Allah Muaffi - Article No. 2451
اللہ معافی - تحریر نمبر 2451
اس بے حیانے کانوں کو ہاتھ لگا کر ”اللہ معافی“کہااور پھر ہنسے ہنستے پیٹ پکڑ کر وہیں بیٹھ گیا!
عطاالحق قاسمی منگل 27 اگست 2019
(جاری ہے)
یہ سن کر اس مرد گستاخ نے ایک نظر ہماری طرف دیکھا اور کہا پہلے یہ بتاؤ تم یہاں کیا کررہے ہو؟ہم نے نا پسند کیا اس سوال کو اور کہا ہم تمہارے اس سوال سے ناخوش ہیں۔
تھوڑی دیر بعد اس سڑک پر ایک نوجوان ہمیں مل گیا کہ شکل وصورت سے نیک لگتا تھا‘اس مجمع میں آنکھیں جھکا کر چلتا تھا سوجس سے ٹکرانا ہوتا اس سے جا ٹکرا تا۔ہم تھے کہ محض قوم کی زبوں حالی دیکھنے کے لئے اس سڑک پر بادل نخواستہ چہل قدمی کر رہے تھے اپنے ایسے شریف انسان کو دیکھ کر خوش ہوئے اسے روک کر گلے سے لگایا‘اس کی بلائیں لیں اور پوچھا۔اے عزیز!تم یہاں کیا کررہے ہو؟اس بر خور دار نے نظریں زمین میں گاڑے ہوئے کہا۔میں روزانہ شام کو اس طرف آنکلتا ہوں اور پھر واپس ہاسٹل پہنچ کر خون کے آنسو روتا ہوں۔ہم نے پوچھا”اے جان حیا تم کون سے ہاسٹل جاتے ہو؟“اس نے اسی طرح نظریں زمین میں گاڑے ہوئے روہا نسا ہو کر جواب دیا۔”جناب اپنے ہی ہاسٹل جاتا ہوں جو لڑکیوں کے ہاسٹل کے قریب ہی ہے جناب!میں اس صورت حال سے بہت پریشان ہوں اور اس کے تمام پہلوؤں کا بغور مطالعہ کرتا رہتا ہوں میں نے ایک دور بین خریدی ہوئی ہے ۔آپ بھی مجھے اہل دل لگتے ہیں کبھی وقت ملے تو میرے ہاسٹل میں تشریف لائیں!“ہم نے اس نوجوان کو تھپکی دی اور دعائیں دے کر رخصت کرتے ہوئے کہا”اے عزیز!ہم تمہاری طرف ضرور آئیں گے‘تم نے اگر اپنی دور بین کسی اور اہل دل کو مستعاری دی ہوتو اس سے واپس لے رکھنا!“
قریب تھا کہ ہم اس صورت حال سے دل برداشتہ ہو کر واپس لوٹتے کہ ناگاہ ہماری نظر ایک پرانے شنا سا پر پڑی کہ چودہ برس پیشتر اورینٹل کالج میں وہ ہمارے ساتھ ایم اے اردو کا طالب علم تھا ہم نے بڑھ کر اسے گلے لگایا زور سے بھینچا اور یہ شعر پڑھا۔
اے دوست کسی ہمدم دیرینہ کا ملنا
بہتر ہے ملاقات مسیحا وخضر سے
اس نے بھی ہماری اس گر مجوشی کا جواب اس گرمجوشی سے دیا اور پیشتر اس کے کہ ہم پوچھتے‘اس نے پوچھا تم یہاں کیا کررہے ہو مگر ہم نے اس سوال کو گول کیا اور کہا میری چھوڑو‘تم بتاؤ تم کیا کررہے ہو؟جس پر اس نوجوان نے کہ بال جس کے سفید ہو چکے تھے کہ ”ایم اے اردو کے بعد میں نے ایم اے فارسی ‘عربی‘اسلامیات‘معاشیات ‘نفسیات اور سوشیالوجی کیا اور ان دنوں پولٹیکل سائنس میں ایم اے کر رہا ہوں۔“ہم نے کہ اردگرد کی صورت حال سے تاحال پریشان تھے اس کے جواب سے صرف نظر کیا اور کہا”تم یہ ڈاریں دیکھ رہے ہو؟“
اس مرد بزرگ نے دیدے ادھر ادھر گھماتے ہوئے پوری ڈھٹائی سے جواب دیا۔یہی دیکھنے کے لئے تو میں بھی روزانہ شام کو یہاں مٹر گشت کرتا ہوں اور پھر اس نے ہمیں سمجھایاکہ یہ سب کچھ بہت خوش آئند ہے‘کیونکہ پوری یونیورسٹی میں یہ وہ واحد”سپاٹ “ہے جہاں لیفٹ رائٹ کی کوئی کشمکش نہیں یہاں سب شانے سے شانہ ملا کر چلتے ہیں۔میں تو اس سڑک کو امن کی علامت سمجھتا ہوں۔ہم اس کے اس لیکچر سے بد مزہ ہو ئے اور کہا وہ تو ٹھیک ہے مگر ان جوانوں کو دیکھو ان کی آنکھیں کس طرح تارے لگی ہوئی ہیں ۔
آخر میں بھی دو سال تک یونیورسٹی میں رہے ہیں اس وقت بھی مخلوط تعلیم تھی بلکہ ہمارے شعبے میں لڑکیوں کی تعداد لڑکوں سے کہیں زیادہ تھی۔تمہیں تو یاد ہو گا۔باہر کے لوگ اور ینٹل کالج کو”کڑیاں دا کالج“کہا کرتے تھے مگر ہم نے کبھی آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا۔“یہ سن کر بجائے اس کے کہ اس پررقت طاری ہوتی ‘اس بے حیانے کانوں کو ہاتھ لگا کر ”اللہ معافی“کہااور پھر ہنسے ہنستے پیٹ پکڑ کر وہیں بیٹھ گیا!تھوڑی دیر بعد وہ اٹھا‘ایک نظر ہم پر ڈالی‘ایک بار پڑھ کانوں کو ہاتھ لگا کر ”اللہ معافی “کہا اور ہنستے ہنستے پیٹ پکڑ کر دوبارہ وہیں بیٹھ گیا۔
Browse More Urdu Adab
Sel-Fish
Sel-Fish
نقل مندی
Naqal Mandi
حلوے پر پابندی
Halwe Par Pabandi
مسکراہٹ بیگم
Muskurahat Begum
شادی کا نصاب
Shadi Ka Nisab
راہزن
Rahzan