Yeh Moun Or Masoor Ki Daal - Article No. 1595

Yeh Moun Or Masoor Ki Daal

یہ منھ اور مسور کی دال - تحریر نمبر 1595

زمیندار صاحب،غلام رسول کے ساتھ باورچی خانے میں آئے۔وہاں چولھے پر سیاہ رنگ کی اشرفیاں رکھی تھیں جن پر مہر اور وزن وغیرہ ابھی تک نمایاں تھے۔

پیر 9 دسمبر 2019

راؤ جی
1857ء میں مغلیہ سلطنت کے مکمل خاتمے کے بعد مغل دربار،شاہی قلعہ اور شاہی محلات سب اُجڑ گئے۔یہاں رہنے والوں پر جوگزری وہ الم ناک ودل خراش حالات تاریخ کا حصہ ہیں۔شاہی محلات کے تمام ملازمین بے کار اور بے روز گار ہو کر تلاش معاش کے لیے در بہ در بھٹکنے لگے۔ان میں ایک شاہی باورچی غلام رسول بھی تھا،جو کھانا بنانے کا ماہر اور اپنے فن میں اپنی پہچان رکھتا تھا،لیکن دہلی میں کوئی ایسا صاحب ذوق نہیں رہا تھا جو اس کے فن کی قدر دانی کرتا اور اسے اپنے ہاں ملازم رکھ لیتا۔

ہر طرف افرا تفری کا عالم تھا اور بہ قول آخری مغل تاج دار بہادر شاہ ظفر،شرفا کی حالت یہ تھی کہ’جسے دیکھا حاکم وقت نے،کہا یہ تو قابل دار ہے۔‘
مرزا غالب بھی تختہ دار پر چڑھنے سے بال بال بچے۔

(جاری ہے)

انھوں نے خود اپنے دوست نواب شیفتہ کو بتایا کہ انھیں جب انگریز کرنل کے سامے پیش کیا گیا تو اس نے سوال کیا:”تم کون؟“
”میں شاعر ہوں۔

“مرزا غالب نے جواب دیا۔
”میرا مطلب تم ہندویا مسلمان؟“کرنل نے سوال کیا۔
”آدھا مسلمان۔“
”آدھا کیوں؟“
”شراب پی لیتاہوں،لیکن سور کا گوشت نہیں کھاتا۔“
مرزا غالب نے نواب شیفتہ کو بتایا:”میرے اس جواب پر کم بخت کو ہنسی آگئی اور ہنستے ہنستے اس نے بائیں ہاتھ کے انگوٹھے سے اشارہ کر دیا اور میری جان چھوٹ گئی۔
اگر وہ دائیں ہاتھ کے انگوٹھے کا اشارہ کر دیتا تو میں بھی کسی درخت پر مردہ لٹکا ہوا آپ کو ملتا جیسے اور بہت سے مجھ جیسے وہاں لٹکے ہوئے تھے۔“
غلام رسول روز گار کی تلاش میں دہلی سے نکل کر اِدھر اُدھر بھٹکتا رہا آخر کار پھر تا پھراتا وہ مشرقی پنجاب کے ایک قصبے بیلاس پور جا پہنچا۔وہاں ایک بڑے مسلمان زمیندار رہتے تھے جو بہت سے گاؤں کے مالک تھے اور کھانے پینے کے شوقین تھے ۔
غلام رسول نے سوچا کہ یہاں اس کی دال گل جائے گی۔وہ زمیندار صاحب کی حویلی پہنچا اور آداب وسلام کے بعد آنے کا مقصد بیان کیا۔
”کیا کیا پکا لیتے ہو؟“زمیندار صاحب نے سوال کیا۔
”جو آپ کھانا پسند فرمائیں گے۔“
”میں پوچھنا یہ چاہتا ہوں کہ کوئی خاص چیز؟“زمیندار صاحب بولے۔
”میرا پکایا ہوا ہر کھانا ،ہر چیز خاص ہوتی ہے۔
میں آخر شاہی باورچی رہا ہوں۔“
”پھر بھی کوئی خاص چیز۔“
”میں مسور کی دال ایسی پکا سکتا ہوں کہ آپ لب چاٹتے رہ جائیں۔“
”اچھا یہ بات ہے تو ہم سب سے پہلے مسور کی دال ہی کھائیں گے۔ہم بھی تو دیکھیں تم دال میں کیا خوبی پیدا کرتے ہو۔“زمیندار نے دلچسپی لیتے ہوئے کہا۔
”جناب!آپ اپنے تمام دوست احباب کو مدعو کریں،وہ بھی داد دیں تو پھر بات ہے نا۔

”یہ بات ہے تو چلو ان کو بھی بلا لیتے ہیں․․․․․اور کچھ ؟“زمیندار صاحب نے کہا۔
”اور یہ کہ دال کا خرچ بعد میں آپ کو مجھے دینا ہو گا۔“غلام رسول بولا۔
”ویسے تو ہمارے باورچی خانے میں ہر چیز موجود ہوتی ہے ،پھر بھی اگر تم کوئی خاص چیز اس میں ڈالنا چاہو تو اس کے پیسے لے لینا،لیکن یہ تو بتاؤ تم تنخواہ کیا لوگے؟“زمیندار صاحب نے پوچھا۔

”آپ میرے ہاتھ کی بنی ہوئی مسور کی دال چکھ لیجیے،پھر بتاؤں گا۔“
”جیسی تمھاری مرضی۔“زمیندار صاحب بولے۔
غلام رسول نے زمیندار صاحب کے باورچی خانے کا چارج سنبھال لیا۔دوسرے روز پروگرام کے مطابق اس نے مسور کی دال پکائی۔زمیندار صاحب نے اپنے تمام دوستوں کو کھانے پر بلایا۔جب تمام احباب آگئے تو انھوں نے ان سے کہا:”دوستو!آج آپ کی صرف ایک پکوان کی دعوت ہے ،میرے نئے باورچی نے اس کے ساتھ کوئی اور پکوان بنانے سے انکار کر دیا اور کہا کہ اگر صرف اس ایک پکوان سے ہی مزہ نہ آجائے اور سب اپنے لب چاٹتے ہوئے نہ رہ جائیں تو وہ شاہی باورچی نہیں۔

”ایسی کون سی ڈش ہے؟“سب دوستوں نے بہ یک زبان سوال کیا۔
”مسور کی دال۔“زمیندار صاحب بولے۔
”مسور کی دال۔“بے ساختہ سب احباب کے منھ سے نکلا اور حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔کھانا پیش کیا گیا ۔جو شاہی باورچی نے کہا تھا وہ درست ثابت ہوا ۔تمام مہمان اور زمیندار صاحب بھی اُنگلیاں چاٹتے رہ گئے۔انھوں نے تعریفوں کے پل باندھ دیے۔
زمیندار صاحب بھی بڑے خوش تھے کہ انھیں ایک بہترین باورچی مل گیا۔
تمام مہمانوں کے رخصت ہونے کے بعد،زمیندار صاحب نے تعریفی نظروں سے غلام رسول کی طرف دیکھا تو اس نے دال پر اُٹھنے والے خرچ کا حساب ان کی طرف بڑھا دیا جس پر لکھا تھا:”دو عدد سونے کی اشرفیاں۔“
”یہ کیا․․․․․․؟“زمیندار صاحب نے سوال کیا۔
”میں نے مسور کی دال میں دواشرفیوں کا بھگا ر دیا ہے ،یہ آپ مجھے دے دیجیے۔
“غلام رسول بولا۔
”اس کا کیا ثبوت ہے کہ تم نے دواشرفیوں کا بھگا ر دیا ہے ۔یہ کیسے ممکن ہے؟“زمیندار صاحب حیرت سے بولے۔
”آئیے میرے ساتھ باورچی خانے میں۔“غلام رسول بولا۔
زمیندار صاحب،غلام رسول کے ساتھ باورچی خانے میں آئے۔وہاں چولھے پر سیاہ رنگ کی اشرفیاں رکھی تھیں جن پر مہر اور وزن وغیرہ ابھی تک نمایاں تھے۔
انھیں زمیندار صاحب کو دکھاتے ہوئے اس نے کہا کہ میں نے ان اشرفیوں کا دال میں بھگا ر دیا ہے۔زمیندار نے ان کو ہاتھ لگایا تووہ چور چور ہو کر سفوف میں تبدیل ہو گئیں۔
”انھیں تم نے کس طرح جلایا؟“
”یہی تو فن ہے جناب!“غلام رسول نے جواب دیا۔
”لیکن میرے پاس تو سونے کی اشرفیاں نہیں ہیں۔“زمیندار صاحب بولے۔
”تو ان کی رقم ،میرا مطلب ہے قیمت دے دیجیے،میرے پاس یہ آخری اشرفیاں بچی تھیں۔

غلام رسول نے کہا۔
زمیندار صاحب کچھ دیر سوچتے رہے،پھر بولے:”آؤ میرے ساتھ۔“وہ غلام رسول کو لے کر اپنی بیٹھک میں آئے۔میز کی دراز سے رقم نکالی اور اسے دیتے ہوئے بولے:”تم باورچی تو کمال کے ہو،لیکن بہت مہنگے ہو۔میں تمھیں اپنی ملازمت میں نہیں رکھ سکتا۔“
غلام رسول نے رقم جیب میں رکھی،زمیندار صاحب کو سلام کیا اور یہ کہتے ہوئے رخصت ہوگیا کہ:”یہ منھ اور مسورکی دال ہے۔“

Browse More Moral Stories