Badlain Ge Chehre Phir - Article No. 2615

Badlain Ge Chehre Phir

بدلیں گے چہرے پھر - تحریر نمبر 2615

مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے اختلافات سے الیکشن کا انعقاد اور آرمی کا کردار کسی حد تک عوامی امنگوں کا عکاس ثابت ہوا ہے

جمعہ 23 اکتوبر 2020

سید عارف نوناری
مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے اختلافات سے الیکشن کا انعقاد اور آرمی کا کردار کسی حد تک عوامی امنگوں کا عکاس ثابت ہوا ہے۔لیکن یہ کیسے ہوا؟کیوں ہوا؟ایسا ہونا ضروری تھا آئندہ سیاسی پارٹیاں کیا حکمت عملی تیار کرتی ہیں یہ فیصلہ وقت کرے گا لیکن اتنا ضرور ہے کہ نئے الیکشن کے انعقاد سے نہ عوامی فوائد حاصل ہوں گے اور نہ سیاستدانوں کو کوئی خاص فائدہ ہو گا۔
مسئلہ یہ ہے کہ حکومت کسی کی بھی ہو اور جتنے مرضی منصوبے بنوا کر ملک میں استحکام پیدا کرے تھرڈ طبقہ پر اگر حکومت کے اثرات یا مسائل میں کمی و بیشی نہ ہوتو الیکشن کا انعقاد بے فائدہ محسوس ہوتا ہے۔حکومت جس کی بھی بنے تیسرے طبقے کو نہ تو اس سے فوائد ملتے ہیں اور نہ نقصانات۔اعلیٰ سطح پر یقینا تبدیلیاں ضرور منظر عام پر آتی ہیں جزوی طور پر یہی چہرے رہتے ہیں جن کو عوام پہلے بھی آزما چکی ہے۔

(جاری ہے)


سیاسی حالات کے پیش نظر یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی سیاست کا نظام عرصہ دراز سے جاگیردارانہ اور آمرانہ طرز پر چل رہا ہے جس میں تبدیلیاں لانے کے لئے صدیوں کا انتظار کرنا پڑے گا۔فوج کو اپنا کردار ادا کرنا تھا جو اس نے بڑے احسن طریقے سے سر انجام دیا۔اب آئندہ کے حالات سے تجزیہ اور اندازہ لگایا جائے گا کہ اعلیٰ سطح پر تبدیلیاں کس کے حق میں ہوتی ہیں۔
اصل مقابلہ نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کے درمیان ہو گا اور رائے عامہ سے معلوم ہو رہا ہے کہ پیپلز پارٹی کے نظریاتی ووٹوں کو تقسیم کرنا اتنا آسان کام نہیں رہا۔مسئلہ منصفانہ‘ غیرجانبدارانہ انتخاب کے انعقاد کا ہے تومنصفانہ‘غیر جانبدارانہ انتخابات کا انعقاد پاکستان کی روایت میں نہیں اور نہ ایسا ممکن ہے کیونکہ نگران حکومت کی وفاداری ضرور کسی کے ساتھ منسلک ہوتی ہے۔
اگر چہ بار بار اس امر کا اعادہ کیا جا رہا ہے کہ انتخابات منصفانہ ہوتے ہیں بہر حال تیل دیکھو اور تیل کی دھار دیکھو۔
الیکشن میں جو پارٹیاں اپنا منشور پیش کرتی ہیں ان کے نکات کا تعلق اسلام کے ساتھ نہیں ہوتا بلکہ چند ایک پارٹیوں کا کامیابی کی صورت میں منشور ہوتا ہے۔باقی پارٹیاں منشور واضح کئے بغیر الیکشن میں حصہ لیتی ہیں۔آئی۔جے۔آئی کا منشور بھی واضح نہیں جبکہ پیپلز پارٹی کا منشور وہی ہے۔
الیکشن کی آمد آمد ہے لیکن حق رائے دہی استعمال کرتے وقت عوام کو شعور سے کام لینا چاہیے۔پارٹی اور امیدوار کے کردار کو مد نظر رکھنا بہت ضروری ہے برادری کی بنیاد پر حق رائے استعمال کرنے سے الیکشن کا مقصد فوت ہو جاتا ہے۔پاکستان میں الیکشن کا نظام اور سلیکشن کا نظام موزوں تبدیلیوں کا تقاضا کرتا ہے اور عوام کو اس سلسلہ میں اپنا حق استعمال کرتے وقت ان نقاط کو مد نظر رکھنا بہت ضروری ہے۔

حق رائے دہی کا استعمال آزادانہ ہو۔
اسلامی قوانین،اسلامی مساوات‘اسلامی اختیارات‘اسلامی معاشرت والی پارٹی جو اسلامی نظریات پر عمل کرائے اس کو ووٹ دیں تاکہ قیام پاکستان کے مقاصد پورے ہو سکیں۔
امیدوار اعلیٰ تعلیم یافتہ‘باکردار اور عوامی مسائل کو حل کرنے میں مخلص ہو۔
الیکشن میں باشعور اور واضح نصب العین رکھنے والی پارٹی کو ووٹ دیا جائے اور سابقہ پارٹیوں کے کردار کو مد نظر رکھا جائے۔

الیکشن منصفانہ‘غیر جانبدارانہ کروانے میں عوامی رائے مثبت ہو اور ووٹران دھاندلی کروانے والے افراد کا محاسبہ کریں اور غیر منصفانہ انتخابات میں حائل رکاوٹیں دور کریں۔
حکومت غیر جانبداری سے کام لے اور سیاسی وفاداروں کو کسی جماعت یا تنظیم سے منسلک نہ کرے۔
امیدواروں کے ماضی اور حال کا تجزیہ کرکے ووٹ دیا جائے اور دولت کو معیار مقرر کرنے کی بجائے سیرت کو ووٹ دینے کا معیار بنایا جائے۔

الیکشن کا انعقاد اس لئے بے مقصد قرار دیا جاتا ہے کہ نہ عوام کا رویہ تبدیل کیا جا سکتا ہے اور نہ امیدواروں میں تبدیلی ہوتی ہے۔سابقہ روایات کو تبدیل کرنا پاکستان میں بہت مشکل ہے کیونکہ سوچ کی تبدیلی سے الیکشن اور سلیکشن میں تبدیلی ممکن ہے۔الیکشن کے مقاصد کا تعین کرنا تو ووٹران اور امیدواروں پر ہے۔یہی امیدوار جب منتخب نمائندے بن کر سامنے آتے ہیں تو پھر الیکشن کے مقاصد کا عوام کو احساس ہوتا ہے۔
الیکشن سے قبل تو صرف پارٹی کی بنیاد پر ووٹ کاسٹ کیا جاتا ہے۔ووٹر کا معیار اور امیدوار کا معیار تعین کرنا بہت ضروری ہے۔ پاکستان میں اگر اسلامی طرز الیکشن پر تبدیلیاں رونما ہوں تو اس کے اثرات مثبت پڑتے ہیں اور معیار زندگی کے علاوہ دیگر مسائل کا حل تلاش ہو جاتا ہے۔وہ کیا وجوہات ہیں جس کی وجہ سے پاکستان میں انتخابات میں ترامیم و اصطلاحات نہیں ہوئیں؟کیا عوام اس نظام میں تبدیلی نہیں چاہتے یا سیاست دان ان کو عرصہ دراز سے اس ڈگر پر چلانے پر مجبور کر رہے ہیں۔

عوامی حکومت اور جمہوری حکومت کی بنیاد پڑنے کے باوجود اس کی تکمیل کیوں نہیں ہوتی؟اسلامی تصور انتخاب کیوں نہیں اپنایا جاتا‘کیوں غریب طبقہ انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتا۔کیا اس کو سیاست میں آنے کی آزادی نہیں ہے؟کیا اس پر دباؤ ہے؟کیا وہ اس قابل نہیں۔ خلفائے راشدین کے طریقہ انتخاب کو اس لئے نظر انداز کیا جاتا ہے کہ پاکستان کے سیاستدان اور حکومتی ڈھانچہ بنانے والے خبردار ہیں کہ اگر طریقہ انتخاب میں ترمیمات اور اصلاحات کو نافذ کر دیا گیا تو پھر یقینا عوامی اور اسلامی نمائندے سامنے آتے ہیں اور جاگیرداروں کی حکومت کا خاتمہ اصل میں ان کی موت ہے لہٰذا سب سے اہم قدم یہ ہے کہ الیکشن کے انعقاد سے قبل امیدوار کا معیار اور کچھ شرائط و حقوق کا باضابطہ تعین کیا جائے اور صرف ایک طبقہ کی عرصہ دراز سے حکومت کے خاتمہ کے لئے طرز انتخاب میں ردو بدل کیا جائے۔
کیا ایسا ممکن ہے کہ عوام ایسی تبدیلیوں کے خواہش مند ہیں کہ انہیں خلفائے راشدین جیسا انصاف مل سکے۔
پاکستان کی تقریباً 80فیصد آبادی مزدور اور تیسرا طبقہ سے تعلق رکھتی ہے یہ طبقہ ایسے نظام حکومت کا متمنی ہے۔لیکن کون ہے جو ایسا کرے؟۔ عوام کو اس مسیحا کا عرصہ سے انتظار ہے۔ دیکھیں پاکستان کا سیاسی نظام کتنے عرصہ اور اسی ڈگر پر کام کرتا ہے۔
اب پاکستان کی سالمیت‘ملکی استحکام و اتحاد کا تقاضا ہے کہ باشعور‘محبت وطن‘باکردار‘یاسیرت‘مخلص نمائندے منتخب ہو کر سامنے آئیں تاکہ وقت کے تقاضوں کو پورا کیا جا سکے۔پاکستان میں یہ خیال عام ہے کہ الیکشن جیتنے کے لئے جتنے روپے خرچ کئے جاتے ہیں اس سے زیادہ کمانے کے لئے الیکشن میں حصہ لیتے ہیں اور منتخب ہو کر اسمبلیوں میں براجمان ہوتے ہیں۔سب پارٹیوں کے مقاصد میں تجارتی سیاست کرنا ہوتا ہے ورنہ حکومت اصولوں اور حب الوطنی اسلامی قوانین کے مطابق کرنا بہت مشکل امر ہے۔اگر سیاست میں حصہ لینے کے مقاصد کو بھی تبدیل کیا جائے تو الیکشن کے انعقاد کے مثبت نتائج سامنے آسکتے ہیں۔

Browse More Urdu Adab