Dhindhora - Article No. 812
ڈھنڈورا - تحریر نمبر 812
ان کا نام رستم علی خاں تھا۔ پیٹ کے ہلکے تھے یعنی کسی بات کو وہ راز نہیں رکھ سکتے تھے۔ اگر کسی کے ساتھ کوئی اچھا سلوک یا نیکی کر بیٹھتے تو اس کا احسان جتانے کے لئے ڈھنڈورا بہت پیٹا کرتے تھے
بدھ 1 جولائی 2015
محلے میں ایک تقریب تھی اور تقریباََ سب ہی محلے دار موجود تھے۔ کچھ دیر میں خاں صاحب گنگناتے ہوئے اس محفل میں پہنچے اور بیٹھتے ہی کہنے لگے،” ارے صاحب ! آج کل اخلاق نام کی کوئی چیز لوگوں میں نہیں رہی۔
(جاری ہے)
کل یہ ہمارے مرزا صابر صاحب کے ساتھ اتنا افسوس ناک واقعہ ہوا اور محلے میں سے کوئی ان کے لئے کھڑا نہیں ہوا۔
“لوگوں نے واقعے کی تفصیل پوچھی تو خاں صاحب کہنے لگے۔” ارے صاحب ! یہ پولیس والے بھی ایسے سنگین الزامات بے سبب لگا دیتے ہیں ۔ بھلا سوچیے، مرزا صاحب جیسے شریف آدمی پر غبن کا الزام لگا دیا۔ جیسے ہی یہ بات میرے علم میں آئی میں فوراََ پہنچ گیا اور کافی دوڑ دھوپ کے بعد ان کو رہا کرانے میں کامیاب ہو گیا۔“ یہ سنتے ہی مرزا صاحب پر گھڑوں پانی پڑگیا اور وہ بے چارے خاموشی سے اُٹھ کر چل دیے۔
ایک واقعہ تو بہت ہی دل چسپ ہے ۔ پچھلے دنوں خاں صاحب کے ماموں سادات نگر سے ان کے ہاں مہمان آئے۔ دو دن بعد خاندان میں ایک ولیمے کی تقریب تھی جس میں ماموں موجود تھے۔ کچھ ہی دن پہلے خاں صاحب کو ان کے دوست نے مردان سے ان کے لیے نہایت نفیس مخمل کی کیپ بھیجی تھی جو وہ خاص تقریبات میں استعمال کرتے تھے ۔ تقریب کے دن خاں صاحب نے ماموں سے اصرار کیا کہ آج کی تقریب میں وہ ان کی ٹوپی ضرور پہنیں۔ ماموں نے سرخ پھولوں کی ریشمی شیروانی زیب تن کر کے سر پروہ ٹوپی جمائی اور آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر خود کو ہر زاویے سے دیکھا اور دل ہی دل میں داد دی۔
ولیمے کی تقریب میں سب ہی قریبی رشتے دار موجود تھے اور خاں صاحب ماموں کا تعارف ہر کسی سے کروارہے تھے۔ اپنے عزیز دوست سلیم احمد پر نظر پڑتے ہی خاں صاحب موموں کا ہاتھ پکڑ کر سلیم صاحب کے قریب گئے اور ماموں کا تعارف کراتے ہوئے کہنے لگے۔” سلیم صاحب ! ان سے میلے۔ یہ ہمارے ماموں حشمت علی خاں، سادات نگر سے نامور زمینداروں میں سے ہیں۔ اچھے کپڑے پہننے کے شوقین ہیں لیکن یہ جو شان دار ٹوپی پہنے ہوئے ہیں یہ میری ہے۔“
ٹوپی والی بات سن کر ماموں بہت شرمندہ ہوئے اور خان صاحب کو ایک کونے میں لے جا کر ناراضگی سے بولے۔” میاں ! تم نے حد کر دی چھچھورپن کی۔ بھلایہ کہنے کی کیا ضرورت تھی کہ یہ ٹوپی میری نہیں ہے یعنی آپ نے تو حد کر دی۔“
خاں صاحب بہت شرمندہ ہوئے اور اپنی غلطی تسلیم کی۔
کچھ دیر بعد مجمع میں گھومتے پھرتے خاں صاحب کو اپنے ایک اور دوست نظر آئے۔ وہ ماموں کا ہاتھ پکڑ کر ادھر لپکے۔
”شارق صاحب! ان سے ملیے یہ ہیں ہمارے پیارے ماموں حشمت علی خاں۔ سادات نگر کی نامور شخصیت ہیں۔ زمینداری کے علاوہ ان کا ٹرانسپورٹ کا کاروبار بہت وسیع ہے اور ہاں یہ جو ٹوپی پہنے ہوئے ہیں یہ بھی ان کی ہے۔“
ماموں یہ سن کر پھر بھڑک اُٹھے اور روٹھ کر جانے لگے۔ خاں صاحب کے خوشامد کرنے پر گرجے۔” بھلے آدمی ! تم نے تو واقعی حد کر دی احمق پن کی۔ میں کہتا ہوں کہ آخر اس کمبخت ٹوپی کا ذکر کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔“
خاں صاحب نے ماموں کے گلے میں بانہیں ڈال دیں اور بڑی مشکل سے راضی کیا۔ اسی دوران دولھا کے والد مبارک باد وصول کرتے ہوئے ادھر آنکلے۔ ان کو دیکھتے ہی خاں صاحب نے پھر ماموں کا تعارف کرایا۔” عقیل صاحب ! ان سے ملیے یہ ہیں ہمارے ماموں حشمت علی خاں۔ سادات نگر سے اس بار ایم ۔ا ین اے کے لیے الیکشن لڑ رہے ہیں ۔ بہت ہر دل عزیز ہیں کام یابی یقینی ہے اور ہاں، ان کے سر پر جو یہ ٹوپی رکھی ہے اس کاکوئی ذکر نہیں کروں گا۔“
اب ماموں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا۔ انھوں نے ٹوپی اتار کر خاں صاحب کے پیروں میں پٹخی اور وہیں سے سیدھے اپنے گھر سادات نگر روانہ ہو گئے اور خاں صاحب سے ہمیشہ کیلئے تعلقات ختم کر لیے۔
Browse More Mutafariq Mazameen
کڈز فیشن شو
Kids Fashion Show
میثاق چچا
Misaaq Chacha
دو ہاتھ آگے
2 Hath Aage
جادوگر کی نیکی
Jadugar Ki Naiki
نونہالوں میں خود اعتمادی پیدا کریں
Nonhalon Mein Khud Itmadi Peda Karen
ماہ رمضان رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ
Mah E Ramzan Rehmatoon Or BarkatooN Ka Mahina
Urdu Jokes
گڈو اپنے باپ سے
guddu apne baap se
ایک سردار جی
Aik sardar ji
فٹ بال آئندہ چاند پر نہ آئے
Football ainda chand par na aaye
امتحان
imtihan
کرکٹ ٹیم
cricket team
قائداعظم
Quaid e Azam
Urdu Paheliyan
شوں شوں کرتی نار اک نکلی
sho sho karti naar ek nikli
پانی نیچے سے لے کر آتا ہے
paani neeche sy ly kar ata hy
نیچے سے جب اوپر جائے
neechy se jab oper jae
گھر سے نکلی باہر آئی
ghar se nikli bahir ai
لوگوں نے کیا بات گھڑی
logo ne kya baat ghari
اوروں کے قبضے میں ہے
auro ke qabzy me hai