Zobariya Ki Salgirah - Article No. 1831

Zobariya Ki Salgirah

زوباریہ کی سالگرہ - تحریر نمبر 1831

کل تمہاری سالگرہ ہے کچھ تیاری نہیں کرنی اٹھ جاؤ بازار سے ہو آئیں

پیر 2 نومبر 2020

صائم جمال
باجی مسرت صبح سے کاموں میں مصروف تھی۔تعلیمی ادارے اوپن تو ہو گئے تھے مگر بچے ایک دن جاتے اور دوسرا دن ریسٹ،یہ ہماری حکومت کی جانب سے اعلان تھا کہ زیادہ سکول کالجز میں رش نہ بڑھے اس لئے اس حکمت عملی پر عمل پیرا تھے۔باجی مسرت کی بیٹی زوباریہ اس کی بھی آج چھٹی تھی جبکہ عمائمہ اور مصفراء آج سکول گئیں تھیں۔
زوباریہ گول مٹول بھاری بھرکم جسامت کی دلکش لڑکی تھی وہ کھاتی بہت تھی اس لئے دن بدن گول گپہ بنتی جا رہی تھی جبکہ عمائمہ اور مصفراء سمارٹ اور پھرتیلی بچیاں تھیں۔یہ تینوں پڑھائی میں ذہین تھیں۔زوباریہ کو گھر میں پیار سے سب زوبی کہتے تھے اُس کے والد بیرون ملک تھے۔
عمائمہ اور مصفراء اس کی کزنز تھیں۔زوبی اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھی اس لئے خوب ناز نخرے اٹھواتی تھی اور یہ اپنے ماموں صائم اور جمشید کے ساتھ رہائش پذیر تھیں۔

(جاری ہے)

باجی مسرت چاک و چوبند اور پھرتیلی خاتون تھیں جھٹ پٹ سارے کام انجام دے دیتی۔ابھی وہ گھر کے کاموں سے فری ہو کر اپنی بیٹی کے کمرے کی طرف آئی۔زوبی اپنے بھاری بھرکم جسے سمیت چارپائی پر دراز خراٹے لے رہی تھی۔ ”ارے بیٹا!کب تک سوتی رہو گی اُٹھ جاؤ؟آج 4نومبر ہے کل تمہاری سالگرہ ہے کچھ تیاری نہیں کرنی اٹھ جاؤ بازار سے ہو آئیں۔ تمہارے کپڑے اور کچھ ضروری سامان لے آئیں۔
زوبی آنکھیں ملتے ہوئے لمبی جمائی لے کر بولی۔مما پہلے گرما گرم چائے بنا دیں ساتھ میں کچھ کھانے کو بھی دیدیں پھر چلتے ہیں بازار“اُس کی نانو تنگ کر بولیں:ارے لڑکی اب پورا بازار نہ اُٹھا لانا اب کیا یہ سالگرہ کے فنکشن آگئے،ہمارے زمانے میں تو یہ اوٹ پٹانگ فنکشنز نہیں ہوتے تھے یہ اوشا بوشیاں تو اب ہوتیں ہیں،پیسے کا ضیاع۔ہی․․․․․ہی․․․․ہو ہو․․․․․․تاتا․․․․․ماتا مچائے رکھتے۔

اماں کا کام تھا ہر معاملے میں ٹانگ اڑانا۔اُن کی طبیعت ہی ایسی تھی اس لئے کوئی بھی اُن کی بات کا برا نہ مناتے۔زوبی نے مسکراتے ہوئے نانو جان کے گلے بازو حمائل کر دیئے۔پیاری نانو جان!آپ کے زمانے میں اور اب کے زمانے میں بہت فرق ہے آہستہ آہستہ وقت کے ساتھ اور زمانے کے ساتھ چلنا پڑتا ہے۔اماں جانی ہمارے گھر میں تو سارے بچے ہی سالگرہ مناتے ہیں۔
ٹھیک کہتی ہو بیٹا!ویسے ہی کافی عرصہ ہو گیا گھر میں کوئی چہل پہل نہ ہوئی اس کمبخت کورونا نے سب خوشیاں نگل لیں اب کچھ حالات بہتر ہیں اچھا ہے گھر میں میرے سب بچے اپنے بال بچوں سمیت ایک ساتھ اکٹھے ہو جائیں گے۔مل بیٹھنے اور دُکھ سُکھ کرنے کا موقع آجائے گا پھر زوبی اپنی مما کے ساتھ بازار جانے کی تیاری کرنے لگیں۔اتنے میں اُن کے ماموں جان آگئے وہ انہیں گاڑی میں بٹھا کر بازار لے گئے۔
یہ جس دکان پر بھی جاتے ان کو کپڑوں میں کوئی لباس پسند نہ آرہا ہو وہی پچھلے سال والے پرنٹ منہ چڑھا رہے تھے۔دکاندار کہہ رہے تھے کہ چھ ماہ تو فیکٹریاں بند رہیں کورونا کی وجہ سے نیا مال تیار نہیں ہو سکا اس لئے جو سٹاک میں پڑا ہے اُسی میں سے ہر کوئی لیے جا رہا ہے۔انشاء اللہ جلد ہی نیا مال آنا شروع ہو جائے گا کیونکہ فیکٹریاں کھل گئیں ہیں اور نیا مال تیار کر رہی ہیں۔
پھر اُنہی میں سے باجی مسرت اور زوباریہ نے کپڑے سلیکٹ کر لیے۔ زوبی نے اپنی نانو کے لئے بھی دو جوڑے سوٹ لئے اور اپنی برتھ ڈے کے لئے عمدہ سافراک پسند کر لیا۔ساتھ میں میچنگ جوتے و دیگر سامان لے کر یہ شام ڈھلے گھر آگئیں۔خوشی کے مارے پوری رات زوبی کو نیند نہیں آرہی تھی صبح 5نومبر تھا اُس کی سالگرہ کا دن۔
لیکن وہ تھوڑی اُداس بھی تھی کہ کافی سالوں سے اکیلی اپنی ماں و دیگر بچوں کے ساتھ سالگرہ منا رہی تھی اُس کے ابو کافی عرصہ سے پاکستان نہیں آئے بے حد مصروفیت کی وجہ سے ۔
اپریل 2020ء میں انہوں نے آنا تھا لیکن پھر حالات ایسے پیدا ہو گئے کہ وہ وہیں رہ گئے فلائٹس بند ہو گئیں لیکن وہ ویڈیو کال روز کر لیتے اور اپنی پیاری بیٹی زوبی کا حال احوال پوچھ لیتے۔5نومبر کا خوشگوار دن آگیا۔زوبی نے صبح اُٹھ کر اپنی مما اور نانو جان کے ساتھ فجر کی نماز ادا کی اور پھر قرآن پاک کی تلاوت کی۔اس کی مما اور نانو نے پیار سے اُس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اس کے زندگی کے نئے سال کی شروعات کے لئے ڈھیروں ڈھیر دعائیں دیں۔

زوبی رقت آمیز لہجے سے اپنی نانو جان اور مما کو گلے لگ گئی۔شام تک اُس کے ماموں صائم نے پورے گھر کو برقی قمقموں سے سجا دیا۔ہال میں رنگ برنگے غبارے و دیگر سجاوٹ کی چیزیں لگا کر خوبصورت ماحول بنا دیا۔اُن کے بڑے ماموں ممانی اور ان کے بچے حماد،حمنہ،ہادیہ اور لنتا ناز سب ٹائم سے آگئے۔اُس کی خالہ بھی اپنے دونوں شریر بچوں انس اور عنایہ کے ساتھ آگئیں،انس،لنتا اور مصفراء کے شور شرابے عروج پر تھے پھر ہال کمرے میں بڑی ٹیبل رکھ دی گئی اور اُس پر زوبی کے ماموں نے اُس کا فیورٹ چاکلیٹ کیک سجا دیا جس کے ہر طرف رنگ برنگی کینڈلز جل رہی تھیں۔
زوبی سرخ فراک میں ونگز لگائے پری بنی اپنی مما کے ساتھ کھڑی تھی۔یہ دلفریب منظر اماں نے کھڑکی سے دیکھا اور فوراً وہ بھی ہال میں داخل ہو گئی۔بچوں کی تالیوں کے شور میں کیک کاٹا گیا اور سب کو سرو کرنے کی ڈیوٹی زوبی کی مما اور خالہ کی تھی۔ ابھی باجی مسرت کیک پر چھری رکھ رہی تھی کہ انس نے شرارت سے لنتا کو کیک پر دھکا دے دیا۔لنتا کا منہ پورے کا پورا کیک میں گھس گیا اور عجیب مضحکہ خیز لگ رہی تھی سب بچے ہنس رہے تھے وہ تو بھلا ہوا ماموں صائم کا وہ احتیاطاً دو کیک لے آئے تھے پھر باجی نے فریج سے فوراً دوسرا کیک نکالا اور سب کو سرو کیا یوں یہ یادگار اور دلفریب تقریب کا اختتام ہو گیا اور اگلی صبح سب اپنے اپنے گھروں کو چل دیئے۔

Browse More Moral Stories