Biryani Or Aids - Article No. 2541

Biryani Or Aids

بریانی اور ایڈز - تحریر نمبر 2541

واش روم کا رخ کیا تو یہ دیکھ کراوسان خطا ہوگئے کہ پیشاب کا رنگ سرخی مائل نارنجی ہوچکا تھا

جمعہ 28 فروری 2020

کرنل ضیاء شہزاد
پنوں عاقل میں رہتے ہوئے سندھی کھانوں کا بے حد چرچا ہوتا تھا۔ ایک دن تمام افسروں کے پرزور اصرار پر سی او نے باورچی کو سندھی کھانے پکانے کی تربیت حاصل کرنے کیلئے سکھر میں واقع ایک بڑے ہوٹل میں بھجوانے کی ہدایات جاری کرہی دیں۔ ایک مہینے کی تربیت مکمل کرنے کے بعد باورچی یونٹ میں واپس پہنچا تو میس حوالدار کے بقول وہ سندھی کھانے بنانے میں طاق ہوچکا تھا۔
اس دعوے کی آزمائش کیلئے ایک ضیافت کا اہتمام کیا گیا جس میں دیگر کھانوں کے ساتھ ساتھ سندھی بریانی کو بطور خاص شامل کیا گیا تھا۔ کھانا مزیدار بنا تھااور سندھی بریانی نے بالخصوص سبھی کے دل جیت لیے۔ کھاناختم ہوا اور سب لوگ تعریفیں کرتے ہوئے گھروں کو جا کر سوگئے۔ اگلی صبح ہم نے حسب معمول واش روم کا رخ کیا تو دیکھ کر اوسان خطا ہوگئے کہ پیشاب کا رنگ سرخی مائل نارنجی ہوچکا تھا۔

(جاری ہے)


ذہن پر زور دینے سے یاد آیا کہ پرانے وقتوں میں جب گھروں میں سرکاری پانی فراہم کیا جاتا تھا تو صفائی کے لیے کبھی کبھار اس میں لال دوا ڈالی جاتی تھی جس سے پانی کا رنگ ہلکا گلابی ہوجاتا تھا۔ ہم قدرے پریشان ہوئے کہ ہونہ ہو ہم نے لال دوا جیسی کوئی چیز نگل لی ہے جس سے ہمارا یہ حال ہوچکا ہے۔ ذہن پر بہتیرازور ڈالنے کے باوجود ہمیں ایسی کوئی بداحتیاطی یاد نہیں آئی جو ماضی قریب میں ہم سے سرزد ہوئی ہو۔
ہم اسی شش وپنج میں مبتلا تھے کہ ہونہ ہو انجانے میں کسی مہلک بیماری کا شکار ہوچکے ہیں۔ تیزی سے وردی پہن کر دفتر کارخ کیا۔ دفتر پہنچ کر ابھی سوچ ہی رہے تھے کہ سی او کے پاس جا کر صورتحال ان کے گوش گزار کریں کہ سی او کابیٹ مین حیران پریشان ہمارے دفتر میں داخل ہوا اور فریاد کرنے لگا:” سر،خدا کے واسطے مجھے بچالیں، مجھے ایڈز ہوگئی ہے۔“ تفصیل پوچھنے پر اس نے انکشاف کیا:” سر مجھے آج صبح سے پیشاب میں خون آرہا ہے۔
میں نے ایک دوست سے ذکر کیا تو اس نے بتایا کہ یہ تو سیدھی سیدھی ایڈز کی علامت ہے اور اب تم کچھ ہی دیرے کے مہمان ہو۔“
اسے تسلی کیا دیتے ہم تو خود اسی عارضے کا شکار تھے۔ ابھی اپنی وصیت قلم بند کرنے کا سوچ ہی رہے تھے کہ سی او نے اپنے دفتر میں طلب کرلیا۔ہم نے سی او کے بیٹ مین کو ساتھ لیا اور ان کے دفتر میں پہنچ گئے ۔سی او کے کچھ کہنے سے پہلے ہم نے ڈرتے ڈرتے تمام ماجرا ان کے گوش گزار کردیا۔
وہ بولے کہ میں تو خود صبح سے اسی بیماری میں مبتلا ہوں ، جلدی سے سب افسروں کو میرے دفتر میں اکٹھا کرو۔ بات کھلی تو پتہ چلا کہ ہم تنہا اس مرض کا شکار نہیں ہوئے بلکہ شہر کاشہر بیمار ہوا پھرتا ہے۔
یہ جدائی کی گھڑی ہے کہ جھڑی ساون کی
میں جدا گریہ کناں،ابر جدا،یار جدا
ٹوآئی سی نے میس حوالدار اور باورچی کو حاضر کر کے تفتیش کی تو معلوم ہوا کہ انہوں نے چاولوں کو جاذب نظر بنانے کے لیے جو رنگ استعمال کیا تھا وہ کچا تھاجس کے باعث ہم سب کو یہ دن دیکھنا پڑا۔
سی او کے بیٹ مین نے بھی بچے کھچے چاولوں پر ہاتھ صاف کیا تھا اس لیے وہ بھی اس بلائے ناگہانی کی زد میں آگیا۔
دو تین دن کے بعد پیشاب کا رنگ تو دوبارہ سفید ہوگیا لیکن ہم نے پھر کبھی سندھی بریانی کھانے کا خطرہ مول نہیں لیا
ابھی اُران کے سو امتحان باقی ہیں
ان آندھیوں میں بال و پر سنبھال کے رکھ

Browse More Urdu Adab