Uss Duniya Ke Joote - Article No. 2259

Uss Duniya Ke Joote

اُس دنیا کے جوتے - تحریر نمبر 2259

میں نے بالکل تم پر یقین نہیں کیا کہ تم کسی بونے سے ملی ہو،لیکن اب میں مانتی ہوں،کیونکہ یہ جوتے اس دنیا کے نہیں ہیں

جمعرات 19 مئی 2022

احمد عدنان طارق
بریرہ نے چلا کر امی کو پکارا جو باورچی خانے میں کیک بنا رہی تھیں اور انھیں بتایا:”امی مجھے تزئین نے اپنی سالگرہ پر بلایا ہے۔کیا میں جا سکتی ہوں؟“
امی بولیں:”اگر تم کوئی شرارت نہ کرو تو تم اپنا نیلا نیا لباس پہن کر جا سکتی ہو۔“
بریرہ نے امی سے پوچھا:”لیکن امی!میں جوتے کون سے پہنوں گی۔
میرے پاس نیلے لباس کے ساتھ پہننے کے لئے نیلے جوتے نہیں ہیں اور میرے پرانے جوتے چھوٹے ہو گئے ہیں اور میرے پیروں میں پورے نہیں آتے۔“
امی نے اس سے کہا:”اچھی بات ہے میں تمہیں نیلے جوتے خرید دیتی ہوں،لیکن تمہیں ان دنوں میں شرارتوں سے بچ کر اور اچھی بچی بن کر رہنا ہو گا،ورنہ میں تمہیں جوتے خرید کر نہیں دوں گی۔

(جاری ہے)


بریرہ نے یہ نصیحت سن کر تہیہ کر لیا کہ وہ اچھی بچی بن کر رہے گی،لیکن کسی نہ کسی وجہ سے اس سے غلطی ہوتی رہی۔

بریرہ کے ہاتھ سے امی کا پسندیدہ چائے کا کپ گر کر ٹوٹ گیا۔پھر ایک دن وہ پھولوں کا قیمتی گلدان اُٹھا کر لا رہی تھی کہ وہ بھی زمین پر گر کر ٹوٹ گیا اور اس کا سارا پانی قالین پر گر گیا۔
بریرہ کی امی بہت ناراض ہوئیں۔بریرہ نے امی سے معافی مانگی۔اس نے دل میں سوچا کہ اللہ کرے امی اتنی ناراض نہ ہوں کہ وہ جوتے ہی نہ لے کر دیں۔اس نے دوبارہ دل میں پکا ارادہ کیا کہ اسے سالگرہ سے پہلے کوئی غلطی نہیں کرنی چاہیے،لیکن پھر غلطی ہو ہی گئی۔
اس نے اپنی جرابوں کا نیا جوڑا گم کر دیا۔
امی نے بریرہ کو غصے سے گھورتے ہوئے کہا:”بریرہ!یہ تمہارے لئے سالگرہ سے پہلے آخری موقع ہے۔اگر تم نے اب کوئی بے وقوفی یا شرارت کی تو تم اپنے جوتوں سے محروم ہو جاؤ گی۔“
بریرہ کو علم تھا کہ اس کی امی جو کہہ رہی ہیں اس پر عمل بھی کریں گی۔اگلے دو دن بریرہ بہت اچھی بچی بنی رہی۔پھر وہ دن آیا،جس سے اگلے دن تزئین کی سالگرہ تھی۔
بریرہ نے پوچھا:”امی!کیا میں بازار جا کر جوتے خرید سکتی ہوں؟“
امی بولیں:”ضرور!میں تمہیں سہ پہر کے وقت بازار لے جاؤں گی،لیکن ابھی تم جاؤ اور خالہ ماریہ کو میرا یہ رقعہ دے کر آؤ۔سیدھی جاؤ اور جلدی واپس آنا۔تمہارے پاس صرف اتنا وقت ہے کہ تم واپس آ کر دوپہر کا کھانا کھا سکو۔اتنی دیر میں شہر جانے کے لئے اکلوتی بس کا وقت ہو جائے گا جس کے ذریعے میں تمہیں شہر جا کر نئے جوتے دلا دوں گی۔

بریرہ بولی:”بہت اچھا امی جان!میں انشاء اللہ وقت پر پہنچ جاؤں گی۔“
وہ رقعہ لے کر بھاگ کھڑی ہوئی۔راستے میں ایک جنگل آتا تھا۔بریرہ کو راستہ معلوم تھا۔وہ تیزی سے جنگل سے گزرنے لگی۔راستے میں بہت خوبصورت پھول کھلے ہوئے تھے،لیکن بریرہ انھیں دیکھنے کے لئے بھی کھڑی نہیں ہوئی۔پھر وہ خالہ کے گھر پہنچی۔انھیں رقعہ دیا،ان سے جوابی رقعہ لیا اور گھر کی طرف تیزی سے روانہ ہو گئی۔
وہ سوچ رہی تھی کہ امی خوش ہوں گی،کیونکہ میں وقت سے پہلے ہی واپس پہنچ جاؤں گی۔
وہ جنگل والے راستے سے واپس جا رہی تھی کہ راستے میں اس نے کسی کی افسردہ آواز سنی۔یہ عجیب سی آواز تھی۔نہ یہ آواز کسی جانور کی تھی اور نہ کسی پرندے کی۔بریرہ حیران تھی کہ یہ کس کی آواز ہو سکتی ہے۔وہ ایک لمحے کے لئے رُکی اور اِدھر اُدھر دیکھنے لگی۔تبھی درختوں سے کوئی چیز نکلی اور دوڑتی ہوئی اس کی طرف آئی۔
اسے دیکھ کر بریرہ کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔وہ ایک بہت چھوٹا سا شخص تھا۔وہ بریرہ سے بھی قد میں کہیں چھوٹا تھا اور زار و قطار رو رہا تھا۔
وہ چلایا:”چھوٹی لڑکی!آؤ میرے ساتھ۔میری مدد کرو۔میری تتلیوں کے پَر کانٹوں میں پھنس گئے ہیں۔“
بریرہ اس کی طرف دوڑی جس طرف بونے نے اشارہ کیا تھا۔اس نے وہاں ایک حیرت انگیز منظر دیکھا۔
وہاں ایک بہت خوبصورت رتھ کھڑا تھا،جسے پانچ تتلیاں کھینچ رہی تھیں،لیکن کسی نہ کسی طرح وہ ایک کانٹوں سے بھری ہوئی جھاڑی میں اُلجھی ہوئی تھیں۔آزاد ہونے کے لئے ان کے زور لگانے سے ان کے پَر پھٹ چکے تھے۔
بونا اپنی آنکھیں پونچھتا ہوا بولا:”کیا تم میری مدد کرو گی؟اگر تم رتھ کی باگیں مضبوطی سے پکڑ لو تو میں تتلیوں کے پَر آزاد کروا سکتا ہوں،لیکن اس میں کچھ وقت لگے گا۔

بریرہ بولی:”اوہ خدایا!میں تو دل و جان سے مدد کرنا چاہتی ہوں،لیکن میری امی کا حکم ہے کہ جلدی واپس آؤں۔انھیں شہر سے نئے جوتے لے کر مجھے دینے ہیں جو مجھے کل اپنی سہیلی کی سالگرہ پر پہننے ہیں۔میں دیر سے گئی تو میری بس چھوٹ جائے گی۔“
بونا پھر رونے لگا اور بولا:”ٹھیک ہے میں سمجھ سکتا ہوں۔اوہ میری خوبصورت تتلیاں!وہ مر جائیں گی۔
اگر تم راستے میں کسی اور بچی سے ملو جسے شہر سے جوتے نہ لینے ہوں تو اسے کہنا ہماری مدد کے لئے اِدھر آ جائے۔“
بریرہ نے اس کی طرف دیکھا اور پھر تتلیوں کی طرف اسے معلوم تھا کہ جنگل کے راستے میں وہ کسی اور سے نہیں مل سکتی۔اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے۔پھر اچانک اس نے اپنے ذہن میں ایک فیصلہ کر لیا۔
وہ بولی:”مت روؤ۔
میں یہیں رہ کر تمہاری مدد کرتی ہوں۔ہو سکتا ہے میں کھانے تک وقت پر پہنچ ہی جاؤں۔“
بونے نے اپنی آنکھیں پونچھتے ہوئے اسے کہا:”تمہارا ہزار دفعہ شکریہ،اب آؤ اور مضبوطی سے باگیں پکڑ لو۔میں جاتا ہوں اور تتلیوں کو پُرسکون کرتا ہوں۔“
بریرہ چھلانگ لگا کر رتھ پر چڑھ گئی اور مضبوطی سے باگیں پکڑ لیں۔بونا دوڑ کر تتلیوں کے پاس پہنچا اور نوکیلے کانٹوں سے ان کے پَر آزاد کروانے لگا۔
ایک کے بعد ایک کو اس نے آزاد کروایا۔
خاصا وقت لگ گیا،کیونکہ تتلیوں کے پَر بہت نازک ہوتے ہیں۔آخر یہ کام مکمل ہو گیا۔بونے نے بریرہ سے خوشی خوشی کہا۔تتلیاں آزاد ہو چکی ہیں۔تمہارا تہ دل سے شکریہ۔مجھے اُمید ہے کہ تم وقت پر پہنچ جاؤ گی۔“
بریرہ بولی:”مجھے ابھی اُمید ہے۔خدا حافظ۔اللہ کرے تم بھی گھر خیریت سے پہنچ جاؤ۔“
اب اس نے دوڑنا شروع کیا۔
وہ زندگی میں اس سے تیز کبھی نہیں بھاگی تھی،جتنی اس دن بھاگی۔وہ ہانپتی کانپتی گھر پہنچی۔امی بولی:”راستے میں بریرہ آخر تم کیا کرنے بیٹھ گئی تھیں۔کھانا کب کا میں نے کھا لیا اور بس باکل تیار کھڑی ہے۔“
بریرہ روہانسی ہو کر بولی:”امی!میں کچھ نہیں کر سکتی تھی راستے میں ایک بونا مجھے ملا تھا․․․“
امی ڈانٹ کر بولیں:”جھوٹ نہ بولو۔
تمہارے نیلے جوتے تمہیں نہیں مل سکتے۔“
بریرہ بولی:”امی!جوتوں کے بغیر تو میں سالگرہ پر بھی نہیں جا سکوں گی۔میرے پاس اور جوتے بھی نہیں ہیں۔“
امی بولیں:”یہ تمہارا اپنا قصور ہے۔تم ایک بے وقوف لڑکی ہو۔اب جاؤ اور کھانا کھاؤ اور اس بارے میں اب ایک لفظ سننا نہیں چاہوں گی۔“
بے چاری بریرہ وہ کھانے کی میز پر بیٹھ تو گئی،لیکن اس سے کھانا کھایا نہیں گیا۔
وہ بہت مایوس تھی۔اس نے بس کو جاتے دیکھا تو نوالہ اس کے حلق میں اٹک گیا۔جوتے نہیں تو سالگرہ بھی نہیں۔وہ بہت افسردہ تھی۔باقی دن اسے چھوٹے بھائی کو کھلانا پڑا اور شام کو اسکول کا کام۔وہ جلدی سو گئی تاکہ کچھ مایوسی کم ہو۔اگلی صبح وہ جلدی اُٹھ گئی۔اس نے چاہا کہ امی کے لئے چائے بنائے۔اس نے گھر کا دروازہ کھول کر دیکھا کہ کیا گوالہ دودھ چھوڑ گیا ہے یا نہیں۔

لیکن وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ سیڑھیوں پر ایک ڈبا پڑا ہوا تھا۔وہ شوخ پیلے رنگ کا تھا اور نیلی ڈوری سے بندھا ہوا تھا۔اس پر ایک چھوٹا رقعہ تھا جس پر لکھا تھا:”اس چھوٹی بچی کے لئے جس نے تتلیوں کی جان بچائی۔“
بریرہ نے تیزی سے ڈبا اُٹھایا،اس کی ڈوری کھولی اور ڈھکن اُٹھا کر دیکھا۔آپ اندازہ نہیں لگا سکتے ہیں کیا؟کہ اس ڈبے میں کیا تھا۔
اس میں تھا دنیا کا خوبصورت ترین،نفیس ترین ریشمی تاروں سے بُنا ہوا نیلے جوتوں کا جوڑا۔دونوں جوتوں پر دو سنہری تتلیاں جڑی ہوئی تھیں۔ان کا قد اتنا ہی بڑا تھا جتنی کل والی تتلیاں۔بریرہ نے خوشی سے نعرہ لگایا۔اس نے جلدی سے جوتے پہننے کی کوشش کی۔وہ بالکل پاؤں کے ناپ کے تھے۔اس نے اپنی زندگی میں اس سے خوبصورت جوتے کسی دکان پر رکھے ہوئے نہیں دیکھے تھے۔

وہ دوڑتی ہوئی امی کے پاس پہنچی اور کہنے لگی:”امی․․․․امی!دیکھیں وہی بونا سالگرہ میں پہننے کے لئے جوتے لے کر آیا ہے۔مجھے لگتا ہے اسے معلوم تھا کہ مجھے دیر ہو گئی ہے اور میں جوتے نہیں خرید سکتی۔“ظاہر ہے اب امی کو بریرہ کی بات ماننی ہی پڑی۔وہ بہت خوش ہوئیں۔
وہ بریرہ سے کہنے لگیں:”اس تحفے کی تم حق دار تھیں۔میں نے بالکل تم پر یقین نہیں کیا کہ تم کسی بونے سے ملی ہو،لیکن اب میں مانتی ہوں،کیونکہ یہ جوتے اس دنیا کے نہیں ہیں۔تم انھیں پہن کر بہت پیاری لگو لگی۔“
بریرہ بولی:”واہ جی واہ!ہر چیز ٹھیک ہو گئی۔میں سالگرہ میں جاؤں گی۔“
اور واقعی سالگرہ میں وہ جوتے پہن کر سب سے پیاری لگ رہی تھی۔

Browse More Moral Stories