Waqt Ka Dost - Article No. 2092

Waqt Ka Dost

وقت کا دوست - تحریر نمبر 2092

جس نے وقت سے دوستی کر لی،وہ کامیاب ہو گیا

بدھ 20 اکتوبر 2021

نذیر انبالوی
وقار کے والدین گھر پر نہیں تھے۔وہ اپنے پرانے نوکر سکندر کے ساتھ گھر پر تھا۔ماسٹر صاحب ٹیوشن پڑھانے آچکے تھے۔سکندر اسے بلانے آیا تو وقار نے ایک ہاتھ پیٹ پر رکھ لیا:”میں درد سے بے حال ہو رہا ہوں اور تمہیں ماسٹر جی کی پڑی ہے،آج میں آرام کروں گا۔جاؤ،سر کو بتاؤ۔“وقار نے کراہتے ہوئے سکندر سے کہا۔

”جی چھوٹے صاحب!ماسٹر جی کو بتاتا ہوں۔“اسے یقین تھا کہ چھوٹے صاحب بہانے بازی کر رہے ہیں۔ماسٹر صاحب نے یہ بات سن کر افسردہ لہجے میں کہا:”اچھا تو پھر میں چلتا ہوں،کل آؤں گا۔“
ماسٹر جی کے جاتے ہی سکندر گیٹ کے پاس کرسی پر بیٹھ کر اونگھنے لگا۔اسے اپنا ماضی یاد آنے لگا۔وہ بھی پڑھائی سے بھاگتا تھا۔ایک دن اس کا دل سکول میں نہیں لگ رہا تھا۔

(جاری ہے)

چھٹی ہونے کا وقت ابھی بہت دور تھا۔کتابیں،کاپیاں اور کرسی پر بیٹھے ماسٹر جی کچھ بھی تو اسے اچھا نہیں لگ رہا تھا۔اس کا دل چاہتا تھا کہ بستہ اُٹھائے اور سکول سے باہر نکل جائے۔وہ جب بھی ایسا کرنے کا سوچتا سکول گیٹ پر موجود چوکیدار کے موٹے ڈنڈے پر اس کی نظر ٹھہر جاتی تھی۔پھر سوچتے سوچتے ایک ترکیب اس کے ذہن میں آئی۔اگلے ہی لمحے اس نے ترکیب پر عمل کر ڈالا۔
اچانک وہ ڈیسک سے گر کر بے ہوش ہو گیا۔
”سر جی․․․․․سر جی!سکندر بے ہوش ہو گیا ہے۔“بچوں نے شور مچایا۔
کچھ دیر بعد سکندر نے آنکھیں کھولیں تو سر آفتاب اور ہیڈ ماسٹر صاحب اس کے پاس کھڑے تھے۔
”آفتاب صاحب!اسے گھر چھوڑ کر آئیے۔“ہیڈ ماسٹر صاحب نے کہا۔
”نہیں،نہیں میں خود چلا جاؤں گا۔“سکندر دل میں بے انتہا خوش تھا۔
اس نے انتہائی کامیاب اداکاری کی تھی۔
گھر میں قدم رکھتے ہی اماں نے اس کی بلائیں لیں اور لسی پلائی۔
سکندر نے دل کھول کر وقت کو ضائع کیا تھا اور یہی سمجھتا تھا کہ نقصان والی کوئی بات نہیں،مگر وقت کے تیز دھارے نے اسے وقار کے ابو کے پاس ایک ملازم کی حیثیت سے لا کھڑا کیا تھا۔اس نے بہانے بازی کرتے ہوئے جس طرح وقت کو ضائع کیا تھا۔
آج اسے اس کی قیمت صبح سے شام تک کام کی صورت میں ادا کرنا پڑ رہی تھی۔تنخواہ بھی اتنی نہ تھی کہ زندگی کی گاڑی آسانی سے چل سکے۔
تین دن بعد وقار کے امی ابو واپس آئے۔سر بلال انھیں وقار کے بارے میں بتا چکے تھے کہ وقار نے ایک دن بھی نہیں پڑھا۔وقار سر جھکائے ابو کے سامنے کھڑا تھا۔اسے اپنا وقت ضائع ہونے کا نہیں آزادی ختم ہونے کا افسوس تھا۔
امی جان نے اس پر کڑی نگرانی رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔وقار کو یہ نگرانی ایک آنکھ نہ بھاتی تھی۔اب اس نے وقت برباد کرنے کا ایک طریقہ اور ایجاد کیا تھا۔
سر بلال جب سوال سمجھا چکے تو وقار کہتا:”میری سمجھ میں نہیں آیا،دوبارہ سمجھائیے۔“
صرف ایک ہی مضمون پر اتنا وقت صرف کرتا تھا کہ دوسرے مضامین کی باری ہی نہ آتی تھی۔
سکندر کے ماموں نے آبائی زمین بیچی تھی،جس میں سے سکندر کی والدہ کو نقد رقم ملی تھی۔
ماموں نے سکندر کا بینک اکاؤنٹ نہ ہونے کے باعث وہ رقم وقار کے ابو جان کے اکاؤنٹ میں بھیجی تھی۔بینک میں وقار کے ابو،سکندر اور وقار موجود تھے۔وہ سکندر کا بینک اکاؤنٹ کھلوانے آئے تھے۔سکندر نے شیشے میں جھانکا تو ایک بڑی سے میز کے پیچھے اعجاز نظر آیا۔چند منٹوں بعد دونوں بغل گیر ہو رہے تھے۔
”یہ تمہارا ہم جماعت ہے؟“حیران ہو کر سکندر سے پوچھا۔

”جی چھوٹے صاحب!اعجاز میرا ہم جماعت ہے۔میں بہانے بنا کر وقت ضائع کرتا رہا اور اس نے وقت کا درست استعمال کیا اور یہاں تک پہنچ گیا۔ہمارے ماسٹر جی شہید حکیم محمد سعید کا ایک قول جماعت میں اکثر سنایا کرتے تھے:”وقت اللہ تعالیٰ کی امانت ہے اور اس کا درست استعمال عبادت ہے۔“
وقار کبھی اعجاز کو اور کبھی سکندر کو دیکھتا تھا۔
بہانے بنانا،وقت برباد کرنا اور کام سے جی چرانا،وقار اپنے بارے میں سب جانتا تھا۔وہ جان گیا تھا کہ وقت کو برباد کرنے والوں کا کیا انجام ہوتا تھا۔اس انجام سے بچنے کے لئے وقار نے اسی لمحے بہانوں کا گلا دبانے اور وقت کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانے کا فیصلہ کیا۔
”پیارے وقت!مجھے معاف کر دو،میں تمہیں آئندہ ضائع نہیں کروں گا،تمہارے ایک ایک لمحے کی قدر کروں گا،میں تمہاری طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتا ہوں،مجھے دوست بنا لو۔“وقار کی باتیں سن کر وقت خوش ہو گیا تھا۔اس نے وقار کو دوست بنا لیا۔یہ دوستی اب تک قائم ہے۔

Browse More Moral Stories