Awara Gardi Or Berozgari - Article No. 2637

Awara Gardi Or Berozgari

آوارہ گردی اور بے روزگاری - تحریر نمبر 2637

پاکستان میں بہت سے ایسے نوجوان موجود ہیں جو روزگار ہونے کے باوجود بے روزگار ہوتے ہیں

جمعہ 20 نومبر 2020

سید عارف نوناری
بے روزگاری‘رشوت اور سفارش ایسے موضوعات ہیں جس پر میرے بہت سارے صحافی قلم اٹھا چکے ہیں میں عوام کے سامنے اصل حقائق اور دیگر ان سے پیدا شدہ مسائل کو سامنے لانا چاہتا ہوں۔ ترقی پذیر ممالک میں قدرتی وسائل کی کمی ہوتی ہے جس کے باعث وہ ترقی کی منزل جلدی طے نہیں کر پاتے۔ ترقی پذیر یا پسماندہ ممالک میں بے روزگاری کا ہونا ضروری ہوتا ہے۔
پاکستان بھی ترقی پذیر ممالک کی صف میں کھڑا ہے۔ بے روزگاری نہ صرف پاکستان کا مسئلہ ہے بلکہ پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک اس مسئلہ کے حل کے لئے موثر اقدامات کر رہے ہیں پھر بھی یہ مسئلہ ختم ہونے میں نہیں آتا۔ اصل وجہ یہ ہے کہ جب تک ان ممالک کے قدرتی وسائل میں اضافہ اور ان کا صحیح استعمال نہ ہو بے روزگاری کا خاتمہ ناممکن ہے۔

(جاری ہے)

پاکستان میں بہت سے ایسے نوجوان موجود ہیں جو روزگار ہونے کے باوجود بے روزگار ہوتے ہیں۔

حکومت پاکستان نے بے روزگاری کے خاتمہ کے لئے اقدامات کئے ہیں لیکن اقدامات موثر ثابت نہیں ہوئے۔ دفتر روزگار اس معاملہ کے حل کے لئے قائم کیا گیا وہاں بھی بارسوخ لوگوں نے اپنا اثر دکھانا شروع کر دیا۔
پاکستان میں بے روزگاری کا خاتمہ اعداد و شمار تک ہی محدود ہے۔ سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ پاکستان میں تعلیم کا تناسب65 فیصد ہے جبکہ 35 فیصد لوگ ان پڑھ ہیں اس کے باوجود بے روزگاری کا خاتمہ نہیں ہو سکا۔
یہ بھی حقیقت عیاں ہے کہ بھارت میں پاکستان کی نسبت بے روزگاری کا تناسب زیادہ ہے اس کے ذرائع بھی پاکستان کے نسبت کافی ہیں پھر بھی وہاں بے روزگاری عام ہے۔ کہتے ہیں کہ طالب علم قوم کا سرمایہ ہیں جب وہ تعلیم مکمل کر لیتے ہیں تو وہ سرمایہ بے روزگاری کی صف میں کھڑا ہو جاتا ہے۔ بے روزگاری کا واحد حل یہ ہے کہ تعلیم سے فارغ شدہ نوجوانوں کو حکومت خود بلائے یا ان کے نام اپنے پاس رکھے اور ان کو ان کی اہلیت کے مطابق روزگار فراہم کرے۔
سفارش‘ رشوت ملک کی بنیادوں کو گھن کی طرح کھائے جا رہی ہے۔ بے روزگاری میں اضافہ کے یہ دو اہم عناصر ہیں۔ جن لوگوں کے پاس سفارش یا رشوت ہوتی ہے وہ تو سروس کے مستحق ہو جاتے ہیں جن غریب لوگوں کے پاس سفارش یا رشوت دینے کے لئے سرمایہ نہیں وہ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود بھی ان پڑھ ہیں۔
پاکستان جس کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان اور جس کی بنیاد اسلامی اصولوں پر رکھی گئی وہاں بے انصافی جیسے عنصر کی موجودگی باعث شرم ہے ۔
یہ امر بھی مسلمہ ہے کہ حکومت ان حقائق سے باخبر ہے اس کے باوجود اس کی طرف کوئی توجہ نہیں ہے۔ اسلامی قوانین کے مطابق ہر انسان کے ذاتی مفادات و نقصانات کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے کہ وہ بے روزگاروں کو روزگار دلائے ورنہ قیامت کے دن ان کے متعلق جوابدہ ہو گی۔ غریب عوام تعلیم مکمل کرنے کے بعد چار چار سال ایسے ہی گزار دیتے ہیں جب تک سفارش یا رشوت نہ ہو روزگار یا ملازمت کا تصور بے سود اور بے فائدہ ہے جو لوگ یہ چیزیں نہ رکھتے ہوں زندگی ان کے لئے اجیرن بن جاتی ہے لہٰذا وقت کا تقاضا ہے کہ نظام میں تبدیلی پاکستان کی خوشحالی کے لئے ضروری ہے۔
تعلیم کا تناسب 65 فیصد سے زائد ہو گیا تو بے روزگاری میں مزید اضافہ ہو جائے گا اگر بیکار وسائل کو قابل استعمال کیا جائے تو وسائل میں اضافہ سے بے روزگاری کے تناسب میں کچھ کمی آسکتی ہے بے روزگار نوجوان کو سماج میں وہ مقام بھی حاصل نہیں جو ہونا چاہئے۔
اس کو معاشرہ عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھتا۔ سوچنے کی بات ہے کہ حکومت اصل حقائق سے باخبر ہے لیکن پھر بھی خاموش ہے اس کی خاموشی کو راز سمجھئے یا حکومت کی نا اہلی تصور کیجئے بے روزگار نوجوان کے گھریلو مسائل اسے مزدوری کرنے پر مجبور کر رہے ہیں۔
ملازمت نہ ملنے کے تصور کو سامنے رکھتے ہوئے کچھ لوگ بچوں کو تعلیم کی طرف راغب نہیں کر رہے جبکہ تعلیم ہی کسی ملک کی ترقی کا راز تصور کی جاتی ہے۔ اگر حکومت نے اس مسئلہ کا فوری سدباب نہ کیا تو صورت حال اور ملک کی معیشت دونوں کے لئے نقصان دہ ثابت ہو گا۔ نوکریاں داموں پر بک رہی ہیں اس طرح رشوت اور سفارش معاشرہ میں رچ چکی ہیں جن کا قلع قمع کرنا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے۔
پاکستان میں کوئی بھی کام ایسا نہیں ہے جو ان کے بغیر ہو سکے‘بڑے سے لے کر چھوٹے آفیسر تک رشوت لی جاتی ہے۔ بعض فرض شناس آفیسر بھی ہیں لیکن معاشرہ ان کو بھی ایسا کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ رشوت اگر بڑے پیمانے پر نہ لی جائے تو چھوٹے لوگ بھی اس برائی کی طرف مائل نہ ہوں۔ غریب عوام کے مسائل اسی لئے بڑھ گئے ہیں کیونکہ ان کے پا س روپیہ نہیں۔

Browse More Urdu Adab