Zalim Bheriye Ka Anjaam - Article No. 1614

Zalim Bheriye Ka Anjaam

ظالم بھیڑئیے کا انجام - تحریر نمبر 1614

ایک خوبصورت سفید بکری کے سات بچے تھے۔بکری اپنے بچوں سے بہت پیار کرتی تھی۔اس کو ہر وقت ڈرلگا رہتا تھا کہ کسی دن بھیڑیا آکر اس کے بچوں کو نہ کھا جائے۔

جمعہ 27 دسمبر 2019

ایک خوبصورت سفید بکری کے سات بچے تھے۔بکری اپنے بچوں سے بہت پیار کرتی تھی۔اس کو ہر وقت ڈرلگا رہتا تھا کہ کسی دن بھیڑیا آکر اس کے بچوں کو نہ کھا جائے۔ایک دن وہ جنگل میں کھانے کی چیزیں تلاش کرنے جانے لگی،تو اس نے اپنے ساتوں بچوں کو اپنے پاس بلایا۔
بکری نے کہا”پیارے بچو!جب تک میں باہر رہوں۔اس بات کا خیال رکھنا کہ بھیڑیا تمہارے قریب نہ آنے پائے۔
دروازے بند کرکے رکھنا اگر بھیڑیا اندر آگیا ،تو وہ تم سب کو کھاجائے گا،وہ تمہیں بھیس بدل کر دھوکا دے سکتاہے۔مگر تم اس کی کھردری آواز اور کالے پیروں سے پہچان لینا۔“
بچوں نے جواب دیا”پیاری ماں!!فکر نہ کریں،ہم اپنی بہت اچھی طرح حفاظت کریں گے۔“بکری اپنے بچوں کو چھوڑ کر جنگل چلی گئی۔
زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ کسی نے دروازے پر دستک دی اور ساتھ آواز بھی دی۔

(جاری ہے)

”پیارے بچو۔۔۔!!!دروازہ کھولو میں تمہاری امی ہوں اور تم سب کے لیے اچھی اچھی کھانے کی چیزیں لائی ہوں۔“
وہ چیخ کر بولے”ہم دروازہ نہیں کھولیں گے ،تم ہماری ماں نہیں ہو۔ہماری ماں کی آواز بہت ملائم ہے،اور تمہاری کھردری ہے۔تم تو بھیڑئیے ہو۔“
بھیڑئیے نے یہ سنا تو وہ ایک دُکان پر گیا،اور وہاں سے بہت سی چاکلیٹ لے کر کھا لی،اُسے امید تھی کہ اب اس کی آواز نرم ہو گئی ہوگی،پھر وہ بھاگتا ہوا دوبارہ بکری کے گھر آیا۔
دروازہ پر دستک دے کر بھیڑیا بولا”پیارے بچو․․․․․!!دروازہ کھولو میں تمہاری ماں ہوں اور تم سب کے لیے اچھی اچھی کھانے کی چیزیں لائی ہوں۔جب بھیڑیا بولا تو اس نے اپنے پاؤں کھڑکی پر رکھ دئیے۔“بچوں نے نرم آواز سنی پہلے تو وہ سمجھے کہ ان کی ماں آگئی ہے،مگر انہوں نے اس کے کالے پاؤں دیکھے تو سمجھ گئے،کہ یہ بھیڑیا ہے وہ چیخے”ہم دروازہ نہیں کھولیں گے۔
تم ہماری ماں نہیں ہو،ہماری ماں کے پاؤں کالے تو نہیں ہیں تم تو بھیڑئیے ہو“۔
بھیڑئیے نے یہ بات سنی تو ایک بیکری کی طرف بھاگا،اور بیکری والے سے کہنے لگا”میرے پیروں پر چوٹ لگ گئی ہے ان پر آٹا لگادو۔“
بیکری والا بھیڑیا دیکھ کر ڈر گیا،اور اس نے اس کے پیروں پر آٹا لگا دیا۔اس کے بعد بھیڑیا بھاگا ہوا چکی والے کے پاس گیا اور کہنے لگا”میرے پیروں پر سوکھا آٹا چھڑک دو“۔
چکی والے نے سوچا”یہ کسی کو دھوکا دینا چاہتاہے“تو اس نے بھیڑئیے کے پیروں سوکھا آٹا چھڑکنے سے انکار کر دیا۔
بھیڑئیے نے کہا”اگر تم یہ نہیں کروگے،تو میں تم کو کھاجاؤں گا۔“
چکی والے نے ڈر کربھیڑئیے کے پاؤں پر سوکھا آٹا چھرک دیا۔اب تیسری مرتبہ بھیڑیا بکری کے گھر گیا اور پھر دستک دی اور بولا”پیارے بچو․․․․․․!!دروازہ کھولو میں تمہاری ماں ہوں اور تم سب کے لیے اچھی اچھی چیزیں لائی ہوں۔

بچوں نے نرم آواز سنی مگر ابھی بھی وہ احتیاط کررہے تھے۔انہوں نے کہا”پہلے اپنے پاؤں ہمیں دکھاؤ،تاکہ ہم جان سکیں کہ تم ہماری پیاری ماں ہو۔“
بھیڑئیے نے اپنے پاؤں کھڑکی پر رکھے تو بچے سمجھے کہ یہی ہماری ماں ہے۔اس کی آواز بھی نرم ہے اور پاؤں بھی سفید ہیں۔انہوں نے دروازہ کھول دیا اور سامنے دیکھا تو وہ ڈر گئے کیونکہ ان کے سامنے بھیڑیا تھا،جو ان کا دشمن تھا۔
بچے چھپنے کے لیے بھاگنے لگے۔ایک بھاگ کر میز کے نیچے چھپ گیا،دوسرا کو دکر بستر پر چڑھ گیا تیسرا چولہے میں چھپ گیا،چوتھا باورچی خانے میں جا چھپا ،پانچواں الماری میں چھپ گیا۔چھٹاٹب کے نیچے جا چھپا اور ساتواں گھڑی کے کیس میں چھپ گیا۔
بھیڑیا ان کو تلاش کرنے لگا اور اس نے ان سب کو جلد ہی تلاش کر لیا اور ایک،ایک کرکے سب کو نگل گیا۔
اس نے چھ بچوں کو جلدی جلدی نگلا،مگر ساتواں بچہ جو گھڑی کے کیس میں چھپا ہوا تھا بچ گیا۔اسے بھیڑیا نہ ڈھونڈسکا،چھ بچوں کو نگلنے کے بعد بھیڑئیے کو نیند آنے لگی وہ وادی میں چلا گیا اور ایک درخت کے نیچے لیٹ کر آرام کی نیند سو گیا۔
شام کو جب بکری جنگل سے گھر آئی تو اس نے دیکھا کہ دروازہ کھلا ہوا ہے۔گھر کے اندر تمام سامان میز،کرسیاں اور سب چیزیں الٹی پڑی تھیں۔
برتن ٹوٹے پڑے تھے،تکیے اور چادریں گری پڑی تھیں گملے ٹوٹے پڑے تھے۔گھر کی یہ حالت دیکھ کر بکری بہت پریشان ہو گئی اور اپنے بچوں کو ہر جگہ تلاش کرنے لگی،مگر بچے کہیں نہیں ملے۔وہ مایوس ہو کررونے لگی،پھر اس نے ایک ایک بچے کا نام لے کر بلایا شروع کیا مگر کوئی جواب نہیں ملا اور جب اس نے ساتویں بچے کا نام لے کر اسے بلایاتو ایک پتلی سی آواز آئی۔
پیاری ماں میں یہاں گھڑی کے کیس میں ہوں۔بکری خوشی سے بھاگی گئی اور اس نے گھڑی کے کیس کو کھول کر اپنے بچے کو نکالا۔
بچے نے اپنی ماں کو بتایا کہ کس طرح بھیڑئیے نے چھ بچوں کو کھالیا۔جب بچہ یہ دکھ بھری کہانی سنا چکا تو ماں اور بچہ دونوں مل کر خوب رونے لگے۔کچھ دیر بعد بے چاری بکری اپنے بچے کو ساتھ لے کر وادی میں گھومنے چلی گئی۔وہ بہت ہی دکھی ہو کر سر جھکائے جارہی تھی ۔
وادی میں ایک درخت کے نیچے اسے بھیڑیا سکون کی نیند سوتا ہوا نظر آیا ،جو اتنی زور سے خراٹے لے رہا تھا،کہ اس کے خراٹوں سے درخت کی شاخیں بھی ہل رہی تھی۔
بکری بھیڑئیے کے چاروں طرف پھری اس نے دیکھا کہ اس کا پیٹ بہت پھولا ہوا ہے۔جب اس نے زیادہ غور سے دیکھا تو اسے پتہ چلا کہ کوئی چیز اس کے پیٹ میں گھوم رہی ہے۔بکری نے سوچا ہو سکتاہے کہ میرے جو بچے اس نے نگلے ہیں،وہ اس کے پیٹ میں زندہ ہوں۔
اس نے اپنے چھوٹے بچے سے کہا بھاگ کر جاؤ ،اور جلدی سے میری قینچی اور سوئی دھاگہ لے آؤ۔بچہ بھاگ کر سب چیزیں لے آیا۔بکری نے قینچی سے بھیڑئیے کا پیٹ کاٹ دیا اور سارے بچے اچھلتے کودتے باہر آگئے۔سب کے سب بچے ٹھیک ٹھاک تھے اور انہیں کوئی بھی نقصان نہیں پہنچا تھا۔سب بچے دوبارہ آپس میں زندہ مل کر بہت خوش تھے اور بے چاری بکری پھر رونے لگی۔
مگر اس مرتبہ یہ دکھ کے آنسو نہیں تھے ۔بلکہ خوشی کے آنسو تھے۔سارے بچے بھیڑئیے کے چاروں طرف خوشی سے اچھل رہے تھے۔بکری نے اپنے بچوں سے کہا”جاکر بڑے بڑے پتھر اٹھا کر لاؤ۔“
بچے خوشی خوشی بڑے بڑے پتھر اٹھا لائے اور پتھروں کو بھیڑئیے کے پاس لا کر رکھ دیا۔بکری نے بھیڑئیے کے پیٹ میں پتھر رکھنے شروع کر دئیے اور جتنے پتھر اس کے پیٹ میں آسکتے تھے پھر اس کے پیٹ کو سوئی دھاگے سے سی دیا۔
بھیڑیا سارے وقت خراٹے لیتا رہا اسے ذرا بھی پتہ نہیں چلا کہ کیا ہو گیا ہے کافی دیر سونے کے بعد بھیڑیا جاگ گیا تو اس نے پیاس محسوس کی اور وہ کنویں پر پانی پینے گیا جب وہ چلا تو پتھر اس کے پیٹ میں ایک دوسرے سے ٹکرانے لگے۔
بھیڑیا چیخا”کھائے تو میں نے چھ بکری کے بچے ہیں،مگر یہ پتھروں کی طرح ٹکرارہے ہیں۔“اس کا پیٹ بہت بھاری ہورہا تھا،وہ بڑی مشکل سے چل رہا تھا۔
اس لیے وہ کنویں تک بہت دیر میں پہنچا اور جب کنویں پر پانی پینے جھکا تو پتھروں کے بوجھ کی وجہ سے وہ سر کے بل کنویں میں گر گیا۔اس کے گرنے سے چھپا کے کی آواز آئی ۔بکری اور بچوں نے زور کا چھپا کا سنا ،تو وہ بھاگے ہوئے آئے انہوں نے کنویں میں جھانک کردیکھا تو بھیڑیا ڈوب گیا تھا۔
سب بچوں نے خوشی سے شور مچایا”بھیڑیا مر گیا،بھیڑیا مر گیا۔“
بکری کو بھیڑئیے کے مرنے کی بہت خوشی ہوئی۔اب اس کا ڈر دور ہو گیا تھا۔وہ جنگل جاتی تو بے فکر ہوکر جاتی کیونکہ بھیڑئیے کا خوف باقی نہیں رہا تھا۔

Browse More Moral Stories