Zarkhaiz - Article No. 1717

Zarkhaiz

زرخیز - تحریر نمبر 1717

زمین بعد از مرگ ہمیں آغوش میں لے لیتی ہے ۔۔ماں بھی تو ایسی ہوتی ہے ناہمیں بھی اس سے محبت کرنی چاہئے۔اسکو صرف کمانے کی شے نہیں سمجھنا چاہئے اور پتا بیٹے کچھ لوگ بھی اس بنجر زمین جیسے ہوتے ہیں

منگل 21 اپریل 2020

تحریر: تعبیرعلی


بوڑھا حاکم اپنی زمین کے اس حصے پر روز محنت کرتاجو بنجر ہوچکی تھی۔دس سالہ حسن دادا کو اس جگہ محنت کرتے دیکھ تعجب کرتاکہ یہ محنت ضائع کیوں کررہے ہیں جبکہ اس کا باپ ہمیشہ اس زمین پہ محنت لگاتا جہاں کھیتی اگ رہی تھی۔ننھا حسن ذہین تھا۔سو اس فرق کو گہرائی سے نوٹ کرنے لگا۔آج بھی جب ماں نے حسن کے ہاتھ کھیتوں میں کھانا بھیجاتو ہمیشہ کی طرح حسن دادا کو بنجر زمین کے لیے پسینہ بہاتے دیکھ وہی سب سوچنے لگاکہ بنجر زمین پر پسینہ ضائع کیوں کررہے ہیں یہ حسن کو کھانا لاتے دیکھ بوڑھا حاکم نبٹا کر اسکے پاس آ بیٹھاحسن کا باپ عامر ابھی کچھ مصروف تھا۔

سو پوتا اور دادا گپ شپ کرتے کھانا کھانے لگے۔
دادو....ایک بات پوچھوں؟حسن نے کچھ پرسوچ انداز میں کہا۔

(جاری ہے)

ہاں بیٹے پوچھودادا نے مسکرا کر نوالہ لیتے کہا۔
دادو...میں آپکو ہمیشہ اس بنجر زمین پر محنت کرتے پسینہ بہاتے دیکھتا ہوں۔جبکہ بابا اس جگہ محنت کررہے ہوتے ہیں جہاں سے ہمیں فائدہ ملتا ہے پھر آپ محنت ضائع کیوں کرتے ہیں۔
حسن کی آج دل میں مچلتے سوال کو زبان دے ہی دی تھی۔

دادا اپنے پوتے کی ذہانت پر مسکرائے بغیر نہ رہ سکے۔تمہیں پتا حسن بیٹے جب میں تمہارے جتنا تھا۔تب میں اور میرے بابا ہجرت کرکے اس جگہ آئے تھے۔میرے بابا نے ہمارے خاندان کو پالنے کے لیے دیہاڑی کرنی شروع کردی۔یہ جو تم جس جگہ اپنے بابا کو کھیتی اگاتے دیکھتے ہویہ ساری جگہ بھی بنجر تھی۔۔ میرے بابا بڑے سچے دل تھے۔بنجر زمینوں سے بھی پھولوں کی امید رکھنے کی نعمت تھی انکے پاس وہ اپنا فارغ وقت اس بنجر زمین پر لگاتے۔
انہوں نے بھی بہت پسینہ بہایااور پھر ایک دن انکی سنی گئی۔اس بنجر زمین نے ثمر دینا شروع کردیاانکی ریاضت قبول کرلی گئی تھی۔ بیٹے میں بھی ریاضت کررہا ہوں۔شاید قبول کرلی جائے۔۔۔ آخر میں حاکم کے لہجے میں کچھ اداسی جاگی۔
پر دادا۔۔۔ہمارے پاس تو ہری بھری کھیتی ہے اب پھر بھی آپ نے یہ بنجر زمین خرید لی اور اس پر محنت کرنے لگے ہم اپنی ہری بھری کھیتی پر بھی تو محنت کرکے ریاضت کرسکتے ہیں نا۔
حسن نے اپنی طرف سے دادا کو لاجواب کرنے کی کوشش کرتے کچھ پرجوش ہوتے کہا۔۔
دادا اسکی لاجواب کرنے کی کوشش پر کھل کر مسکرائے۔
حسن اگر یہی میرے بابا نے سوچا ہوتاتو کیا آج تمہارے بابا کے پاس یہ ہری بھری کھیتی ہوتی؟دادا کی بات پر حسن کچھ لاجواب ہوا
پر دادا...اور پھر کچھ نہ سمجھ آیا تو خاموش ہوگیا
بیٹے...جی دادا۔۔۔حسن نے ادب سے کہا۔
پتا ہے زمینیں کب بنجر ہوتی ہیں؟
کب دادا؟حسن نے دلچسپی سے پوچھا۔جب انہیں بنجر ہونے کے لیے چھوڑ دیا جائے۔انکو دیکھنا ان سے اچھی امید رکھنا چھوڑ دی جائے
اور دلوں کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہوتا ہے۔پتا حسن۔جن کو زمین سے محبت ہوتی ہے نا۔وہ یہ نہیں دیکھتے کہ بنجر زمین منافع نہیں دے رہی
بلکہ وہ یہ دیکھتے ہیں کہ زمین پھول کھلانا بھول گئی ہے۔
جانتے ہوپھول کھلانے والے پھول کھلانا بھول جائیں تو کیسا کرب ہوتا ہے
پتا ہے حسن زمین ہم سے محبت کرتی ہے ماں کی طرح یہ ہمیں پناہ دیتی ہے، رزق دیتی ہے، اپنا جگر کاٹ کر ہمارے پیٹ بھرتی ہے اور پھر ساری زندگی ہم سمیت ہمارے گناہوں کا بھی بوجھ اٹھاتی ہے اور پھر بھی ہم نے اسے جتنے بھی دکھ دیے ہوں یہی زمین بعد از مرگ ہمیں آغوش میں لے لیتی ہے ۔
۔ماں بھی تو ایسی ہوتی ہے ناہمیں بھی اس سے محبت کرنی چاہئے۔اسکو صرف کمانے کی شے نہیں سمجھنا چاہئے
اور پتا بیٹے کچھ لوگ بھی اس بنجر زمین جیسے ہوتے ہیں۔جنہیں احساس کا پانی ملنا بند ہوگیا ہو۔جن کے دل اس بنجر زمین کی طرح سخت ہو رہے ہوں۔جو ثمر دینا بھلا چکے ہوں۔جن سے اچھی امیدیں لگانا چھوڑ دیا گیا ہو۔تو ایسے لوگوں ساتھ کیا کرنا چاہئے دادا۔
حسن نے کچھ کھوئے کھوئے سے انداز میں کہا۔ایسے لوگوں پر بھی ویسی محنت کرنی پڑتی ہے بیٹے جیسے بنجر زمینوں پران کے سخت دلوں میں نیکی کا بیج بونے کی کوشش کرتے رہنا چاہئے۔بنجر زمین تو بیج بھی ضائع کردیں گی دادا۔۔۔حسن نے کچھ اداسی سے پوچھا۔۔دادا پھر سے مسکرائے
وہی حکمت بھری مسکان۔
حسن...بیج بوتے رہیں فکر و محبت کا پانی دیتے رہیں امید کی کھاد ڈالتے رہیں اور صبر بھرا انتظار کرتے رہیں یہ بنجر زمینیں ثمر دینے لگیں گی۔

پر دادا۔۔۔آپکے ہاتھ زخمی ہو جاتے ہیں اتنی محنت سے اتنا درد سہہ کر ثمر حاصل کرنے کا کیا فائدہ حسن نے تھوڑا خفا سا ہو کر کہا۔
حسن۔۔۔۔تمہیں کیا پتامحنت کرنے والے کے زخمی ہاتھوں میں جب اجر کے پھول تھمائے جائیں تو وہ سکھ کیسا سچا ہوتا ہے کچھ دیر مزید بات کرنے کے بعد حسن کھانے کے خالی برتن لے کر گھر کو جا رہا تھا۔پر واپسی پر اسکا ذہن دادا کی باتیں ہی سوچتا رہاجیسے کچھ تھاجو دادا کی باتیں اس میں کلک کر گئی تھیں۔

سالوں بعد...حسن اپنے پندرہ سالہ بیٹے ساتھ کچھ زمین کی خریداری کے لیے آیا تھاباپ کو بنجر زمین خریدتے دیکھ عرفان کچھ حیران ہوا
بابا۔۔۔بنجر زمین کون خریدتا ہے بھلاعرفان نے باپ کی عقل پر حیرت کرتے کچھ ناراضگی سے کہااور حسن نے مسکرا کر عرفان کو دادا اور اپنی کہانی سنا دی اب دادا نہیں رہے تھے مگر واپسی پر عرفان نے اپنے ارد گرد لہلاتی کھیتی دیکھی تو یوں لگا گویا وہ ہری بھری دعائیں ہوں جو دادا کے لیے دادا کے بعد بھی زندہ رہ گئی ہوں گھر پہنچنے تل عرفان اپنے بابا اور پردادا کے بارے ہی سوچتا رہاکہ واقعی سب لوگ اپنے اپنے حصے کی ریاضت کرنے لگیں تو شاید نہ زمینیں بنجر رہیں نہ دل۔۔۔۔

Browse More Moral Stories