Nonehal Aur Foot Path Par Taleem - Article No. 1264

Nonehal Aur Foot Path Par Taleem

نونہال اور فٹ پاتھ پر تعلیم - تحریر نمبر 1264

ننھے مُنے دوستوں کے شوق کی انتہا دیکھئے کہ جب وہ کسی بھی کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا مصمم ارادہ کرلیتے ہیں تو وہ کام کر گزرتے ہیں چاہے اس کے لئے

منگل 1 جنوری 2019

مظہرحسین شیخ
ننھے مُنے دوستوں کے شوق کی انتہا دیکھئے کہ جب وہ کسی بھی کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا مصمم ارادہ کرلیتے ہیں تو وہ کام کر گزرتے ہیں چاہے اس کے لئے کتنی محنت ہی کیوں نہ کرنی پڑے،اس کام میں آنے والی ہر رکاوٹ کو معمولی سمجھتے ہیں، ایسے بچوں کی اللہ تعالیٰ بھی مدد فرماتا ہے۔ پاکستان کے نونہال ذہنی صلاحیتوں سے مالا مال ہیں،یہاں صلاحیت کی کمی نہیں اور ذہین اور ہونہار بچوں کی کارکردگی کسی سے ڈھکی چُھپی نہیں، ارفع کریم مرحوم کے نام سے کون واقف نہیں، ملالہ یوسفزئی کو کون نہیں جانتا۔

راولپنڈی کا حارث منصور سے بھی سب بچے واقف ہیں۔تنور پر کام کرنے والے طالب علم نے اوّل پوزیشن حاصل کی۔ اس طرح اور درجنوں بچے ہیں جنہوں نے ورلڈ ریکارڈ قائم کیا جبکہ ایسے بچے بھی ہیں جن کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ وہ تعلیمی اخراجات برداشت کر سکیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے بھی ثابت کر دیا کہ …

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

خوش قسمت ہیں آج کے بچے جنہیں سہولت کی ہر چیز میسر ہے، کھانے کو اچھی غذا، پہننے کے لئے اچھے کپڑے،موبائل فون،کمپیوٹر، سکول آنے جانے کے لئے ٹرانسپورٹ جو گھر کے دروازے پرلینے آتی اور عین سکول کے سامنے ڈراپ کرتی ہے۔

جبکہ چند قدم ہی پیدل چلنا پڑتا ہے،اس کے علاوہ کھیلنے کے لئے بڑی وسیع و عریض گرائونڈز جہاں بچے خوب دوڑتے ہیں، کھیلتے ہیں اورلطف اندوز ہوتے ہیں،اس میں کوئی شک نہیں کہ کھیل کود سے ذہنی وجسمانی نشوونما ہوتی ہے۔ ہر سہولت میسر ہونے کے باوجود اگر بچے تعلیم حاصل نہ کرپائیں تو یہ بڑے افسوس کی بات ہے۔ جب بچے والدین سے کسی قسم کی فرمائش کرتے ہیں تو والدین بچوں کی ہر جائز و ناجائز خواہش پوری کر نے کی کوشش کرتے ہیں۔
والدین اپنی اولاد کومعاشرے کا کارآمد شہری بنانے کے لئے کوئی کسر نہیں چھوڑتے اورہروقت بچوں کی بہتری کے لئے کوشاں رہتے ہیں۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتاکہ تعلیم کے بغیر انسان ادھورہ ہے،تاریح گواہ ہے وہی قومیں ترقی یافتہ کہلاتی ہیں جن کے بچے تعلیم کی طرف راغب ہوتے ہیں یا ان بچوں کو تعلیم کی طرف راغب کیا جاتا ہے۔بچے جب سکول داخل ہوتے ہیں توان کو کھیل کود کے مواقع بھی فراہم کیے جاتے ہیں،گو کہ سرکاری و غیر سرکاری سکولوں میں نصاب الگ الگ ہے لیکن ابتدا میں انہیں صرف رنگوں کی پہچان کرائی جاتی ہے۔
پھر آہستہ آہستہ بچہ اپنا ذہن تعلیم کی طرف مائل کرلیتا ہے اور اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے آگے چل کر کیا کرنا ہے۔
آج کے بچے ہر میدان میں ترقی کرنا چاہتے ہیں،تعلیم ہو یا تفریح بچے ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ایسے بچوں کی کمی نہیں جو وسائل نہ ہونے کے باوجودپڑھائی سے غافل نہیں،وہ بھی اپنا تعلیمی کیرئر بنانا چاہتے ہیں یا بنانا جانتے ہیں،ہمارا اشارہ اُن بچوں کی طرف ہے،جو نہ توغیر سرکاری سکول میں داخل ہیں اور نہ ہی سرکاری سکول کے معمولی اخراجات برداشت کر سکتے ہیں،جی ہاں! یہ وہ بچے ہیں جو فٹ پاتھ پر تعلیم حاصل کرتے ہیں۔
تصویر میں آپ دیکھ رہے ہیں کہ ٹریفک رواں دواں ہے، دھواں چھوڑتی گاڑیاں بھی گزر رہی ہیں، لوگ اپنے کام کاج کے سلسلہ میں گھروں سے باہر نکلے ہیں کوئی ویگن پر سوار ہے کوئی موٹر سائیکل تو کوئی گاڑی کے ذریعے اپنے کاموں کو جارہے ہیں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ بچے ٹریفک کے بے ہنگم شوراور ماحولیاتی آلودگی کی پرواہ کئے بغیرپڑھائی میں مصروف ہیں،یا یہ کہہ لیجئے کہ اردگردکے ماحول سے بے خبر اپنی توجہ علم پر مرکوز کیے ہوئے ہیں ،یہی ان کا معمول ہے اور انہیں حالات میں علم حاصل کررہے ہیں۔
سخت سردی اور سخت گرمی میں موسم کی پرواہ نہیں کرتے ،یہ بچے حصول تعلیم کے لئے سرگرداں ہیں۔ یقیناً یہ بچے آگے چل کر نہ صرف اعلیٰ مقام حاصل کریں گے بلکہ ملک و قوم کا نام ضرور روشن کریں گے۔
یہ وہ بچے ہیں جو مالی وسائل کا شکار ہیں،یہی وجہ ہے کہ علم کے طالب بچے فٹ پاتھ پر تعلیم حاصل کر رہے ہیں،یہ وہ بچے ہیں جن کی دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں۔
لیکن محنت شوق اور لگن سے بھرپور بچے اپنی دھن کے پکے ہیں۔ کل کو ان بچوں نے ہی ملک کی باگ دوڑ سنبھالنی ہے،اب آپ سوچیں گے کہ اتنا پیارا شہر کون سا ہے ،جہاں سڑکیں بھی ہیں اور اوور برج بھی، جس کے سائے تلے ننھے مُنے بچے تعلیم حاصل کررہے ہیں؟ یہ پاکستان کا مشہور شہر کراچی ہے،آفرین ہے ان ٹیچرز پرجو بچوں کو بلا معاوضہ اور بغیر کسی لالچ کے پڑھاتی ہیں،یہی حال شمالی علاقہ جات ہے،وہاں بھی ایسے متعدد سکول ہیں جن کے پاس کوئی بلڈنگ نہیں ،وہاں کے بچوں کو بھی بچوں کو پڑھنے کا بے حد شوق ہے،وہ اپنے شوق کی تکمیل کے لئے کھُلے آسمان تلے تعلیم حاصل کرتے ہیں،سکول ہو یا گھر تعمیراتی کام لکڑی سے ہی ہوتے ہیں کیونکہ یہ پہاڑی علاقے ہیں ، یہاں موسم کے لحاظ سے سکول بند ہوتے ہیں لیکن تعلیم حاصل کرنے والے بچے اور بچیاں ٹولیوں اورگروپ کی صورت میں تعلیم حاصل کرنے جاتے ہیں اور پڑھائی میں ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔
تعلیم بچوں کے لئے بے حد ضروری ہے۔ وہی قومیں ترقی کرتی ہیں جو تعلیم پر خاص توجہ دیتی ہیں۔اس بات پر غور کریں کہ بچوں کے ابتدائی پانچ برس بڑے قیمتی ہوتے ہیں اس عمر میں بچے والدین کی بھرپور توجہ چاہتے ہیں، ان پانچ برسوں میں اچھی تربیت پاکر کندن بھی بن سکتے ہیں۔
والدین خُدا کی طرف سے اولاد کے کفیل ہوتے ہیں،قدرت انہیں جو کچھ عطا کرتی ہے اس سے ان کا بنیادی فرض یہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت پر ٹھوس توجہ دیں،شوق،لگن اورتوجہ اولاد کے پاس ہے جبکہ مقدر کا فیصلہ والدین کے پاس اور نہ ہی اولاد کے پاس ہے،یہ اوپر والے کی رضا ہے۔

Browse More Mutafariq Mazameen