتا۔“”جلدی اُٹھ یار میچ مس ہو جائے گا۔آج سب سے اہم میچ ہے۔“احمد اسے اُٹھنے اور تیز چلنے پر اُکسا رہا تھا۔
فہد نے گہری گہری سانسیں لیں۔ہاتھ میں پکڑی بوتل سے پانی کے گھونٹ بھرے پھر جھک کر جوگرز کے تسمے صحیح کرنے کے بعد فہد کو دیکھ کر بولا:”کیا ہی اچھا ہو کہ مجھے بھی تیز دوڑنے والے جوتے مل جائیں۔
میں جہاں چاہوں منٹوں میں پہنچ جاؤں۔اور پھر تمہارے بھی روز روز کے طعنے اور گلے شکوے ختم ہو جائیں“۔فہد نے شکل بگاڑ کر کہا۔ایسا ممکن نہیں ہے۔فی الحال تو اپنے ان قدموں پر ہی آپ جناب کو زحمت کرنا ہو گی۔محنت میں عظمت ہے میرے دوست!“احمد نے اس کی پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے کہا۔”دیکھنا ایک دن میں ایسے جوتے خود ایجاد کروں گا۔پھر تم باقی لوگوں کی طرح مجھ سے خریدنے آؤ گے“۔
فہد کالر سیدھے کرتے ہوئے بولا۔”اچھا تو اب تم مجھے بھی جوتے بیچو گے،یعنی اپنے جھڑی دوست سے پیسے لو گے جوتوں کے!“احمد تو غم سے نڈھال شکوں پر اُتر آیا۔
”چلو دل پر مت لو۔تمہیں پہلا جوتوں کا جوڑا گفٹ کر دوں گا۔کیا یاد کرو گے کس سخی دوست سے پالا پڑا ہے۔“فہد نے گردن اکڑاتے ہوئے کہا۔احمد کو اس کے انداز پر ہنسی آ گئی۔اور کہنے لگا:”اچھا میرے شیخ چلی سائنسدان اب جلدی چلیں“!!!
دونوں میچ دیکھنے کے لئے وقت پر پہنچنے کی خاطر ایک بار پھر بھاگتے ہوئے اسٹیڈیم پہنچ گئے۔
گیٹ بند ہونے والا تھا۔جلدی جلدی اپنے پاس دکھا کر دونوں اندر داخل ہو گئے اور کچھ لمحوں بعد گیٹ بند ہو گیا۔
میچ دیکھ کر واپسی کے لئے بھی وہی راستہ منتخب کیا گیا۔جنگل سے گزرتے ہوئے دونوں دوست سکول میں ہونے والے فٹبال میچ کی باتیں کرنے لگے۔”میرا دل چاہتا ہے کہ میرے پاس میجک شوز آ جائیں صرف کل کے لئے ہی سہی۔میں ٹیم ریڈ کو وہ مزا چکھاؤں کہ وہ یاد رکھے“۔
فہد نے جوشیلے انداز میں کہتے ہوئے جمپ لگا کر درخت کی شاخ کو نیچے کھینچا۔شاخ ہلنے سے بہت سے پرندے اِدھر اُدھر اُڑنا شروع ہو گئے۔اور فضا پرندوں کی آوازوں سے گونجنے لگ گئی۔وہاں بیٹھا الو یہ سب سن رہا تھا۔سب پرندے اُڑ گئے مگر الو وہیں بیٹھا رہا۔فہد نے الو کی طرف دیکھ کر اسے ہاتھ کے اشارے سے ہیلو کہا جیسے وہ اس کی بات سمجھ سکتا ہے۔
”یار فہد ایسی خواہش کرو جو پوری ہو سکے۔
“احمد اس کی بات سن کر بولا۔
”یار بس تو دعا کر!دعا کرنے میں کیا حرج ہے“۔فہد نے احمد کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔دونوں ایک دوسرے کی بانہوں میں بانہیں ڈال کر اپنے گھر کی طرف چل دیے۔اگلے دن سکول میں اہم فٹبال میچ تھا۔۔۔
دونوں دوستوں نے میچ کی خوب پریکٹس کی تھی۔صبح سکول کے لئے تیار ہوتے ہوئے جب فہد نے اپنے شوز اُٹھائے تو کچھ عجیب سا محسوس ہوا۔
خیر اس نے سر جھٹک کر جلدی سے اپنے جوتے پہنے۔اور ناشتہ کرکے سکول وین کا انتظار کرنے لگا۔سکول وین کے آتے ہی اس میں سوار ہو گیا۔سکول گیٹ پر اُتر کر اپنی کلاس کی جانب بڑھتے ہوئے اسے محسوس ہوا کہ آج اس کی رفتار معمول سے کچھ تیز ہے۔اپنا وہم سمجھ کر وہ کلاس میں بیگ رکھ کر اسمبلی گراؤنڈ میں چلا گیا۔فٹبال میچ تیسرے پیریڈ کے بعد ہونا تھا۔وہ چونکہ ٹیم میں شامل تھا اس لئے وہ کلاس کی بجائے پریکٹس کے لئے گراؤنڈ میں ہی رُک گیا۔
تیسرے پیریڈ کی گھنٹی بجتے ہی سب بچے اپنی اپنی کلاسوں میں سے لائن بنا کر گراؤنڈ میں قطار در قطار لگی کرسیوں پر بیٹھنا شروع ہو گئے۔
میچ ریفری نے میچ شروع ہونے کی وسل بجائی اور باضابطہ طور پر میچ کا آغاز ہو گیا۔میچ ٹیم ریڈ اور ٹیم بلیو کے درمیان تھا۔ٹیم ریڈ ساتویں کلاس کے بچوں پر مشتمل تھی جبکہ ٹیم بلیو چھٹی کلاس کے بچوں پر مشتمل تھی۔
فہد اور احمد اسی ٹیم کا حصہ تھے۔میچ شروع ہوا۔دونوں ٹیمیں بھرپور دفاع کرتے ہوئے گول کرنے کی ہر کوشش کو ناکام بنا رہیں تھیں۔پہلا گول ٹیم ریڈ کی جانب سے ہو گیا۔سکور بورڈ اب ٹیم ریڈ کے لئے ایک کا ہندسہ اور ٹیم بلیو کے لئے صفر کا ہندسہ دکھا رہا تھا۔گراؤنڈ نعروں سے گونج رہا تھا۔سپورٹرز اپنی اپنی ٹیم کی خوب حوصلہ افزائی کر رہے تھے۔
(جاری ہے)

Browse More Moral Stories