Quied Azam Ke Ikhlaq - Article No. 1257

Quied Azam Ke Ikhlaq

قائد اعظم کے اخلاق - تحریر نمبر 1257

بانیِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کا یوم پیدائش پاکستانی قوم جس شاندار طریقے سے مناتی ہے بے شک مثالی ہے ۔آج جبکہ نئی نسل تقریباً ہر معاملے میں ہی فلمی اور دیگر کمر شل ہیروز کی تقلید کرتی ہے ،اِسی وجہ سے

منگل 25 دسمبر 2018

مریم خالد
بانیِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کا یوم پیدائش پاکستانی قوم جس شاندار طریقے سے مناتی ہے بے شک مثالی ہے ۔آج جبکہ نئی نسل تقریباً ہر معاملے میں ہی فلمی اور دیگر کمر شل ہیروز کی تقلید کرتی ہے ،اِسی وجہ سے معاشرے میں کئی خرابیاں پیدا ہورہی ہیں ۔اِن حالات میں نئی نسل کو قائد کے اعلیٰ اخلاق سے روشناس کرانا بے حد ضروری ہے کیونکہ قائد کا کردار بے داغ ہے ۔


وہ ایک ماڈرن اِنسان تھے ،اُنہوں نے اپنے پیشے وکالت سے ہی اتنی دولت کمائی کہ پورے ہندوستان میں کوئی اُن کا ثانی نہ تھا ۔ اُنہوں نے اپنی زندگی میں جو اصول بنا رکھے تھے ،اُن پر ہمیشہ کار بندرہے اور اُن اصولوں کی وجہ سے ہی ترقی کی ۔آج ہم دیکھتے ہیں کہ اکثر لوگ آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کیلئے ہر ناجائز حربہ بھی اپنانے کو اِسلئے تیار ہوتے ہیں کہ اُن کے خیال میں کامیابی اِسی طرح مل سکتی ہے۔

(جاری ہے)


حقیقت یہ ہے کہ قائد اعظم نے اپنی قوم کو تنظیم ،اتحاد اور یقین محکم کے اصول دئیے مگر بد قسمتی سے قوم نے اِن اصولوں کو فراموش کردیا۔
نئی نسل اگر قائد کے اخلاق کو اپنے لئے مشعل راہ بنا لے تو معاشرے سے کئی طرح کی خرابیاں ختم ہو سکتی ہیں ۔قائد کے نزدیک وقت کی اہمیت سب سے زیادہ تھی ۔وہ ہر کام وقت پر انجام دیتے تھے ۔اُن کے بارے میں اگر یہ کہا جائے کہ لوگ قائد کو دیکھ کر اپنی گھڑی کا ٹائم ٹھیک کر لیتے تھے ،تو غلط نہ ہو گا۔
اپنی وفات سے کچھ عرصہ قبل اُنہیں اسٹیٹ بنک آف پاکستان کا افتتاح کرنا تھا ،یہ اُن کی آخری سرکاری تقریب ثابت ہوئی ۔
اِس تقریب میں وہ علالت کے باوجود شریک ہوئے ۔وہ ٹھیک وقت پر تقریب میں تشریف لائے۔ اُنہوں نے دیکھا کہ شرکاء کی اگلی نشست ابھی تک خالی ہیں تو اُنہوں نے تقریب کے منتظمین کو پروگرام شروع کرنے کا کہا اور حکم دیا کہ خالی نشستیں سامنے سے ہٹادی جائے ۔
حکم کی تعمیل ہوئی اور بعد میں آنے والے شرکاء کو کھڑے ہو کر تقریب کا حال دیکھنا پڑا۔اُن میں کئی دوسرے وزراء سرکاری افسر کے ساتھ اُس وقت کے وزیر اعظم خان لیاقت علی خان بھی شامل تھے ۔وہ بے حد شرمندہ تھے کہ اُن کی ذراسی غلطی قائد اعظم کے برداشت نہیں کی اور ایسی سزادی جو کبھی نہ بھولی گئی۔
قائد اعظم نے اپنی زندگی میں کبھی کسی کو رشوت نہیں دی ۔
ایک مرتبہ جبکہ قائد اعظم ہندوستان کے مسلمانوں کے قائداعظم نہیں تھے بلکہ محض ایک بیر سٹر ہی تھے ،ٹرین میں سفر کررہے تھے ۔
دورانِ سفر اُنہیں یاد آیا کہ غلطی سے اُن کا ریل کا ٹکٹ ملازم کے پاس ہی رہ گیا ہے اور وہ بلاٹکٹ سفر کررہے ہیں ۔جب وہ اپنا سفر مکمل کرکے اسٹیشن پر اُترے تو ٹکٹ ایگز امنر سے ملے اور اُس سے کہا کہ چونکہ میرا ٹکٹ ملازم کے پاس رہ گیا ہے ،اِسلئے وہ اُنہیں دوسرا ٹکٹ دے دے ۔

ٹکٹ ایگزامنر نے کہا؛آپ دو روپے مجھے دے دیں اور پلیٹ فارم سے باہر چلے جائیں ،قائد اعظم یہ سُن کر طیش میں آگئے ۔اُنہوں نے کہا تم نے مجھ سے رشوت مانگ کر قانون کی خلاف ورزی اور میری تو ہین کی ہے ۔بات اتنی بڑھی کہ لوگ اَکھٹے ہو گئے ،ٹکٹ ایگزامنر نے لاکھ جان چھڑا نا چاہی لیکن قائداعظم اُسے پکڑ کر اسٹیشن ماسٹر کے پاس لے گئے ،بالاخر اُن سے رشوت طلب کرنے والا ٹکٹ ایگز امنر قانون کے شکنجے میں آگیا۔

وکالت میں بھی قائد اعظم کے اصول تھے جن سے وہ تجاوز نہیں کرتے تھے ۔وہ جائز معاوضہ لیتے تھے ۔مثلاً ایک تاجر اُن کے پاس ایک مقدمہ لے کر آیا۔
اُ س نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ آپ اس مقدمہ میں میری وکالت کریں۔ آپکی کیا فیس ہو گی ؟
قائد اعظم نے کہا کہ میں مقدمے کے حساب سے نہیں ،پیشی کے حساب سے فیس لیتا ہوں ۔
موکل نے سوال کیا کہ کتنی؟
قائدِاعظم نے بتایا کہ پانچ سو روپے فی پیشی ۔

موکل نے کہا میرے پاس اِس وقت صرف پانچ ہزار روپے ہیں ،آپ یہ رقم لے لیں اور میرا مقدمہ لڑیں۔
قائدِاعظم نے کہا مجھے افسوس ہے کہ میں یہ مقدمہ نہیں لے سکتا۔ممکن ہے کہ یہ مقدمہ طول پکڑلے اور یہ رقم ناکافی ثابت ہو ۔لہٰذا بہتر ہے کہ آپ کوئی اور وکیل کرلیں کیونکہ میرا اصول ہے کہ میں فی پیشی ہی فیس لیتا ہوں ۔
چنانچہ قائدِاعظم نے اپنی شرط پر مقدمہ لڑا اور اپنی فراست سے مقدمہ تین پیشیوں ہی میں جیت لیا اور فیس کے صِرف پندرہ سو روپے وصول کئے ۔تاجر نے اِس کا میابی کی خوشی میں قائد کو پانچ ہزار روپے پیش کرنا چاہے تو قائدِ اعظم نے جواب دیا،”میں نے اپنا حق لے لیا ہے ۔“

Browse More Mutafariq Mazameen