Zarorat Buri Bala Hai - Article No. 1449

Zarorat Buri Bala Hai

ضر ورت بُری بلا ہے - تحریر نمبر 1449

”رزاق بھائی !ادارے والوں نے ایسا چھانٹ کر انسپکٹر لگایا ہے کہ مال پاس کرنے میں ذراسی رعایت سے کام نہیں لیتا

جمعرات 20 جون 2019

راؤجی
”رزاق بھائی !ادارے والوں نے ایسا چھانٹ کر انسپکٹر لگایا ہے کہ مال پاس کرنے میں ذراسی رعایت سے کام نہیں لیتا،اس نے میری اب تک کی سپلائز کینسل کر دی ہیں۔“فدا علی نے اپنے دوست اور پرانے سپلائر عبدالرزاق سے اُداس لہجے میں کہا۔
”کیا کہتا ہے ؟“عبدالرزاق نے پوچھا۔
”کہتا ہے کہ مال سمپل کے مطابق نہیں ہے ۔

“فدا علی نے جواب دیا۔
”تو پھر مال سمپل کے مطابق دو۔“عبدالرزاق بولا۔
”وہ تو دیتے ہیں ،لیکن آ پ کو پتا ہے کہ انیس بیس کا فرق تو ہو جاتا ہے ،کاریگروں کا ہاتھ ایک جیسا نہیں چلتا۔“فدا علی بولا۔
”تو یہ بات اسے بتاؤ۔“
”اسے بتایا ہے اور یہ بھی بتایا ہے کہ پُرزوں کی فنشنگ میں انیس بیس ہو سکتا ہے ،لیکن ان کے فنکشن میں کوئی فرق نہیں آئے گا ،اس کی گارنٹی ہے ۔

(جاری ہے)


”وہ پُرزے تم سے کیوں بنوار ہے ہیں ،جس ملک نے مشینری دی ہے ،اس سے کیوں نہیں لیتے؟“
”وہ ملک قرضے کے تحت فالتو پُرزے ،اسپےئرپارٹس دے رہا تھا،اب اس نے دینا بند کر دیا ہے ۔وہ ڈالر میں کیش مانگتا ہے ۔ملز کے پاس ڈالر نہیں ہیں اور ڈالر میں اس کی قیمت بھی زیادہ ہوتی ہے،جب کہ ہم بہت کم قیمت پرزے دے رہے ہیں۔ملزم کو فالتو پُرزوں کی سخت ضرورت ہے جو ہم پوری کررہے ہیں۔

”اس کا مطلب ہے کہ وہ تم سے کچھ لین دین کرنا چاہتا ہے ۔“عبدالرزاق بھنویں چڑھا کر بولا۔”ایسا بھی نہیں ہے بھائی !ہم نے یہ کوشش بھی کرکے دیکھ لی ہے،سخت ایمان دار ہے اور اپنے کولیے دیے رکھتا ہے ۔“فداعلی نے بتایا۔
”بات چیت تو کرتا ہے یا اس میں بھی کنجوسی دکھاتا ہے ۔“عبدالرزاق نے پوچھا۔
”بات چیت تو خوب کرتا ہے،خوش اخلاق اور مہذب بھی ہے۔

“ٹھیک ہے ،مجھے اس سے ملواؤ۔پھر دیکھتے ہیں۔“عبدالرزاق بولا۔
اگلے دن فدا علی اور عبدالرزاق متعلقہ ملز پہنچے۔انسپکٹر سے عبدالرزاق کا تعارف کراتے ہوئے فدا علی نے کہا:”یہ رزاق بھائی ہیں بڑے بزنس مین اور گورنمنٹ سپلائرہیں۔“
انسپکٹر احمد جمیل نے رزاق سے گرمجوشی سے مصافحہ کیا اور بیٹھے کا اشارہ دیا۔
عبدالرزاق نے بیٹھتے ہی انسپکٹر کی تعریفیں شروع کر دیں:”مجھے فدا علی بتا رہا تھا کہ ملز میں ایک نفیس،خوش اخلاق اور با اُصول افسر تعینات ہوئے ہیں جو شکل سے ہی خاندانی آدمی لگتے ہیں،اس نے آپ کی اتنی تعریفیں کیں کہ مجھے آپ سے ملنے کا اشتیاق ہوا اور میں بے اختیار کھنچاچلا آیا۔

”موسٹ ویلکم“انسپکٹر احمد جمیل مسکراتے ہوئے بولے۔
عبدالرزاق بہت دل چسپ گفتگو کرتا تھا۔وہ لطیفے سنا کر نہیں ،بلکہ باتوں سے ہنساتا تھا اور باتوں باتوں میں ہی ایسی بات کرجاتا تھا کہ آدمی بے ساختہ ہنس پڑے۔انسپکٹر احمد جمیل کو اس کی باتوں میں بہت مزہ آیا۔وہ اس کے ایک ایک جملے پر بے ساختہ قہقہہ بلند کرتا اور محظوظ ہوتا رہا۔
پھر ہوا یوں عبدالرزاق روزانہ اس کے پاس جا کر بیٹھنے لگا،بن بلائے مہمان کی طرح نہیں،بلکہ ایسے مہمان کی طرح جس کی آمد کا کا خود انسپکٹر انتظار کرتا تھا۔رفتہ رفتہ عبدالرزاق اور انسپکٹر کی ملاقاتیں دوستی میں بدلنے لگیں۔وہ نجی معاملات پر بھی گفتگو کرنے لگے۔
ایک دن انسپکٹر نے عبدالرزاق سے کہا:”رزاق صاحب!میرا بیٹا جس کی عمر 8سال ہے ،اس کی بینائی روز بہ روزکم ہو رہی ہے ،بہت علاج کرائے ،کوئی افاقہ نہیں ہورہا ،آئی اسپیشلسٹ کہتے ہیں کہ اس کا علاج لندن میں ہی ہو سکتا ہے ۔

”توعلاج کے لیے لندن لے جاؤ۔“عبدالرزاق برجستہ بولا۔
”لندن میں علاج کرانے کے لیے میرے پاس پیسے نہیں ہیں۔“انسپکٹر بے چارگی سے بولا۔
”پیسے مجھ سے لے لو۔“عبدالرزاق نے پیش کش کی۔
”میں اور آپ سے پیسے لوں ،توبہ توبہ۔انسپکٹر کانوں پرہاتھ لگاتے ہوئے بولا۔
”بھئی اُدھار لے لو،پھر واپس کردینا، اس میں بُرائی کیا ہے ؟“رزاق نے سہارا دیا۔

”اس میں بُرائی یہ ہے کہ آپ ایک سپلائر ،ایک بزنس مین ہیں اور میں سپلائی کو جانچنے،پرکھنے اور پاس کرنے والا ہوں۔“انسپکٹر سمجھاتے ہوئے بولا۔
”میں آپ سے کوئی رعایت نہیں لوں گا۔“عبدالرزاق بولا۔
”آپ نہ لیں ،لیکن میں تو زیر بار ہو جاؤں گا،میرا اُصول کہاں باقی رہے گا؟نہیں بھئی نہیں میں آپ سے ہر گز کوئی مدد نہیں لوں گا۔
“انسپکٹر دوٹوک الفاظ میں بولا۔
انسپکٹر کے فیصلے اور معاملے کی نزاکت کو سمجھ کر عبدالرزاق اس وقت تو خاموش ہو گیا ،لیکن اس نے ہار نہیں مانی اور انسپکٹر کو گھیرنے کی مزید منصوبہ بندی کرنے لگا۔باتوں باتوں میں اس نے انسپکٹر سے یہ معلوم کر لیا تھا کہ اس کی فیملی پانچ افراد پر مشتمل ہے ۔انسپکٹر اس کی ماں ،بیوی،ایک بیٹا اور ایک بیٹی۔

دو تین دن کے وقفے سے عبدالرزاق اس وقت انسپکٹر کے آفس پہنچا،جب دفتر کا وقت ختم ہونے میں تیس چالیس منٹ رہ گئے تھے۔اسے دیکھتے ہی انسپکٹر بولا:”عبد الرزاق صاحب!کہاں ہیں آپ؟چاردن سے آپ کا دیدار نہیں ہوا۔“
”میں ایک کاروباری مسئلے میں اُلجھاہوا تھا۔“عبدالرزاق نے جواب دیا اور پھر انسپکٹر سے پوچھا:”بچے کا کیا حال ہے؟“
”بچہ ٹھیک ہے ۔
“انسپکٹر نے جواب دیا۔
”میرامطلب ہے کہ اس کی آنکھوں کا کیا حا ل ہے؟“عبدا لرزاق نے بڑی اپنائیت سے پوچھا اور ساتھ ہی فرمائش کردی:”کیا آپ اسے ایک نظر مجھے دکھا سکتے ہیں؟“
”دیکھ کر آپ کیا کریں گے ،دیکھنے دکھانے میں تو وہ بالکل ٹھیک لگتا ہے ،آنکھیں بھی ٹھیک لگتی ہیں بس ان کی روشنی بہ تدریج کم ہورہی ہے ۔“انسپکٹر نے جواب دیا۔

”پھر بھی اسے ایک نظر مجھے دکھائیں۔شاید اسے دیکھ کر میرے ذہن میں کوئی تدبیر آجائے۔زیادہ سے زیادہ آپ کو مجھے گھر پر ایک کپ چائے پلانی پڑے گی۔“عبدالرزاق نے چوٹ کی۔
”کیوں شرمندہ کرتے ہیں رزاق صاحب!چائے ایک نہیں دو پییں،بلکہ کھانا بھی کھائیں،چلیے میں آپ کو اپنے گھر لے چلتا ہوں۔“یہ کہہ کر انسپکٹر نے اپنے کاغذات اور فائلیں سمیٹیں ،انھیں الماری اور میز کی درازوں میں بند کیا اور عبدالرزاق کو لے کر اپنے گھر کی طرف روانہ ہو گیا۔

گھر پہنچ کر انسپکٹر احمد جمیل نے عبدالرزاق کو اپنے بیٹے سے ملوایا وہ واقعی دیکھنے میں بالکل ٹھیک ٹھاک لگ رہا تھا البتہ اس کی آنکھوں میں وہ چمک نہیں تھی جو اس عمر کے بچوں کی آنکھوں میں ہوتی ہے ۔تھوڑی دیر میں چائے آگئی ،عبدالرزاق نے چائے کی چسکی لیتے ہوئے کہا:”ماں جی!کیسی ہیں؟انھیں میرا سلام کہو اور ان سے ملواؤ،آپ کی ماں ہیں تو وہ میری بھی ماں ہیں۔

”ہاں،ضرور ،ضرور۔“یہ کہہ کر احمد جمیل ڈرائنگ روم سے اندر گھر میں گیا اور تھوڑی دیر ماں جی کو ساتھ لے کر آیا۔عبدالرزاق نے کھڑے ہو کر انھیں سلام کیا اور ان کی مزاج پُرسی کی۔
عبدالرزاق نے اچانک احمد جمیل سے کہا:”مجھے بچے کی رپورٹیں تو دکھائیں۔“
”اچھا ابھی لاتا ہوں۔“یہ کہہ کر جونہی احمد جمیل ڈرائنگ روم سے باہر نکلا،عبدالرزاق نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اس کی والدہ سے کہا:”ماں جی!آپ احمد جمیل کی ماں ہیں، آپ میرے لیے بھی ماں کی طرح ہیں ۔
دیکھیے بچے کی آنکھ کا سوال ہے ،اگر اس کی بینائی نہیں رہی تو اس کی زندگی اندھرے ہو جائے گی۔سوچیے کہ پھر اس کی زندگی کیسی ہو گی؟تاریکیوں میں بھٹکتی اور ڈوبتی ہوئی زندگی ،جو دوسروں کے رحم وکرم پر ہوگی ۔لند ن میں اس بچے کی آنکھوں کا علاج ہو سکتاہے ۔میں علاج کے لیے پیسے دینے کو تیارہوں ،جو احمد جمیل بعد میں مجھے واپس کردیں ،تھوڑے تھوڑے کرکے دے دیں،لیکن احمد جمیل میری بات نہیں مان رہے ۔
آپ اور آپ کی بہو انھیں تیار کریں کہ وہ میری بات مان لیں۔میں تو ایک دوست ہوں،میری بات کو وہ مسترد کر سکتے ہیں،لیکن مجھے یقین ہے کہ وہ ماں اور بیگم کی بات کورد نہیں کریں گے۔آپ انھیں میری بات ماننے کے لیے ہر صورت میں تیار کریں۔“عبدالرزاق نے احمد جمیل کے آنے سے پہلے ہی جلدی جلدی ماں جی کو پوری بات نہ صرف بتادی،بلکہ ان کے دماغ میں بٹھادی۔

عبدالرزاق نے جو تیر چلایا تھا وہ نشانے پر بیٹھا۔احمد جمیل کی ماں اور بیوی نے مل کر اسے مجبور کرد یا کہ وہ عبدالرزاق کی بات مان لے اور اس کی پیش کش قبول کرلے۔عبدالرزاق کچھ دن انتظار کرتا رہا اور پھر وہی ہوا جس کی اسے توقع تھی۔ایک ہفتے بعد انسپکٹر احمد جمیل کا ٹیلی فون آیا۔وہ کہہ رہا تھا:”ارے رزاق بھائی!آپ کہاں ہیں؟راستہ دکھا کر آپ غائب ہو گئے۔
اب اس پر چل کر بھی دکھائیں۔میری ماں اور میری بیوی نے تو میری جان عذاب میں کردی ہے ۔آپ میرے بچے کا علاج کروائیں۔میں تیار ہوں،آپ کی پیش کش مجھے قبول ہے۔“
عبدالرزاق نے انسپکٹر احمد جمیل اور اس کے بچے کو لندن بھیجنے اور آنکھوں کا علاج کروانے کے تمام اخراجات برداشت کیے۔مخصوص آپریشن کے بعدبچے کی آنکھیں بالکل ٹھیک ہو گئیں اور بینائی جانے کا خطرہ بھی ٹل گیا۔

”انسپکٹر احمد جمیل نے واپس آکر اپنی ڈیوٹی سنبھال لی۔اب وہ سب کے لیے تو ویسا ہی فولاد کی طرح سخت تھا،لیکن عبدالرزاق کے لیے بالکل موم کی طرح نرم وملائم ۔وہ نہ صرف اس کے مال کو ،اس کی سپلائی کو بغیر دیکھے”اوکے“کر دیتا تھا ،بلکہ جس کی طرف وہ اشارہ کردیتا وہ سپلائی بھی انسپکٹر احمد جمیل کی جانب سے ”اوکے“ہوجاتی تھی۔

Browse More Moral Stories