Udhoori Tabeer - Article No. 1792

Udhoori Tabeer

ادھوری تعبیر - تحریر نمبر 1792

میری تعبیر غلط نہیں تھی،آپ ادھوری بات سن کے روانہ ہو گئے تھے،یعنی میں نے ادھوری تعبیر سنی تھی

منگل 1 ستمبر 2020

مدیحہ ذکاء بھٹی
ملک کا فوج کا سپہ سالار حسب معمول اپنے سپاہیوں کے ساتھ شہر کے گشت پر تھا۔وہ مختلف جگہوں سے ہوتا ہوا ایک بازار کے نزدیک پہنچا۔ اچانک اس کی نظر بازار کے کونے میں کھڑے ہوئے ایک بھکاری پر گئی،جو مسلسل اُسے ہی دیکھ رہا تھا۔اس بھکاری کی آنکھوں میں اُسے ایک عجیب سی چمک نظر آئی۔اچانک بھکاری اُس کے قریب آیا۔

”بولو،کیا کہنا چاہتے ہو؟“سپہ سالار اس کو دیکھتے ہوئے بولا۔
بھکاری تھوڑی دیر خاموش رہا پھر وہ سرگوشی میں بولا:”اگر خوش حالی چاہتے ہو تو جنگل کے شمال کی طرف میری کٹیا ہے،وہاں آجانا۔“ یہ کہہ کر وہ ایک طرف کو چل دیا۔سپہ سالار اسے گھورتا ہی رہ گیا۔سپہ سالار کی زندگی نہایت ہی پر سکون طریقے سے گزر رہی تھی کہ ایک دن اس کی بیوی نے فرمائش کر دی کہ اسے بڑا سا محل جیسا گھر چاہیے۔

(جاری ہے)

اس پر وہ بولا:”نیک بخت!موجودہ تنخواہ میں،میں تمہارے لئے محل جیسا گھر کیسے بنوا سکتا ہوں؟“
وہ بولی:”میں کچھ نہیں جانتی،تم سے کم عہدے والوں نے اتنے اچھے اچھے گھر بنوا لیے ہیں اور ہم ابھی تک اس پرانے گھر میں رہ رہے ہیں۔“
وہ روز روز کی تکرار سے تنگ آچکا تھا۔اچانک اسے اس بھکاری کا خیال آگیا جو کچھ عرصے پہلے اسے بازار کے کونے پر ملا تھا اور جو کہہ رہا تھا کہ خوش حالی چاہیے تو جنگل کے شمال کی طرف میری کٹیا ہے وہاں آجانا۔
اس نے اپنے گھوڑے پر زین باندھی اور جنگل کی شمالی سمت چل پڑا۔کچھ دور جنگل میں اسے ایک کٹیا نظر آئی۔اس نے اپنا گھوڑا ایک درخت کے ساتھ باندھا اور کٹیا کے اندر داخل ہو گیا۔اندر وہی بھکاری موجود تھا۔بھکاری نے اسے دیکھا تو اس کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی وہ بولا:”مجھے معلوم تھا کہ تم ضرور آؤ گے۔“
سپہ سالار بولا:”تم میرے لئے خوش حالی کی بات کر رہے تھے۔
مجھے اپنی بیوی کے لئے محل نما گھر چاہیے۔“
بھکاری نے قریب رکھے ہوئے صندوق میں سے اشرفیوں سے بھری چار تھیلیاں نکالیں اور اسے دیتے ہوئے بولا:”میں تمہیں صرف ایک کام کے بدلے اشرفیوں سے بھری ایسی ہزار تھیلیاں دے سکتا ہوں۔“
سپہ سالار اُچھلتے ہوئے بولا:”کیا کہا!ہزار تھیلیاں؟ان سے تو میں دس محل بنوا سکتا ہوں،مگر کام!کام کیا ہے؟“اس کے لہجے میں تجسس تھا۔

بھکاری بولا:”تمہیں اپنے ملک کے کچھ اہم فوجی راز مجھے دینے ہوں گے۔“
سپہ سالار اُچھل پڑا:”کیا!یہ تم کیا کہہ رہے ہو!کون ہو تم؟“
بھکاری بولا:”سوالات مت کرو،خوش حالی ایسے ہی نہیں آجاتی۔کہو،سودا منظور ہے؟“
سپہ سالار کافی دیر تک سوچتا رہا۔آخر اس نے رضا مندی میں سر ہلا دیا اور دوسرے دن کچھ اہم راز بھکاری کے حوالے کر دیے۔
اس نے اپنے ضمیر کا سودا تو کر لیا تھا،مگر وہ بے چینی محسوس کر رہا تھا۔کچھ دنوں سے وہ ایک ہی قسم کا خواب دیکھ رہا تھا۔نہ جانے کیوں اس نے خواب کی تعبیر خود ہی سوچ لی کہ وہ مرنے والا ہے۔آج رات اسے پھر وہ خواب نظر آیا۔وہ بے چین ہو گیا،اس سے رہا نہ گیا اور وہ آدھی رات کو ہی شاہی نجومی کے گھر پہنچ گیا۔دستک سن کر شاہی نجومی آنکھیں ملتا ہوا باہر آیا۔
اس نے اتنی رات کو اپنے دروازے پر سپہ سالار کو دیکھا تو وہ چونک اُٹھا:”خیریت تو ہے۔آپ اتنی رات کو میرے دروازے پر!“
سپہ سالار بولا:”ہاں،دراصل ایک ہی خواب مجھے کئی بار نظر آیا ہے۔میں پریشان ہوں،مجھے اس کی تعبیر بتائیے۔“
شاہی نجومی اسے لے کر اندر آیا اور اس سے خواب سنا۔خواب سننے کے بعد وہ بولا:”اس کی تعبیر یہ ہے کہ اب آپ صرف تین دن تک آسمان دیکھ پائیں گے،اس کے بعد․․․․“
”بس آگے ہم جانتے ہیں۔
ہمیں بس آپ کی تصدیق درکار تھی،سو وہ حاصل ہوئی۔ہم معافی چاہتے ہیں کہ اتنی رات میں آپ کو ناحق تکلیف دی۔“یہ کہہ کر وہ فوراً باہر کی طرف چل دیا۔شاہی نجومی اُسے ہکا بکا جاتا ہوا دیکھتا رہ گیا۔صبح سویرے ہی سپہ سالار محل روانہ ہوا۔وہ بادشاہ سے فوراً ملاقات کرنا چاہتا تھا۔بادشاہ سلامت کے طلب کرنے پر وہ ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور بولا:”بادشاہ سلامت!میں آپ سے آج ایک اہم بات کرنے والا ہوں۔

”ہاں کہو،ہم ہمہ تن گوش ہیں۔“بادشاہ بولا۔
سپہ سالار سر جھکاتے ہوئے بولا:”بادشاہ سلامت!میں اب اس دنیا میں تین دن سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکتا،مگر دنیا سے جانے سے پہلے میں اپنے جرم کا اعتراف کرنا چاہتا ہوں ،تاکہ اپنابوجھ کم کرکے اس دنیا سے رخصت ہوں۔“
”کیا جرم کیا ہے تم نے؟“بادشاہ نے پوچھا۔
”سپہ سالار بولا:”دراصل دولت کی لالچ میں آکر میں نے اپنے ملک کے کچھ دفاعی راز پڑوسی ملک کو فراہم کر دیے ہیں۔

”کیا!یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟“بادشاہ نے غصے میں کہا۔
”جی ہاں ،اور وہ بہت جلد ہمارے ملک پر حملے کی تیاری کر رہے ہیں۔“سپہ سالار بولا۔یہ سن کر بادشاہ کا چہرہ سرخ ہو گیا اور وہ غصے سے بولا:” تم نے غداری کی ہے اور اس کی سزا موت ہے۔“بادشاہ نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیتے ہوئے کہا:”لے جاؤ،اسے اور زندان میں ڈال دو،کل ہم اسے سر عام پھانسی دیں گے۔
“ابھی سپاہی اسے پکڑ کر لے جاہی رہے تھے کہ اچانک باہر سے دو سپاہی بھاگتے ہوئے آئے اور بولے:”بادشاہ سلامت!مجھے صرف ایک موقع دیں۔مرنے سے پہلے میں کفارہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔میں نے دشمنوں کو راز دیا ہے تو میں اس کا تدارک بھی میں ہی کر سکتا ہوں۔آپ مجھ پر بھروسا رکھیے۔“
بادشاہ سلامت نے کچھ دیر سوچنے کے بعد کہا:”ٹھیک ہے،مگر میرے سپاہی تم پر مسلسل نظر رکھیں گے۔

اس نے بادشاہ کا شکریہ ادا کیا اور تلوار لہراتا ہوا دشمنوں کی طرف لپکا۔جنگ مسلسل تین دن تک جاری رہی۔سپہ سالار نے جو کہا تھا،سچ کر دکھایا۔دشمنوں کو منہ کی کھانی پڑی۔جنگ کے بعد اب سپہ سالار بادشاہ کے رو برو کھڑا تھا۔بادشاہ بولا:”گو کہ تم پھانسی کی سزا کے مستحق ہو، لیکن تم نے اپنے گناہ کا کفارہ ادا کرتے ہوئے دشمنوں کو خاک چٹائی ہے،اس لئے ہم تمہاری پھانسی کی سزا ختم کرکے معمولی سزا دے رہے ہیں،یعنی سال بھر کے لئے اندھیرے کنویں میں رہنے کی سزا۔

وہ بولا:”لیکن میں نے جو خواب دیکھا تھا اس کے مطابق تو میری موت واقع ہونی تھی۔شاہی نجومی نے بھی اس کی تصدیق کی تھی۔“
بادشاہ بولا:”موت تو برحق ہے اور ہر شخص کو اس کا مزہ چکھنا ہے۔اگر تم یہ گناہ کرنے سے پہلے ہی اپنی موت کو یاد رکھتے تو کبھی اس گناہ کے مرتکب نہ ہوتے۔کیا ضروری ہے کہ جب انسان اپنی موت کو اپنی آنکھوں سے دیکھے جب ہی گناہوں سے باز آئے۔
جب موت برحق ہے تو انسان اسے یاد کرکے اپنے گناہوں سے کیوں باز نہیں آتا۔“یہ کہہ کر بادشاہ خاموش ہو گیا۔
سپاہی جب اسے لے جانے لگے تو پاس ہی شاہی نجومی بھی کھڑا تھا۔وہ نجومی سے بولا:”اس کا مطلب ہے کہ تمہاری بتائی ہوئی تعبیر غلط تھی؟“
نجومی بولا:”میری تعبیر غلط نہیں تھی،آپ ادھوری بات سن کے روانہ ہو گئے تھے،یعنی میں نے ادھوری تعبیر سنی تھی۔

ادھوری تعبیر،کیا مطلب؟“سپہ سالار نے پوچھا۔
نجومی نے کہا:”میں نے کہا تھا کہ آپ صرف تین دن تک آسمان دیکھ پائیں گے،اس کے بعد․․․․آپ پوری بات سنے بغیر اپنی موت ازخود تجویز کرتے ہوئے چلے گئے تھے۔پوری تعبیر یہ تھی کہ آپ تین دن تک سورج دیکھ سکو گے،اس کے بعد آپ بہت دنوں تک ایک ایسی جگہ رہیں گے،جہاں سے آپ سورج نہیں دیکھ پائیں گے۔“

Browse More Moral Stories