Chacha Chakkan Ne Dhoban Ko Kapray Diye - Article No. 2646

Chacha Chakkan Ne Dhoban Ko Kapray Diye

چچا چھکن نے دھوبن کو کپڑے دیئے - تحریر نمبر 2646

چچی ایک دو بار نہیں بیسیوں مرتبہ چچا چھکن سے کہہ چکی ہیں کہ باہر تمہارا جو جی چاہے کیا کرو مگر خدا کے لئے گھر کے کسی کام میں دخل نہ دیا کرو

جمعرات 24 فروری 2022

سید امتیاز علی تاج
چچی ایک دو بار نہیں بیسیوں مرتبہ چچا چھکن سے کہہ چکی ہیں کہ باہر تمہارا جو جی چاہے کیا کرو مگر خدا کے لئے گھر کے کسی کام میں دخل نہ دیا کرو۔آپ بھی ہلکان ہوتے ہو،دوسروں کو بھی ہلکان کرتے ہو،سارے گھر میں ایک ہربڑی سی پڑ جاتی ہے،میرا دم اُلجھنے لگتا ہے۔
اور پھر تمہارے کام میں مَیں نے نقصان کے سوا کبھی فائدہ ہوتے بھی تو نہیں دیکھا۔تو ایسا ہاتھ بٹانا بھلا میرے کس کام کا؟
چچا اس قدر ناشناسی سے کھج جاتے ہیں۔چڑ کر کہتے بھی ہیں۔”بھلا صاحب کان ہوئے،پھر کبھی آپ کے کام میں دخل دیا تو جو چور کی سزا وہ ہماری سزا۔“لیکن دخل در معقولات کا انہیں کچھ ایسا لاعلاج مرض ہے کہ جہاں کوئی موقع ملا پھر لنگوٹ کس تیار۔

(جاری ہے)


آج ہی دوپہر کی سُنیے۔چچی کا جی اچھا نہ تھا،گلا آ گیا تھا،اس کی وجہ سے ہلکی ہلکی حرارت بھی تھی،منہ سر لپیٹے دالان میں پڑی تھیں کہ دھوبن کپڑے لینے آ گئی۔چچی نے کہا”بریٹھن آج تو میرا جی اچھا نہیں،کل یا پرسوں آ جائیو تو میلے کپڑے دے دوں گی۔“
دھوبن بولی۔”بیوی جی!بریٹھا آج رات بھٹی چڑھا رہا تھا،کپڑے مل جاتے تو آٹھویں دن میں دے جاتی نہیں تو وہی دس پندرہ دن لگ جائیں گے۔

چچی نے کہا۔”اب جو ہو سو ہو،مجھ میں اُٹھ کر کپڑے دینے کی ہمت نہیں۔“
چچا چھکن پرلے دالان میں بیٹھے میاں مٹھو کو سبق پڑھا رہے تھے،کہیں چچی کی بات سن پائی،اُنہیں ایسے موقع اللہ دے۔جھٹ ادھر آ پہنچے بولے”کیا بات ہے؟کپڑے دینے ہیں دھوبن کو؟ہم دیئے دیتے ہیں۔“
چچی بولیں۔”اے خدا کے لئے تم رہنے دینا۔ہلکم ڈالو گے سارے گھر میں۔پہلے ہی میرا جی اچھا نہیں ہے۔
کل پرسوں اللہ چاہے تو میں آپ اُٹھ کر دے دوں گی۔“
چچا کب رُکنے والے ہیں بھلا۔اللہ جانے کام ہی کا جنون ہے۔یا گھر کے کاموں سے طبیعت کو خاص مناسبت ہے۔یا روک دیئے جانے میں اُنہیں اپنے سلیقے اور سُگھڑاپے کی توہین نظر آتی ہے بولے۔”واہ بھلا کوئی بات ہے،یہ ایسا کام ہی کیا ہے،ابھی نمٹائے دیتے ہیں۔“
چچی جانتی ہیں وقت پر چچا کب کسی کو سُنتے ہیں،وہ تو بڑبڑاتی ہوئی کروٹ لے پڑ رہیں اور چچا چلے دھوبن کو کپڑے دینے۔
چچی ٹوک چکی تھیں،اس لئے آپ نے نہ تو کسی ملازم کو آواز دی،نہ کسی بچے کو بلایا،نہ کسی سے یہ پوچھا کہ کس کے کپڑے کہاں پڑے ہیں،خود ہی گھر کے جالے لینے شروع کر دیئے۔جو کپڑا نظر آیا،خود ہی آنکھوں کے سامنے تان کر پرکھا،یا نیچے پھیلا کر دیکھ لیا”کم بخت پتہ بھی تو نہیں چلتا کہ پہننے کا کپڑا ہے یا جھاڑن بن چکا ہے۔چماروں کے بچے بھی تو اس سے اچھی طرح کپڑا پہنتے ہوں گے۔
“کسی کپڑے کو چھوڑا،کسی کو بغل میں دبایا،کہیں جھک کر چارپائی کے نیچے جھانکا،کہیں ایڑیاں اُٹھا کر الماری کے اوپر نظر ڈالی،معلوم ہوتا تھا آج چچا نے قسم کھا لی ہے کہ جو کام ہو گا آپ ہی کریں گے۔لیکن آخر کب تک؟چچا چھکن کے لئے تو اللہ میاں بہانے پیدا کر دیتے ہیں۔کپڑوں کی تلاش میں اسباب کی کوٹھڑی میں گئے تھے،پانچ منٹ بعد اندر سے آوازیں آنی شروع ہو گئیں۔

”ارے آنا آنا،او بُندو!او امامی!اماں دود!ارے بھئی للّو!کدھر گئے سب!دوڑ کر آنا۔ہاتھ پھنس گیا اماں ہاتھ پھنس گیا،ارے بھئی صندوق کے پیچھے ہاتھ پھنس گیا،اماں ہمارا ہاتھ اور کس کا ہوتا،یہاں کوٹھری میں،نہیں نکلتا۔یہ کیا کرتے ہو؟عقل ماری گئی ہے،ہاتھ کیسے کھنچے گا۔ ارے بھئی صندوق سرکاؤ،لاحول والا،اماں زور لگاؤ،ایک صندوق نہیں سرکتا سب سے؟مل کر ہاں یوں․․․․توبہ توبہ دیکھتے ہو،ہاتھ ہاتھ کو؟ سارا چھل کر رہ گیا ہے۔
دیکھیے ان بدتمیزوں کے طریقے،میلے کپڑے رکھنے کو جگہیں کیا کیا انوکھی نکالی ہیں۔صندوقوں کے پیچھے ٹھونسا کرتے ہیں میلے کپڑے؟احمق کہیں کے۔تم ہی کہو یہ جگہیں ہیں کپڑے رکھنے کی؟نامعقولوں کو اتنا خیال نہیں آتا کہ آخر یہ کھونٹیاں کس مرض کی دوا ہیں۔“
لیجیے صاحب حسب معمول سارا گھر چچا میاں کے گرد جمع ہو گیا اور آپ نے سنانے شروع کر دیئے اپنے احکام۔

”اب کھڑے میرا منہ کیا تک رہے ہو؟جمع کرو میلے کپڑے۔پر دیکھو رہ نہ جائے کوئی،ایک ایک کونا دیکھ لیجیو۔دالان میں ڈھیر لگا دو سب کا۔بُندو تو ہمارے کمرے میں سے میلے کپڑے سمیٹ لا۔دو تین جوڑے تو چارپائی کے نیچے حفاظت سے لپٹے رکھے ہیں،وہ لیتا آئیو۔اور سننا،وہ چھٹن یا بنو کا ایک کُرتا بانس پر لپٹا ہوا کونے میں رکھا ہے۔پرسوں کمرے کے جالے اُتارے تھے ہم نے۔
وہ بھی کھولتا لائیو۔اور دیکھ․․․․ہوا کے گھوڑے پر سوار ہے کم بخت۔پوری بات ایک مرتبہ نہیں سن لیتا۔ایک بنیان ہمارا آتش دان میں رکھا ہے۔بوٹ پونچھے تھے اس سے۔وہ بھی لیتا آنا۔جا بھاگ کر جا۔امامی تو بچوں کے کپڑے جمع کر۔ہر کونے اور طاق کو دیکھ لیجیو۔یہ بدمعاش کپڑے رکھنے کو نئی سے نئی جگہ نکالتے ہیں۔“
نوکر روانہ ہوئے نو بچوں کی باری آ گئی۔
”کہاں گئے یہ سب کے سب؟
او چھٹن!ارے او چھٹن!لیجئے ملاحظہ فرمائیے آپ کی صورت!ارے یہ کیا حال بنایا ہے؟کوئلوں میں کہاں جا گھسا تھا؟اُتار اپنے کپڑے۔ نئے کپڑے پھر ملیں گے۔پہلے میلے کپڑے یہاں لا کر رکھ۔اور یہ بنو کدھر گئی؟میں کہتا ہوں آخر یہ مرض کیا ہو گیا ہے تم لوگوں کو۔جہاں کام کی صورت دیکھی کھسک جانے کی ٹھہرا لی۔چلو اندر ایک کاغذ اور پنسل لا کر دو ہمیں۔
آخر لکھے بھی جائیں گے کپڑے یا نہیں؟للو،تم بستروں میں سے میلی چادریں اور تکیوں کے غلاف نکال لاؤ۔“
غرض ایک پانچ منٹ میں گھر کی یہ حالت ہو گئی۔گویا آنکھ مچولی کھیلی جا رہی ہے۔کوئی ادھر بھاگ رہا ہے۔کوئی اُدھر۔کوئی چارپائی کے نیچے سے نکل رہا ہے۔کوئی کونے جھانکتا پھر رہا ہے۔کسی نے لپٹے ہوئے بستر سے کشتی شروع کر رکھی ہے۔کوئی کپڑے اُتار تولیا لپیٹے بھاگا جا رہا ہے۔
ساتھ ساتھ چچا کے نعرے بھی سننے میں آ رہے ہیں۔”ارے آئے؟ابے لائے؟“سب کے ہاتھ پاؤں پھول رہے ہیں۔سٹی گم ہے ۔ٹکریں لگ رہی ہیں۔“
کوئی آدھ گھنٹے کی محنت سے سارے کپڑے دالان میں جمع ہوئے۔نوکر اور بچے کپڑوں کے ڈھیر کے گرد دائرہ باندھے کھڑے ہیں۔ صورتیں سب کی ایسی ہیں۔گویا سوانگ بھر رکھا ہے۔کسی کے منہ پر مٹی پڑی ہے۔کسی کے بال مٹیالے ہو رہے ہیں۔
کسی کے کپڑوں پر جالے لگے ہوئے ہیں۔چچا چارپائی پر بیٹھے ایک ایک کپڑے کا معائنہ فرما رہے ہیں۔ہر کپڑے کو اُنگلی کے سروں سے اُٹھا کر دیکھتے ہیں۔کبھی بچوں کو کوستے ہیں کہ کم بختوں کو کپڑا پہننے کا سلیقہ بھی نہیں آتا۔کبھی دھوبن کو ڈانٹتے ہیں۔کہ خبردار جو ایک داغ بھی باقی رہا۔کہیں بیچ میں وہ بنیان بھی ہاتھ میں آ گیا۔جس سے آپ نے بوٹ پونچھے تھے۔
خیال نہ رہا کہ یہ اپنی ہی کارروائی ہے۔برس پڑے۔”اب دیکھو تو اس کی حالت،یہ انسانوں کا برتاؤ ہوا معلوم ہوتا ہے؟اللہ جانے بد تہذیب کہاں کہاں․․․․“
داغ اچھی طرح دیکھنے سے چچا کو یاد آ گیا کہ یہ بنیان اُن کے اپنے کمرے کے آتشدان میں سے برآمد ہوا ہو گا۔چنانچہ فوراً کپڑوں میں ملا دیا۔اور ارشاد ہوا۔”چلو اب جو ہے سو ہے۔لو اب کپڑوں کو الگ الگ کرو کہ کون سا کپڑا کس کا ہے؟“
دس ہاتھ کپڑے الگ الگ کرنے میں مصروف ہو گئے۔
ہر ایک کو اپنی کارگزاری دکھانے کا خیال۔دھوبن چیخ رہی ہے۔اے میاں جانے دو۔اے بھائی رہنے دو۔میں ابھی آپ الگ الگ کر دوں گی۔مگر بچے کہاں سنتے ہیں۔کوئی کہتا ہے یہ میری قمیض ہے۔کوئی کہتا ہے تمہاری کہاں سے آئی یہ تو میری ہے۔کسی کا کوٹ پر جھگڑا ہے کسی کا واسکٹ پر۔کوئی کُرتے کی ایک آستین کھینچ رہا ہے،کوئی دوسری۔کسی کی پاجامے کے پائنچوں پر رسہ کشی ہو رہی ہے۔
کپڑے چرر چرر پھٹ رہے ہیں۔چچا سب کے ناموں کی فہرست بنانے میں مشغول ہیں۔بیچ میں سر اُٹھا اُٹھا کر ڈانٹتے بھی جا رہے ہیں۔”پھاڑ دیا نا؟اب کے بنانے کو کہیو کوئی نیا کپڑا۔جو ٹاٹ کے کپڑے نہ بنا کر دیئے ہوں۔چلے جاؤ سب یہاں سے۔ہم اکیلے سب کام کر لیں گے۔“
بچوں اور نوکروں کا قافلہ رخصت ہوا۔اور دھوبن کے ساتھ مل کر فہرست بننی شروع ہوئی۔اسے ہدایات دی گئیں کہ”دیکھ ہم پوری فہرست بنائیں گے کپڑوں کی۔
سب کے کپڑے جدا جدا لکھوانے ہوں گے۔اور ساتھ ہی بتانا ہو گا کہ اتنے کپڑے گرم ہیں۔اتنے ریشمی،اتنے سوتی۔“
دھوبن بولی۔”یوں ہی تو ہمیشہ لکھے جاتے ہیں۔“
چچا کو اپنی اس قابل قدر اور مہتم بالشان تجویز کی داد نہ ملی۔تو آپ دھوبن سے چڑ گئے۔”پگلی کہیں کی۔ہر روز تو گھر میں ہلڑ مچا رہتا ہے کہ اس کی قمیض بدل گئی۔اس کا پاجامہ نہیں ملتا اور کہتی ہے کہ یوں ہی لکھے جاتے ہیں کپڑے۔
یوں کسی کو لکھنا آتا۔تو یہ روز روز کی جھک جھک کیوں ہوا کرتی؟“
دھوبن چپکی ہو رہی۔کپڑے گننے شروع کرتے ہیں۔پر اب پہلے ہی کپڑے پر نئی بحث چھڑ گئی۔دھوبن کہے کہ قمیض چھٹن میاں کی ہے یہ۔چچا مُصِر ہیں کہ نہیں بنو کی ہے۔دھوبن کہتی ہے۔”میں کیا پہلی بار کپڑے لے جا رہی ہوں۔اتنی بھی پہچان نہیں مجھ کو؟“چچا کہتے ہیں۔”احمق کہیں کی۔کپڑا بازار سے لاتے ہیں ہم۔
سلواتے ہیں ہم۔روز بچوں کو پہنے ہوئے دیکھتے ہیں ہم۔اور پہچان تجھے ہو گی؟“
شہادت کے لئے بُندو کو بلوایا گیا۔چچا نے اس سے پوچھا۔”یہ قمیض بنو ہی کی ہے نا؟“بندو کی کیا مجال کہ میاں کی تردید کرے۔ڈرتا ڈرتا بولا۔”معلوم تو کچھ ان ہی کی سی ہوتی ہے۔پر وہ آپ ہی ٹھیک ٹھیک بتائیں گی۔“بنو کی طلبی ہوئی۔وہ آتے یہ بولیں۔”واہ یہ پھٹی پرانی قمیض میری کیوں ہوتی۔
چھٹن ہی کی ہو گی۔“
دھوبن کو چچا کے مزاج کی کیفیت کیا معلوم۔کہہ بیٹھی”میں نہ کہتی تھی۔“
چچا کو آگ لگ گئی۔”اولیاء کی بچی ہیں نہ یہ تو۔انہیں کیوں نہ معلوم ہو گا۔منہ پھٹ بدتمیز کہیں کی۔دوسرا دھوبی رکھ لوں گا میں۔“
کامل ایک گھنٹے کی محنت کے بعد کہیں فہرست بن کر تیار ہوئی کہ کون سا کپڑا کس کا ہے اور کس کے کپڑے کتنے ہیں۔اب جناب ادھر دھوبن سے کہا گیا کہ تو سب کے کپڑے گن۔
ادھر اپنی فہرست کی میزان ملانی شروع کی۔دھوبن گنتی ہے تو اُنسٹھ عدد بنتے ہیں۔چچا اپنی میزان ملاتے ہیں تو اکسٹھ کپڑے ہوتے ہیں۔دھوبن بار بار کہتی ہے۔”میاں ٹھیک طرح جوڑو اُنسٹھ ہی ہیں۔“پر چچا ہیں کہ بگڑے جا رہے ہیں۔تیرا جوڑنا ٹھیک اور ہمارا جوڑنا غلط ہو گیا؟جاہل کہیں کی اُٹھ کر دیکھ۔نیچے دبائے بیٹھی ہو گی۔دھوبن غریب ہر طرف دیکھتی ہے۔
بار بار کپڑے گنتی ہے۔وہی اُنسٹھ نکلتے ہیں۔چچا کی نظروں کے سامنے بھی ایک بار گن دیئے۔وہی اُنسٹھ ہی نکلے۔آخر نئے سرے سے تمام کپڑوں کا مقابلہ کیا گیا۔کوئی گھنٹہ بھر کی تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ دھوبن نے بتائے تھے دو جوڑی موزے۔اور چچا نے لکھے تھے چار۔دھوبن انہیں دو عدد گنتی تھی اور چچا چار عدد اس پر پھر بیچاری دھوبن کے لتے لیے گئے۔
”جوڑی کیا معنی؟چار نہیں تھے موزے؟یوں تو چار رومالوں کو بھی دو جوڑی لکھوا دیئے تو ہمارا قصور ہو گا لے کر اتنا وقت مفت میں ضائع کروا دیا۔ساری عمر کپڑے دھوتے گزر گئی۔اور ابھی تک کپڑے گننے کا سلیقہ نہیں آیا۔“
بارہ بجے دھوبن آئی تھی۔چار بجے رخصت ہوئی۔چچا چھکن فراغت پانے کے بعد فہرست چچی کو دینے آئے بولے۔”نمٹا دیا ہم نے دھوبن کو۔

چچی جلی ہوئی تھیں بولیں۔”گھر پر قیامت بھی تو گزر گئی۔کوئی بچہ ننگ دھڑنگ پھر رہا ہے۔کوئی غسل خانے میں کپڑوں کے لئے غل مچا رہا ہے۔دھوبن دُکھیا الگ کھسیانی ہو کر گئی ہے۔آدھا دن برباد کرکے کس مزے میں کہتے ہیں کہ نمٹا دیا ہم نے دھوبن کو۔“
چچا چڑ گئے۔”تمہیں کبھی پھوٹے منہ سے داد کے دو لفظ کہنے کی توفیق نہ ہوئی۔“
چچا روٹھ کر چارپائی پر پڑے رہے۔

چچی نے پوچھا۔”پاجاموں میں سے ازار بند بھی نکال لئے تھے؟“
چچا کی آنکھیں کھلیں۔مگر جواب نہ دیا۔بڑے مناسب وقت پر روٹھ گئے تھے۔
اتنے میں فہرست دیکھ کر چچی بولیں۔”اور یہ میری ریشمی قمیض کون سی؟ہلکے فیروزی رنگ کی؟اے غضب خدا کا۔میں نے تو وہ استری کرنے کو الگ رکھی تھی۔کم بخت دو کوڑی کی کر لائے گی۔اور اس میں سے میرے سونے کا بٹن بھی اُتار لیے تھے یا نہیں؟“
اب تک تو چچا کی تیوری چڑھی ہوئی تھی۔
سونے کے بٹنوں کا سنا تو ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھے۔
”بٹن؟سونے کے؟تمہارے؟تمہیں میری قسم؟ہئی ہے۔وہ تو نہیں اُتارے ہم نے۔“
”جوتی پہنتے ہوئے چچا باہر بھاگے۔“ارے بھئی چلی گئی دھوبن!او بُندو چلی گئی دھوبن!ارے امامی کدھر گئی دھوبن؟ارے دوڑیو،ارے بھئی جانا،پکڑنا،لے کر آؤ،منہ کیا تکتے ہو۔سونے کے بٹن لے گئی اماں سونے کے بٹن،تمہاری چچی کے،اس کا گھر کدھر ہے؟چوک سے مڑ کر کدھر کو؟اماں خونچے والے!کسی دھوبن کو جاتے دیکھا ہے؟ارے بھئی ریوڑیوں والے کوئی دھوبن ادھر تو نہیں گئی؟․․․․․او بھائی گنڈیریوں والے!کوئی دھوبن․․․․دائیں ہاتھ کو،اس طرف کو؟․․․․․؟․․․․․“ابھی تک چچا بٹن لے کر واپس نہیں آئے۔

Browse More Urdu Adab