Woh Aik Makaan - Article No. 2108

Woh Aik Makaan

وہ ایک مکان - تحریر نمبر 2108

آپ گھر نہیں بیچنا چاہتے تو کوئی بات نہیں،میں اسے شرطوں پر یا مفت میں نہیں لے سکتا

پیر 8 نومبر 2021

عائشہ تنویر
سفید و سبز سنگِ مرمر کا بنا وہ خوبصورت مکان ہمیشہ کی طرح آج بھی اس کی توجہ کا مرکز تھا۔بارہ سال کا نصیر اس بڑے اور اونچے مکان کو دیکھنے میں محو تھا۔مکان کی پیشانی پر واضح الفاظ میں ”فردوس بر زمیں“ یعنی زمینی جنت،کندہ تھا۔خطاطی کے انداز میں لکھے ہوئے یہ الفاظ جب اس نے پہلی بار پڑھے تو امی سے ان کے معنی پوچھے تھے۔
اچانک اس مکان کا بڑا دروازہ کھلا،ایک گاڑی نکلی تو پیچھے سبز گھاس اور رنگ برنگے پھولوں سے سجے لان کے منظر کو اس نے مزید دلچسپی اور خوشی سے دیکھا،پھر دروازہ بند ہو گیا۔
یہ مکان واقعی جنت کا ٹکڑا تھا۔اس کے اندر جانے اور رہنے کا شوق نصیر کے دل میں سر اُٹھانے لگا۔سوچوں میں مگن اسے اپنے ہاتھ میں کھنچاؤ کا احساس ہوا۔

(جاری ہے)

اس کے ہاتھ میں پکڑا تھیلا خاصا وزنی تھا۔

جسے مین بازار تک اُٹھا کر لے جانا تھا۔وہ مکان پر حسرت سے نظر ڈال کر اپنے راستے پر چل دیا۔
نصیر نو سال کا تھا،جب اس کے ابو کا انتقال ہو گیا۔اس کی امی لوگوں کے کپڑے سلائی کرکے گھر کا خرچ چلا رہی تھیں۔نصیر کی تعلیم کے اخراجات اس محدود آمدنی سے پورا کرنا ممکن نہیں ہوئے تو انھوں نے بچوں کے کپڑے سلائی کرکے دکانوں تک پہنچانے کا کام شروع کیا۔
نصیر بھی سکول سے آکر امی کی مدد کرتا۔اب تو وہ اچھی خاصی سلائی کر لیا کرتا تھا۔پھر امی کے ساتھ بازار جانا یا دکان داروں سے آرڈر لینے جانا بھی اسی کا کام تھا۔
امی نے اسے ہمیشہ یہی سکھایا کہ مانگنے کے سوا کسی کام میں عار نہیں۔ہاتھ سے محنت کرکے رزق حلال کی کوششیں کرنے والے اللہ پاک کی رحمت پاتے ہیں۔
بازار آتے جاتے جب بھی نصیر کو وہ مکان نظر آتا،وہ وہیں ٹھیر جاتا۔

”ایک دن میں بھی ایسا ہی مکان بناؤں گا۔“وہ خود سے عہد کرتا۔
دن گزرتے رہے۔نصیر اب کالج جانے لگا تھا۔ساتھ ہی اپنے کارخانے کے انتظامی امور بھی سنبھالتا تھا۔ان کا سلائی کا کام اب کافی پھیل گیا تھا۔امی نے سلائی میں مدد کے لئے کاریگر رکھ لئے تھے۔وہ خود سارا کام جانتی تھیں۔گھر میں ہی قائم چند مشینوں والا یہ چھوٹا سا کارخانہ ان کی بڑی کامیابی تھی۔

اب بھی وہ آتے جاتے اس خوبصورت مکان کو ضرور دیکھتا۔گزرتے وقت کے ساتھ مکینوں کی لاپروائی سے مکان کا بیرونی سفید پتھر اب قدرے گدلا ہو گیا تھا۔اس کے باوجود مکان اپنے منفرد طرز تعمیر کی وجہ سے خوبصورت لگتا تھا۔اس مکان سے نصیر کی محبت آج بھی برقرار تھی۔
آخر وہ دن بھی آ گیا،جب نصیر بچوں کے کپڑے بنانے والی ایک بڑی فیکٹری کا مالک بن چکا تھا۔
اس کے پاس برسوں کی محنت و تجربے کے ساتھ تعلیم کا زیور تھا۔اب اس نے اتنے پیسے جمع کر لئے تھے کہ ایک اچھا گھر خرید سکے۔ویسا ہی سفید رنگ کا پُرسکون مکان یا شاید وہ ہی گھر جو اس کی محبت تھا،مگر کیا گھر والے بھی اپنا گھر بیچنا چاہیں گے یا نہیں،وہ نہیں جانتا تھا۔
آخر ایک دن وہ اپنے بچپن کی خواہش پوری کرنے اس گھر کے دروازے پر جا کھڑا ہوا۔
دوبارہ گھنٹی بجائی تو ملازم نے دروازہ کھولا۔
”اشرف صاحب کا گھر ہے۔“نصیر نے دروازے پر لگی تختی پر لکھا نام دہرایا۔
”جی،آپ بڑے صاحب سے ملنے آئے ہیں۔“ملازم چونک گیا۔اس کے لہجے میں تعجب تھا۔
”جی۔“
نصیر نے مختصر جواب دیا۔اب وہ دروازے پر کھڑے ہو کر کیا تفصیل بتاتا۔ملازم اسے اندر لے آیا۔نصیر نے اطراف میں نگاہ دوڑائی تو اس کی اُمیدوں پر اوس پڑ گئی۔
برسوں پہلے کا تروتازہ لان غائب تھا۔پیلی پڑی ہوئی جگہ جگہ سے اُدھڑی گھاس،سوکھے پودے اور خشک تالاب ایک ویران منظر پیش کر رہا تھا۔ملازم کی رہنمائی میں وہ چلتا ہوا اندرونی کمرے کی طرف بڑھ گیا۔مکان کی حالت اس کے مالکوں کی عدم توجہ ظاہر کر رہی تھی۔سب سے بڑی بات یہ کہ ملازم ایک اجنبی کو کیوں اسے اندر لیے چلا جا رہا تھا۔کچھ بات تو ضرور تھی۔

”یہ بڑے صاحب کا کمرا ہے۔“
ایک دروازے پر رُک کر اس نے دروازہ بجا کر جواب کا انتظار کیے بغیر کھول دیا۔اندر موجود بیڈ پر ایک کمزور سے بزرگ نیم دراز تھے۔نصیر انھیں سلام کرتا اندر داخل ہوا۔انھوں نے مسکرا کر اس کا خیر مقدم کیا۔
نصیر ان کے سامنے صوفے پر بیٹھ گیا۔ان کی پُرشفقت مسکراہٹ سے متاثر ہو کر وہ انھیں اپنے بارے میں سب تفصیل بتاتا چلا گیا۔
وہ اس کی محنت و لگن سے حاصل کامیابی کی داستان سن کر بہت خوش ہوئے۔
”واہ جوان،خوب ترقی کرو گے،محنت کبھی ضائع نہیں ہوتی۔“
وہ مسلسل اسے سراہتے رہے۔
”آپ یہاں اکیلے رہتے ہیں؟“
ان کی گفتگو سے ہمت پا کر اس نے سوال کیا۔
”میرا بیٹا لندن میں ہوتا ہے۔وہ چاہتا ہے کہ میں بھی اس کے پاس وہیں آجاؤں،مگر میں ملک چھوڑنا نہیں چاہتا۔
اب ٹانگوں میں تکلیف کے باعث خود سے اِدھر اُدھر حرکت کرنا مشکل ہے سو ملازموں کے رحم و کرم پہ ہوں۔عرصے سے کوئی مجھ سے ملنے نہیں آیا۔اسی لئے ملازم اتنے آرام سے تمہیں اندر لے آیا۔“
انھوں نے بتایا تو نصیر نے جھرجھری سی لی۔قدرت نے اسے آئینہ دکھایا تھا۔پیسے جمع کرنا،اس مکان میں رہنا اس کا خواب تھا اور وہ پیسوں کے ڈھیر کے ساتھ بھی اس گھر میں کتنے تنہا تھے۔

”مجھے بچپن سے آپ کا گھر بہت پسند تھا۔اکثر میں کھڑا ہو کر اسے دیکھتا رہتا۔اسے خریدنا،اس میں رہنا میرا خواب تھا۔اب یہ ویسا خوبصورت نہیں رہا۔میں تو اندر آتے ہوئے اُجڑے ہوئے لان کو دیکھ کر پریشان ہو گیا۔“
اس نے غیر ارادی طور پر ان سے یہ بات کہہ دی۔
”میرا یہ ملازم اشرف بچپن سے ہمارے ساتھ ہے،شاید اس لئے خیال کر لیتا ہے ورنہ باقی سارے ملازمین تو توجہ نہیں دیتے۔
میرے لئے اب ان کی نگرانی ممکن نہیں ہے۔“انھوں نے یہ بات بھی مسکرا کر ہی کہی تھی۔
”تم یہ گھر خریدنا چاہتے ہو؟“انھوں نے پوچھا تو نصیر نے جلدی سے اثبات میں سر ہلایا۔
وہ ایک بار پھر مسکرائے:”میں اسے بیچنا نہیں چاہتا۔البتہ میں تمہیں ایک شرط پر دے سکتا ہوں۔“
”آپ گھر نہیں بیچنا چاہتے تو کوئی بات نہیں،میں اسے شرطوں پر یا مفت میں نہیں لے سکتا۔

اس نے بات ختم کرنا چاہی،مگر وہ اس پر راضی نہ تھے۔
”شرط تو سن لو پہلے۔“
نصیر سر ہلا کر ان کی بات سننے لگا۔
وہ دھیرے دھیرے کچھ کہہ رہے تھے۔اسے سمجھا رہے تھے۔اس کی آنکھیں حیرت سے پھیلیں۔تھوڑی دیر میں ہی وہ دونوں مشورہ کرکے تفصیل سے کاغذ پر کچھ نکات درج کرنے لگے۔
کچھ عرصے میں ہی نصیر نے گھر کی شکل بدل دی تھی۔
اب وہ ایک بار پھر سے چمکتا دمکتا گھر تھا۔اشرف صاحب جنھیں وہ انکل کہتا تھا،اس کی کارکردگی سے بہت خوش تھے۔اپنی فیکٹری کے ساتھ وہ ان کے منصوبے کو بھی پورا وقت دے رہا تھا۔
گھر میں ایک حصہ رہنے کے لئے مختص کیا گیا۔جہاں انکل کے اصرار اور کام کی نگرانی کے لئے نصیر اپنی امی کے ساتھ رہنے لگا تھا۔
گھر کی پچھلی جانب ایک حصے میں بے سہارا خواتین کے لئے مفت سلائی سکھانے کا مرکز اور بزرگوں کے لئے مفت رہائش کا بندوبست کیا گیا تھا۔
انکل کے چہرے پر زندگی کی بہار آ گئی تھی۔وہ باہر نکلتے،سب سے باتیں کرتے اور ان کے مسائل سنتے تھے۔ایک چھوٹے سے حصے میں بیماروں کے علاج کے لئے ایک ڈاکٹر اور کمپاؤنڈر کا انتظام بھی کر لیا تھا۔اب یہ گھر بے سہارا لوگوں کیلئے جنت بن گیا تھا۔اُجڑے ہوئے گھر میں ایک بار پھر بہار آ گئی تھی۔

Browse More Moral Stories