Sher Shah Suri Ek Azeem Badshah - Article No. 875
شیر شاہ سوری ایک عطیم بادشاہ - تحریر نمبر 875
بادشاہت کی گدی پر براجمان ہونے کے بعد ہر بادشاہ یہ بھول جاتا ہے کہ عوام نے اس سے ان گنت توقعات وابستہ کی تھیں۔
منگل 11 اگست 2020
اس کے والدین نے اس کا نام فرید خان رکھا تھا لیکن حالات و واقعات کی پھرکی گھومنے پر وہ تاریخ میں شیر شاہ سوری کے نام سے جانا جانے لگا۔ وہ اپنے باپ کا بڑا بیٹا تھا۔ لیکن اس کے باپ کی دوسری بیوی اور شیر شاہ سوری کی سوتیلی ماں جو شیرہ شاہ سے شدید نفرت اور حسد کرتی تھی۔
فرید خان سے شیرہ شاہ وہ اپنی بہادری، فہم و فراست اور معاملہ فہمی کی بناء پر بنا۔
(جاری ہے)
فرید خان بہت ذہین تھا۔ اس نے تین برسوں میں فارسی پر عبور حاصل کرلیا۔ اس کے علاوہ ادب، تاریخ اور مذہب میں بھی خاصی دسترس حاصل کرلی۔ حقیقت یہ ہے کہ اس زمانے میں پٹھانوں میں لکھنے پڑھنے کا شوق نہیں پایا جاتا تھا، پٹھان جنگ جو تھے اور فوج میں ہی اپنی ذہانت اور شجاعت کے جوہر دکھایا کرتے تھے، اس لیے فرید خان کا اس طرح لکھ پڑھ جانا اس دور میں بڑی بات تھی، ویسے بھی جونپور اس زمانے میں علم و ادب اور فنون کا گہوارہ تھا، اسے برصغیر پاک و ہند کا شیراز بھی کہا جاتا تھا۔
پڑھائی ختم کرنے کے بعد شیر شاہ نے اپنے والد کی دونوں جاگیروں کی باگ دوڑ سنبھالی۔ فرید خان کا یہ دور بعض مورخوں کے نزدیک جو چودہ سو اٹھانوے سے پندرہ سو اٹھارہ تک مشتمل ہے، بہت اہمیت رکھتا ہے اور اس زمانے میں اس نے جو کارنامے سر انجام دیے ان سے ثابت ہوا کہ وہ مستقبل میں زبردست حکمران ثابت ہوگا اور اس میں ملک کا نظم و نسق چلانے کی زبردست صلاحیتیں پنہاں تھی، اس نے پوری جاگیر کو قابل کاشت بنا کر اس کی پیمائش کروائی۔ نظم و نسق درست کیا اور جاگیر کی آمدنی میں خوب اضافہ کیا، پیداوار کا تناسب مقرر کرکے اس کے حساب سے مالیہ مقرر کیا۔ مالیہ وصول کرنے والے کارندوں کو سختی سے سمجھادیا کہ وہ کسی کاشتکار سے سختی سے پیش نہ آئیں، یوں جاگیر میں خوش حالی اور امن و امان کا دور دورہ شروع ہوا اور لوگ شیر خان کو دل و جان سے چاہنے لگے، شیر شاہ کی یہ مقبولیت اور ہر دلعزیزی اس کی سوتیلی ماں کو قطعاً پسند نہ آئی اور اس نے شیر شاہ کے خلاف سازشیں شروع کردیں۔
شیر شاہ اپنی ماں کی سازشوں اور باپ کی بے بسی سے بددل ہو کر اپنے سگے بھائی نظام کے ساتھ آگرہ چلاآیا۔امیر جمال خان فرید خان کا دشمن ہوچکا تھا کیوں کہ اس نے اس کا مشورہ نہیں مانا تھا کہ دونوں بھائی، فرید خان اور اس کے سوتیلی ماں کا بڑا بیٹا سلیمان آپس میں جاگیر تقسیم کرلیں لیکن قانون کی رو سے جاگیریں بڑے بیٹے فرید خان کی ملکیت تھیں۔ فرید خان نے اپنی حیثیت کو مضبوط و مستحکم بنانے کے لیے خوب غور و فکر کے بعد صوبہ بہار کا رخ کیا۔ صوبہ بہار پہنچنے پر شیر شاہ سوری نے جہاں در خان توہانی کی ملازمت اختیار کی جو کہ سلطان محمد کے لقب سے حکومت کررہا تھا اور اسی سلطان محمد کی شیر سے جان بچانے پر اسے شیر شاہ کا لقب دیا اور اس کے منصب میں بھی اضافہ کیا۔
شیر خان نے حالات کو سنبھالا دینے کے لیے بہتر یہی سمجھا کہ وہ واپس اپنی جاگیروں پو چلا جائے۔ اس نے نہ صرف اپنی جاگیریں واپس لیں بلکہ جون پور اور آس پاس کے کچھ علاقوں پر بھی قبضہ جما کر اپنی طاقت کی دھاک بٹھادی اور اس کے بعد اپریل پندرہ سو ستائیس کو بابر کی ملازمت کی اور بہت جلد اپنی بہادری، محنت اور ذہانت کے بل بوتے پر ظہیر الدین بابر کے قریب پہنچ گیا، لیکن بہت جلد ظہیر الدین بابر بھانپ گیا کہ شیر شاہ بہت خطرناک آدمی ہے اور وہ مغلوں کو ہندوستان سے نکالنے کا ارادہ رکھتا ہے، بابر نے شیر شاہ کی کڑی نگرانی کا حکم دیا اور اپنے جاسوس اس کے پیچھے لگادیے۔ شیر شاہ کو معلوم ہوا تو وہ بھاگ کر اپنی جاگیر پر آگیا۔
کچھ عرصہ جاگیر پر رہنے کے بعد شیر شاہ کا دل یہاں سے اکتا گیا اور وہ دوبارہ سلطان محمد کے پاس چلاگیا۔ سلطان اس وقت ملک دشمن اور حاسدوں کی چالوں کو سمجھ چکا تھا اس لیے سلطان نے شیر شاہ کے دوبارہ آنے پر خوب آ بھگت کی اور اسے پھر اس کے عہدے پر بحال کردیا۔ ابھی تھوڑا عرصہ ہوا نہ تھا کہ سلطان محمد حاکم بہار کاانتقال ہوگیا۔
سلطان محمد کے بعد اس کا بیٹا جلال خان جو کہ ابھی چھوٹا تھا کو تخت پر بٹھادیا گیا، دوسری طرف ابراہیم لودھی کے بھائی محمود لودھی نے بنگال میں اپنی حکومت بنا رکھی تھی، محمود لودھی نے بعض اختلافات کے باعث بہار پر فوج کشی کا حکم صادر فرمایا، مگر اسے شیر شاہ نے شکست فاش دی۔ محمود لودھی نے شیر شاہ کو اپنی آن کا مسئلہ بنایا اور جلال خان کے ساتھ مل کر شیر شاہ کے خلاف سازش شروع کردیں۔ شیر شاہ نے ان کی سازشوں کو اپنے پیروں تلے روند کر بہار پر قبضہ کرلیا۔
وقت کا پہیہ گھومتا رہا اور شیر شاہ سوری نے آہستہ آہستہ اپنی مملکت میں اضافہ شروع کردیا، بہت جلد ہی ہندو حکمران اور نام نہاد حکمرانوں کا قلع قمع کرکے ہندوستان میں ایک مضبوط اور مربوط اسلامی حکومت کا نظام قائم کردیا گیا۔
شیر شاہ سوری کا دور حکومت صرف پانچ سال۔ پندرہ سو انتالیس سے پندرہ سو پینتالیس تک رہا اور اس نے اپنے اس مختصر سے دور اقتدار میں ملک کے نظام میں انقلابی تبدیلیاں برپا کیں اور عوامی بہبود کے لیے بڑے بڑے موثر کام سرانجام دیے اور آج بھی سینکڑوں برس گزرنے کے بعد بھی لوگ ان کے ان عوامی بہبود کے کاموں کو یاد کرتے ہیں اور ان کی چھوڑی ہوئی یادگاروں سے آج بھی انسان فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
شیر شاہ سوری نے اپنے مختصر سے دور حکومت میں قیام امن، رعایا کی بھلائی، جرائم کا خاتمہ، سلطنت کا استحکام، تجارت میں ترقی، زراعت میں اضافہ، نظام مالیہ کا اجراء کیا۔ اس کے علاوہ شیر شاہ نے چار عظیم سڑ کیں تعمیر کروائیں جن سے آج تک استفادہ حاصل کیا جارہا ہے، پہلی سڑک سنار گاوٴں جو کہ موجودہ بنگلہ دیش سے شروع ہو کر آگرہ، دھلی اور لاہور سے ہوتی ہوئی دریائے سندھ تک پہنچتی تھی، اسے جرنیلی سڑک کہتے ہیں، اس کی لمبائی ڈیڑھ ہزار کوس تھی، دوسری سڑک آگرہ سے بنارس تک جاتی تھی، تیسری سڑک آگرہ سے جودھ پور تک جاتی تھیں، چوتھی سڑک لاہور اور ملتان کو ملاتی ہے۔
سونے پر سہاگہ یہ کہ شیر شاہ نے ان سڑکوں پر ایک ہزار سات سو سرائیں تعمیر کروائیں۔ان سراوٴں کی خصوصیات یہ تھیں کہ ہر سرائے میں ہندوٴں اور مسلمانوں کے لیے رہائش اور خوراک کا انتظام الگ الگ ہوتا تھا، ہر سرا ئے کے ساتھ مسجد اور کنواں ہوتا تھا، مسجد کے لیے امام کا تقرر ہوتا۔ سامان کی حفاظت کے لیے چوکیدار متعین ہوتے تھے اور دروازے پر پانی کے ٹھنڈے مٹکے رکھے جاتے تھے۔شیر شاہ سوری بے تعصب حکمران تھا، ہندووٴں کو ملازمتیں دے رکھی تھیں، انہیں پوری مذہبی آزادی حاصل تھی، ان کے دیوانی مقدمے ان کی اپنی روایات کے مطابق طے کیے جاتے تھے۔ شیر شاہ سوری کا قول تھا کہ:
انصاف سب سے بڑا مذہبی فریضہ ہے۔
کالنجر کی مہم اس کی زندگی کی آخری مہم ثابت ہوئی، اس نے نومبر پندرہ سو چوالیس میں کالنجر کا محاصرہ کیا، اس نے فوج کو گولہ بارود کا حکم دیا اور خود نگرانی کرنے لگا، ایک بارودی ہوائی بھٹی اور بارود خانہ جل گیا، جس سے شیر شاہ سوری شدید زخمی ہوا لیکن یہ مرد مجاہد اس وقت تک زندہ رہا جب تک اسے قلعہ کالنجر کی فتح کی خبر نہ مل گئی تھی۔ یہ بائیس مئی پندرہ سو پینتالیس کا دن تھا۔ شیر شاہ سوری کا مقبرہ آج بھی سہسرام میں فن تعمیر کا ایک عظیم شاہکار ہے۔
شیر شاہ کے بعد اس کا لڑکا بادشاہ بنا لیکن نہایت ظالم اور سخت گیر ہونے کی وجہ سے اپنی حکومت برقرار نہ رکھ سکا، اس کے بعد اور بادشاہ آئے لیکن کوئی بھی جم کر حکومت نہ کرسکا اور بالآخر صرف دس سال میں سوری حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔
Browse More Mutafariq Mazameen
وطن کی مٹی گواہ رہنا…!!
Watan Ki Matti Gawah Rehna
دیا جلائے رکھنا
Diya Jalaye Rakhna
چائلڈلیبر۔۔۔معاشرتی ناسور
Child Labour
طہارت نصف ایمان ہے (آخری قسظ)
Taharat Nisf Imaan
کہانی ایک مکڑے کی
Kahani Aik MAKRI Ki
چوروں کا اُستاد
Choroon Ka Ustad
Urdu Jokes
سردار جی
Sardar jee
ایک بچہ رو رہا تھا
Aik Bacha Ro Raha Tha
بل میں اضافہ کا سبب
bill mein izafa ka sabab
اٹلی کے ہوائی اڈے
italy ke hawai adday
استاد اپنے شاگردوں سے
Ustaad apne shagirdon se
بہرا
berha
Urdu Paheliyan
پردے میں وہ چھپ کر آیا
parde me wo chup kar aya
کوئی نہ چھین سکے اک شے
koi na cheen sake ik shay
وہ چھوٹے ہیں یا وہ بڑے ہیں
wo choty hen ya wo bary hen
دھرا پڑا ہے سرخ پیالہ
dhara para hai surkh piala
شیشے میں ہے لال پری
sheeshe me hai lal pari
ہے شرط اس میں خاموش ہونا
he sharat is me khamosh hona