Roza Aik Dhaal - Article No. 938

Roza Aik Dhaal

روزہ ایک ڈھال - تحریر نمبر 938

آج ماہ رمضان کا پانچواں روزہ تھا۔ افطاری اور نماز مغرب سے فراغت کے فوراََ بعد سحری کے انتظامات شروع کردئیے کیونکہ صبح سب جلدی میں ہوتے ہیں۔

جمعرات 16 جون 2016

شاہ بہرام انصاری:
آج ماہ رمضان کا پانچواں روزہ تھا۔ افطاری اور نماز مغرب سے فراغت کے فوراََ بعد نیسحری کے انتظامات شروع کردئیے کیونکہ صبح سب جلدی میں ہوتے ہیں۔ آٹھ سالہ قاسم ایک نوعمر بچہ ہے۔ اس کی تربیت میں اس کے داد کابڑا ہاتھ ہے۔ دادا جان صوم وصلوٰة کے پابند اور محلہ داروں کو بھی پانچ وقت نماز کی ادائیگی کی تلقین کیاکرتے تھے۔
وہ قاسم کو صبح سویرے جگا کر فجر کی نماز کیلئے ساتھ لیکر لے جاتے اور گھر میں خود قرآن پاک پڑھاتے۔ قاسم نے پچھلے سال سے روزے رکھنا شروع کیے تھے۔ چھوٹا ہونے کے باوجود سب نے اسے روزہ رکھنے کی اجازت دے دی تھی۔ آج ماہ رمضان کا پہلا جمعہ تھا۔ سحری کے وقت قاسم کی آنکھ کھلی تو گھر والے خلاف معمول جاگ رہے تھے۔

(جاری ہے)

اسے یاد آیا کہ آج تو جمعتہ المبارک کا روزہ ہے۔

وہ اُسی وقت اٹھ کھڑا ہوا اور بولا۔ میں بھی روزہ رکھوں گا“ دادا جان مسکراتے ہوئے کہنے لگے“ کیوں نہیں۔ ہمارا بیٹاجیسے کہے گا، ویسے ہی ہوگا‘ روزہ رکھ کر وہ ان کے ساتھ مسجد میں نماز پڑھنے چلا گیا اور آکر سوگیا۔ س
جب سکول وقت ہوا تو وہ تیار ہوکر سکول چلا گیا۔ سارادن وہ بیزارسارہا۔ گھر اور سکول کے کام پراس نے خاص توجہ نہ دی۔
تین چار روزہ تو کسی نے اس بات کا نوٹس نہ لیا مگر داداجا نے محسوس کیا کہ وہ پہلے کی نسبت سست ہوگیا ہے اور پڑھائی سے اس کادھیان ہٹ گیا ہے۔ انہوں نے غور کیا تو اس کی عادتیں کافی بگڑرہی تھیں۔ وہ روزہ رکھنے کے بعد سوجاتا اور طرح نماز کا ٹائم ختم ہوجاتا۔ وہ کہتے تو قرآن پڑھ لیتا ورنہ فارغ بیٹھا رہتا۔ سکول میں بھی اس کی تعلیم متاثرہورہی تھی۔

انہوں نے اس کی کاپیاں چیک کیں تو پچھلے ایک ہفتے سے اس کا ہوم ورک مکمل نہیں تھا۔ ٹیچر نے کاپی پر ریمارکس لکھے تھے کہ آپ کابچہ ہوم ورک پورا نہیں کررہا۔ گھر آکر اس کارویہ اور خراب ہوجاتا ۔ موڈہوتا تو گھر کاکوئی کام کاج کردیتا ورنہ سویا رہتا یاکھیل کودکرتا اورٹی وی دیکھتا رہتا۔ دادا جان نے اسے ہوم ورک پرتوجہ سے تھک جاتا ہوں اس لئے زیادہ کام نہیں کرپاتا۔
دودن بعد اس کے سکول سے شکایت آئی کہ وہ اپنے ہم جماعتوں سے بہت جھگڑا کرتا ہے اور پڑھائی پر بھی توجہ نہیں دے رہا۔
ا س دن دادا جان نے قاسم سے بات کرنے کافیصلہ کرلیا۔ شام کو نماز عصر کے بعد وہ اسے لان میں لے گئے اور پوچھینے لگے۔ بیٹا کیا وجہ ہے تم اپنی تعلیم کو غیر سنجیدہ لے رہے ہو اور گھر کے کام بھی پہلے کی طرح پھرتی سے نہیں کرتے؟ وہ حیرت اور معصومیت سے بولا۔
دادا جان! آپ کو پتہ تو ہے میرا روزہ ہوتا ہے۔ دادا جان نرم لہجے میں اس سے گویا ہوئے۔ دیکھو قاسم بیٹا! روزے رکھنے کامطلب یہ نہیں کہ ہم دوسرے کاموں سے بری ہوجائیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ ہمیں دنیاوی کام کم کرکے تھوڑا آرام اور عبادت کرنی چاہئے لیکن اس کے ساتھ باقی امور سے بھی غفلت نہیں برتنی چاہئے۔
ارشادبانی ہے۔ روزہ خاص میرے لئے ہے اور میں ہی اسکی جزادوں گا۔
اللہ تعالیٰ نے رمضان کو اپنا مہینہ قراردیا ہے۔ روزہ دار کو دوخوشیاں نصیب ہوتی ہیں ایک اس وقت جب وہ افطاری کرتا ہے اور دوسری اس وقت حاصل ہوگی، جب وہ اپنے رب کا دیدار کرے گا۔
رسول پاک کاارشاد ہے: کہ روزہ ” ڈھال ہے“ یعنی یہ ہمیں برے کاموں سے بچنے اور صبر کرنے کادرس دیتا ہے۔ اب آپ خود سوچیں کہ روزے کاکتنا ثواب اور اجر ہے۔ بیٹا! روزہ صرف کھانے پینے سے اجتناب کانام نہیں بلکہ یہ ہربرائی سے رکنے کی ترغیت دیتا ہے۔
آپ بھوک پیاس برداشت کرکے ظاہری طور پر تو روزہ نبھاتے ہیں لیکن دوستوں کے ساتھ رویہ اچھا نہیں رکھتے، ان سے لڑائی کرتے ہیں اور روزے کا کہہ کراپنے کئی کام التواء میں ڈالتے ہیں۔ اس طرح روزے کامقصد پورا نہیں ہوتا۔ ان تمام بری عادتوں سے باز رہنے کو ہی روزہ کہتے ہیں۔ دادا جان کی باتیں سننے کے بعد قاسم اٹھ کر باہر جانے لگا تو انہوں نے پوچھا۔ کہاں جارہے ہو؟ قاسم نے جواب دیا۔ سوری دادا اپنے نارض دوستوں کو منانے اور انہیں کل افطاری کی دعوت دینے جارہا ہوں۔ قاسم کی اس بات پردادا جان انجانا سا اطمینان محسوس کرنے لگے۔
ساتھیو!ذراآپ بھی روزہ رکھنے سے قبل سچ لیں کہ کیا آپ روزے کے تقاضے پورے کررہے ہیں۔

Browse More Mutafariq Mazameen