Ustad Ka Khawab - Article No. 2374

Ustad Ka Khawab

استاد کا خواب - تحریر نمبر 2374

مجھے اس گاؤں کے بچوں کے لئے ایک اسکول قائم کرنا تھا

منگل 18 اکتوبر 2022

جدون ادیب
میں محکمہ تعلیم میں اوسط درجے کا ایک سرکاری افسر ہوں اور شہر سے خاصی دور اس گاؤں میں ایک خاص مقصد کے تحت آیا تھا۔مجھے اس گاؤں کے بچوں کے لئے ایک اسکول قائم کرنا تھا،مگر اس سلسلے میں پہلے ایک سروے رپورٹ تیار کرنی میری ذمے داری تھی۔مجھے بتایا گیا تھا کہ یہ کام اتنا آسان نہ ہو گا۔وجہ یہ تھی کہ گاؤں کا سردار وہاں اسکول قائم کرنے کے خلاف تھا،کیونکہ تعلیم عام ہونے کے بعد اس کی سرداری خطرے میں پڑ جاتی،مگر چونکہ ایک معلم نے اس کام کے لئے کوشش کی تھی اور ایک بڑی رقم بھی مہیا کی تھی تو اسے ہر حال میں تکمیل تک پہچانا میری ذمے داری تھی۔
میں نے تیزی سے کام شروع کیا۔چند روز بعد مجھے اس وقت چند مسلح افراد نے گھیر لیا،جب میں مختلف زاویوں سے علاقے کی تصاویر بنا رہا تھا۔

(جاری ہے)

اغواکاروں نے مجھ سے میرا مقصد پوچھا تو میں نے سب کچھ بتا دیا،مگر یہ نہ بتایا کہ کس کی خواہش پر یہ کام ہو رہا ہے۔
پستول کی نالی میری کن پٹی سے لگی ہوئی تھی۔اغواکاروں کا رویہ انتہائی سخت تھا،مگر وہ جو چاہتے تھے،میں نہیں کر سکتا تھا۔

آخر اغواکار نے ٹریگر پر اُنگلی رکھی اور پوچھا:”آخری بار پوچھ رہا ہوں،اس منصوبے کے پیچھے کون ہے،بتاؤ،ورنہ گولی مار دوں گا۔“
ابھی میں نے کوئی جواب نہیں دیا تھا کہ اسی وقت کمرے کا دروازہ دھڑام سے کھلا اور ایک رعب دار چہرے والا شخص اندر داخل ہوا،جسے دیکھ کر سارے اغواکار مستعد ہو گئے۔وہ چند لمحے تک مجھے غور سے دیکھتا رہا اور پھر سوالیہ نظروں سے ایک طرف کھڑے اغواکار کی طرف دیکھا تو وہ ادب سے بولا:”خان بھائی!اس نے کچھ نہیں بتایا اور موت سے بھی نہیں ڈرا۔

”اور پیسہ؟“
”پیسے کی کوئی بات نہیں کی ہے۔“
”ٹھیک ہے اسے بیس لاکھ دے دو۔“اگر پھر بھی نہ مانے تو اسے گولی مار کر اس کی لاش کو جنگل میں پھینک دو۔“خان نے حکم صادر کیا اور اسی انداز سے لوٹ گیا۔
اغواکاروں نے میرے سامنے بریف کیس رکھا اور اسے کھول کر بڑے نوٹوں کی گڈیاں دکھائیں،سوچنے کے لئے ایک گھنٹے کی مہلت دے کر مجھے اکیلا چھوڑ کر چلے گئے۔

میرے سامنے نوٹوں سے بھرا ہوا بریف کیس تھا،زندگی داؤ پر لگی ہوئی تھی۔میں نے سوچا کہ میں کوئی طاقتور انسان نہیں ہوں اور سب سے اہم بات یہ کہ اغواکار جو راز جاننا چاہتے تھے،اسے بتا دینے میں کوئی حرج بھی نہیں ہے۔یہ نوٹ میری قسمت بدل سکتے تھے اور شاید یہ میری بہادری کا خراجِ تحسین ہوتا۔ایک گھنٹے بعد اغواکار واپس آئے۔میں نے قبولیت ظاہر کرکے خان سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔
اغواکاروں نے مجھے کھول دیا۔خان دوڑا چلا آیا۔اس نے سب سے پہلے یہی سوال کیا:”بتاؤ،ہمارا دشمن کون ہے؟“
میں اس عجیب و غریب سوال کا اتنا ہی عجیب جواب کا سوچ کر مسکرایا اور بولا:”خان!وہ آپ لوگوں میں سے ہے۔آپ ہی کا خون ہے۔“
خان کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا۔تب میں نے کہا:”خان جی!آپ کے گاؤں میں اسکول کھلے گا۔
شجاعت خان پبلک اسکول!“
خان بُری طرح چونکا اور زیرِ لب بُڑبُڑایا:”شجاعت خان․․․․!“
میں نے انکشاف کرنے والے انداز میں کہا:”خان جی!اس سارے منصوبے کے پیچھے آپ کے والد سر شجاعت خان کا ہاتھ ہے۔
وہی شجاعت خان،جنھیں آپ کے دادا نے تعلیم کے شوق پر اتنا ستایا کہ وہ یہ گاؤں چھوڑ کر شہر چلے گئے۔بعد میں انھوں نے معلمی کا پیشہ اختیار کیا۔ہزاروں بچوں کو تعلیم سے روشناس کرایا اور پھر جو کما کر جمع کیا تھا،اسے حکومت کو پیش کرکے اپنے گاؤں کے لوگوں کے لئے اسکول کھولنے کی درخواست کی،جو منظور بھی ہو گئی،انہی کی خواہش پر یہ سارا کام ہو رہا ہے۔

خان کا چہرہ لٹک گیا۔اس نے کرسی کا سہارا لیا پھر کرسی پر گر گیا۔اس نے کچھ کہنے کی کوشش کی،مگر الفاظ نے اس کا ساتھ نہ دیا۔آخر اس نے لب کھولے اور پھنسی پھنسی آواز میں کہا:”میرے بابا․․․․․․!“
”وہ اس دنیا میں نہیں رہے!“میں نے سپاٹ لہجے میں کہا۔
اتنا سنتے ہی خان کی آنکھیں چھلک پڑیں۔اس نے بہت کوشش کی،مگر اپنے آنسوؤں پر قابو نہ رکھ سکا۔
میں خاموشی سے اسے دیکھتا رہا۔کئی لمحے گزر گئے،تب میں نے کہا:”بڑے خان یعنی آپ کے دادا تعلیم کے خلاف تھے اور آپ کے والد تعلیم سے محبت کرنے والے انسان،وہ صرف بڑے خان پر دباؤ ڈالنے کے لئے گھر سے نکلے تھے،مگر پھر حالات ایسے ہو گئے کہ وہ واپس نہ آ سکے۔پھر پتا چلا کہ وہ ٹرین کے حادثے میں مارے گئے،جب کہ حقیقت یہ تھی کہ ریلوے اسٹیشن سے جس شخص کی لاش ملی تھی،وہ چور تھا،جو آپ کے والد کا سامان چُرا کر بھاگا تھا اور ٹرین کی زد میں آکر مارا گیا۔
اسے آپ لوگوں نے شجاعت خان سمجھ لیا اور انھوں نے بھی سوچا کہ اب کچھ بن کر ہی واپس گھر جانا چاہیے،مگر وہ واپس نہ آ سکے۔“
”کاش․․․․․کاش!پتا ہوتا کہ وہ زندہ ہیں۔“خان تاسف سے سر پٹخنے لگا۔میں چپ چاپ اسے دیکھتا رہا پھر بولا:”اب آپ کے دادا بھی دنیا میں نہیں رہے،نہ والد،آپ فیصلے کے مجاز ہیں۔میں ایک معمولی سرکاری اہلکار ہوں۔
میرا کام ختم ہو چکا۔آگے حکومت جانے،آپ جانیں!مجھے جانے دیں۔“
خان گہری نظروں سے مجھے دیکھنے لگا۔پھر نوٹوں سے بھرا بریف کیس میری طرف بڑھا کر بولا:”یہ آپ کا ہوا،آپ جا سکتے ہیں۔“
میں نے بریف کیس کو بند کیا اور اسے خان کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا:”خان!سر شجاعت خان جیسے عظیم لوگ میرے استاد رہے ہیں۔پیسے کی ہماری نظر میں کوئی وقعت نہیں رہی،یہ پیسہ آپ اپنے گاؤں کے لوگوں پر خرچ کریں اور میری درخواست ہے کہ اپنے والد صاحب کی خواہش پوری ہونے دیں۔
بے شک تعلیم آپ جیسے حاکم لوگوں کے لئے نقصان دہ ہے،مگر زمانہ بدل رہا ہے۔بچوں کو پڑھنے دیں۔آپ ان کو ڈرا کر ان سے اپنا احترام کرا رہے ہیں،مگر وہ دل سے آپ کا احترام کریں گے،کیونکہ تعلیم کوئی بُری چیز نہیں اور نہ آپ کے والد کا فیصلہ غلط تھا۔“
جب میں گاؤں سے رخصت ہو رہا تھا تو خان مجھے الوداع کہنے آیا۔اب وہ ایک بدلا ہوا انسان لگ رہا تھا۔
اس نے مجھے گلے لگایا اور بھرائے ہوئے لہجے میں بولا:”الوداع وسیم صاحب!“
میں نے خان کا ہاتھ تھاما اور بولا:”خان!اگر اسکول کا افتتاح آپ اپنے ہاتھوں سے کریں گے تو آپ کے والد کی روح کو سکون ملے گا۔“
”میں ایسا ہی کروں گا۔“خان نے مضبوط لہجے میں کہا۔
اور پھر جب تک میری جیپ خان کے نظروں سے اوجھل نہ ہو گئی۔وہ دیکھتا رہا اور الوداعی انداز میں ہاتھ ہلاتا رہا اور مجھے یقین تھا ہم جلد پھر ملیں گے،جب کچھ عرصے بعد اس گاؤں کے پہلے اسکول کا سنگِ بنیاد رکھا جائے گا․․․․“

Browse More Moral Stories