Polo Ka Khail - Article No. 1235

Polo Ka Khail

پولو کا کھیل - تحریر نمبر 1235

پولو،بادشاہوں کا کھیل کہلاتا ہے ۔یہ کھیل دنیا کے بہت سے ممالک میں مقبول ہے ۔اولمپکس میں بھی وقتاً فوقتاً یہ کھیل شامل رہا۔

پیر 26 نومبر 2018

رانا محمد شاہد
پولو،بادشاہوں کا کھیل کہلاتا ہے ۔یہ کھیل دنیا کے بہت سے ممالک میں مقبول ہے ۔اولمپکس میں بھی وقتاً فوقتاً یہ کھیل شامل رہا۔اس کھیل کی تاریخ بہت پرانی ہے ۔ایران کے لوگ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت سے 500برس پہلے یہ کھیل کھیلا کرتے تھے ۔بنیادی طور پر یہ ایرانی کھیل ہی ہے ۔وہاں حکمراں خسروپرویز بھی اس کھیل میں خاصی دل چسپی رکھتا تھا۔


ایران کے معروف شاعر فردوسی نے بھی اپنی شاعری میں اس کھیل کا خصوصی طور پر ذکر کیا ۔سینکڑوں برس قبل ایرانی بادشاہوں نے اس کھیل کو اپنے فوجیوں کی ورزش اور جسمانی مضبوطی برقرار رکھنے کے لیے کھیلنا شروع کیا۔یہ کھیل دراصل ان کی فوجی تربیت کا حصہ تھا۔بہت سے قبائل کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے جھگڑوں کا فیصلہ پولو گراؤنڈ میں کرتے تھے ۔

(جاری ہے)

مغل بادشاہ قطب الدین ایبک کا 1210ء میں چوگان یعنی پولوکھیلتے ہوئے ہی گھوڑے سے گر کر انتقال ہوا تھا۔
افغانستان میں اس سے ملتا جلتا کھیل انہی مقاصد کے لیے ایک لمبے عرصے تک کھیلا جاتا رہا۔آہستہ آہستہ یہ ایشیا کا مقبول کھیل بن گیا۔مغل حکمران اورنگزیب عالم گیر کے بارے میں یہ دل چسپ بات مشہور ہے کہ وہ اپنے فوجی کمانڈروں کا انتخاب پولو کے میدانوں سے کرتا تھا اور یہی وہ کمانڈوز تھے کہ جن سے اس نے ایک لمبے عرصے تک بر صغیر پر حکومت کی ۔

برطانوی دور میں انگریز اس کھیل کو برطانیہ لے گئے ،جہاں پولو کے باقاعدہ اُصول وضابطے بنائے گے۔یعنی ایک وحشیانہ کھیل کو مہذب بنادیا گیا ۔ماہرین ،پولو کو عام کھیل نہیں سمجھتے ۔ان کے مطابق اس کھیل کی اپنی الگ دنیا اور الگ زبان ہے ۔پولو جسمانی پھرتی اور ذہانت کا حسین ملاپ ہے ۔شطر نج کی طرح پولو میں بھی تیزی سے فیصلے کرتے پڑتے ہیں ۔

بظاہریہ کھیل گھوڑے پر سوار ہو کر گیند کولے کر بھاگنے کا نام ہے ،مگر اصل میں حریف کی چالیں سمجھ کر انھیں ناکام بنانے کی حکمتِ عملی طے کرنا ہے ۔اس کھیل میں پھر تی اور ذہانت فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے ۔میدان میں دو ٹیمیں ایک دوسرے کے خلاف گول کرنے کی کوشش کرتی ہیں ۔ہر ٹیم میں چار گھوڑ سوار کھلاڑی شامل ہوتے ہیں ۔
ان کھلاڑیوں کی پوزیشن نمبروں کی ترتیب سے ہوتی ہے ۔
نمبر ایک کھلاڑی حملہ آور ہوتا ہے اور گول کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔کھلاڑی نمبر دو سخت سوار کہلاتا ہے اور گیند کے حصول کے لیے ہر وقت لڑائی کرتا ہے ۔کھلاڑی نمبر تین عموماً سب سے مضبوط کھلاڑی تصور کیا جاتا ہے ۔اسے ٹیم کا کوار ٹربیک بھی کہتے ہیں ۔کھلاڑی نمبر چار دفاعی پوزیشن سنبھالتا ہے اور حریف کھلاڑی کو گول کی طرف آنے سے روکتا ہے ۔
ابتدامیں پولو کے لیے لکڑی کی گیند استعمال ہوتی تھی ۔
اب پلاسٹک کی استعمال ہوتی ہے،جس پر چمڑا چڑھا ہوتا ہے ۔گیند کو مارنے کے لیے کھلاڑی جو چھڑی استعمال کرتا ہے ۔اس کی لمبائی مختلف ہوتی ہے ۔یعنی اس کا انحصار گھوڑے کی اونچائی پر ہے ۔حفاظتی اقدامات کے طور پر اس کھیل میں شامل کھلاڑی ایک ہیلمٹ اور فیس گارڈ ،گھوڑے پر زین ور کھلاڑیوں کے گھٹنوں کے لیے پیڈز استعمال کرتے ہیں ۔پولو کا کھیل عموماً اچھے وقفوں پر مشتمل ہوتا ہے ۔

ہر وقفے کا دورانیہ سات منٹ پر مشتمل ہوتا ہے ۔پولو کے کھیل میں قواعد وضوابط کی پابندی کے لیے دو امپائر اور ایک ریفری ہوتا ہے ۔فاؤل ہونے پر جرمانہ ہوتا ہے ۔عام طور پر گول سے 40,30یا 60گز(34,27یا 55میٹر )کی فری ہٹ کو فاؤل قرار دیا جاتا ہے ۔کھلاڑی کے صحیح راستے سے گیند لے کر آنے پر امپائر مخالف کے کھلاڑی کی مداخلت کو بھی فاؤ ل قرار دیتے ہیں ۔

اُصولاً ہر کھلاڑی ایک سے دس گول کر سکتا ہے ۔دس گول مکمل کرنے والا کھلاڑی بہترین کھلاڑی قرار پاتا ہے ۔پولو کے اکثر مقابلوں میں رکاوٹوں کا مقابلہ بھی ہوتا ہے ،جس میں دیکھنے والے خصوصی دل چسپی لیتے ہیں ۔
پاکستان میں چھوٹے بڑے جاگیر دار اور سرمایہ دار اس کھیل کا خصوصی اہتمام کرتے ہیں ۔اس مقصد کے لیے منہگے اور نایاب گھوڑے مختلف ممالک سے منگوائے جاتے ہیں ۔
ماہرین کے مطابق پولو کے ایک گھوڑے کی قیمت 50لاکھ روپے تک ہوتی ہے ۔ان گھوڑوں کی خصوصی دیکھ بھال کی جاتی ہے ۔نہ صرف انھیں خصوصی خوراک دی جاتی ہے،بلکہ ان کی دیکھ بھال کے لیے تربیت یا فتہ افراد کی مکمل ٹیم ملازم رکھی جاتی ہے ۔
لاہور میں نوجوان کھلاڑیوں کی تربیت کے لیے پولو اکیڈمی کا قیام بھی عمل میں لایا جا چکا ہے ۔لاہور پولو کلب کے زیرِ اہتمام ہر سال 20سے زائد ٹورنا منٹس کا انعقاد کیا جاتا ہے ۔
پولو کے سب سے بڑے مقابلے پاکستان کے علاقے ’شندور “کے مقام پر ہوتے ہیں ۔یہ دنیا کا بلند ترین پولو میدان ہے ۔یہ سطح سمندر سے 12500فیٹ کی بلندی پر واقع ہے ۔ان مقابلوں میں دنیا بھر سے نام ورکھلاڑی آتے ہیں ۔پولو کی وجہ سے اس علاقے کی شہرت ساری دنیا میں ہے ۔

Browse More Mutafariq Mazameen