Chacha Chakkan Ne Timardari Ki - Article No. 2648

Chacha Chakkan Ne Timardari Ki

چچا چھکن نے تیمارداری کی - تحریر نمبر 2648

چچا چھکن دل میں بخوبی جانتے تھے کہ تیمارداری اُن کے بس کا روگ نہیں ہے

ہفتہ 12 مارچ 2022

سید امتیاز علی تاج
چچا چھکن دل میں بخوبی جانتے تھے کہ تیمارداری اُن کے بس کا روگ نہیں ہے۔اس کے لئے جس جفا کشی سکونِ خاطر اور صبر و استقلال کی ضرورت ہے وہ انہیں چھو نہیں گیا۔اسی وجہ سے عام طور پر اپنی تیمارداری کو عیادت کے درجے سے آگے نہیں بڑھنے دیتے۔لیکن طبیعت کے ہاتھوں ایسے ناچار ہیں کہ ذرا سی بات میں تاؤ کھا جاتے ہیں چنانچہ ایک روز آگا پیچھا سوچے بغیر تیمارداری کے میدان میں جوہر دکھانے پر آمادہ ہو گئے،کچھ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ چچی کے سلیقے میں اُنہیں اپنے سگھڑاپے کی توہین نظر آتی رہتی ہے۔
پھر اگر کسی بات میں چچی اپنی عرق ریزی اور ان کی فراغت کی طرف بھی اشارہ کر دیں تو چچا آپے سے باہر ہو جاتے ہیں اور ”دلِ ناتواں“ مقابلہ کیے بغیر باز نہیں رہ سکتا۔

(جاری ہے)

خیر گھر کے دوسرے قصوں میں جو آئے دن پیش آتے رہتے ہیں،ان مقابلوں کا نتیجہ سبق آموز ہو یا نہ ہو،چچا غیرت والے ہیں تو آئندہ کسی کی تیمارداری کا بیڑا تو اُٹھائیں گے نہیں۔
بات یوں ہوئی کہ پچھلے دنوں للّو غریب کو نکلا موتی جھرہ۔

شب برات سے اگلے روز جو مُلہُلا کر بخار چڑھا ہے تو اکیس دن گزر گئے،ٹس سے مس نہ ہوا۔گھر میں کام کرنے والی لے دے کے ایک چچی،وہ غریب کیا کریں!گھر اُٹھائیں،ہنڈیا چولہا دیکھیں،بچے سنبھالیں یا ہر وقت بیمار کی پٹی سے لگی بیٹھی رہیں؟اِدھر بیمار کے پاس آ کر بیٹھیں اُدھر ماما کی آواز آ گئی۔”بیوی دال دے جاتیں کہ میں بین لیتی۔نہیں کِرکَل رہ جائے گی،باورچی خانے میں پہنچیں تو للّو نے ٹھنکنا شروع کر دیا کہ میں تو اماں ہی کے ہاتھ سے پانی پیئوں گا،کس کو ٹالیں اور کس کی خبر لیں، دن اسی قواعد میں گزرتا۔
رات آنکھوں میں کٹتی،پھر ایک دن نہ دو دن،معیادی بُخار،تین ہفتے کی محنت نے اَدھ مُوا کر ڈالا۔اکیسویں دن سے آس لگائے بیٹھی تھیں کہ بخار ٹوٹ جائے گا لیکن اکیسواں دن بھی آیا اور صاف گزر گیا۔ایک اور ہفتہ پہاڑ کی طرح سر پر آ کھڑا ہوا۔
تیسرے پہر بیٹھی تولیے سے للّو کے جھانواں کر رہی تھیں کہ کہیں چچا نے امامی کے ہاتھ پان کی ڈبیا اندر بھیج دی،ساتھ کہلا بھیجا۔
”خوب اچھی طرح بھر دیں۔“چچی فکر مند تو بیٹھی ہی تھیں،ادھر ہاتھ بھی رُکا ہوا تھا،بگڑ کر بولیں۔”لے جا اُٹھا کے پاندان۔بھرتے رہیں گے آپ ہی۔“
پاندان کے جواب میں چچا خود آ موجود ہوئے۔”وہ پاندان بھیج دیا تم نے!“چچی غصہ کڑوے گھونٹ کی طرح پی گئیں۔صرف اتنا کہا”اور کیا بیمار کی چارپائی اُٹھوا کر بھیجتی؟“
چچا کو اس کی شرح سمجھنے کی جرات نہ ہوئی۔
چچی کے تیور بے ڈھب تھے،للّو سے مخاطب ہو گئے۔”کیوں بے یار للّو!راوی چین لکھتا ہے نا؟ بڑے ٹھاٹھ سے جھانواں کروا رہے ہو اُستاد۔اب یہ کہو تم اُٹھتے کب ہو؟“
چچی سے رہا نہ گیا بولیں”جلدی اُٹھ بیٹھ بیٹے۔ابا فکر کے مارے دُبلے ہوئے جا رہے ہیں۔“
اب اتنے کھلے وار پر چپ رہنا چچا کے لئے کیسے ممکن تھا،بولے”یعنی تم سمجھتی ہو تمہارے سوا کسی کو بچے کی فکر ہی نہیں؟“
چچی رُوکھی ہنسی ہنس پڑیں۔
”یہ تو وہی مثل ہوئی کہ چور کی داڑھی میں تنکا۔“
چچا کے لئے بات کھول کر کرنے کے سوا چارہ نہ رہا۔”بڑا تیر مارا کہ دو روز تیمارداری کر لی۔سمجھ بیٹھیں کہ ہمچومن دیگرے نیست۔جناب نے تو ایک بچے کی تیمارداری کی ہے میں بیسیوں جوانوں کی تیمارداری کر چکا ہوں۔اور اب بھی میں نے اگر زیادہ دخل نہیں دیا اور دل مار کے چپکا بیٹھا رہا۔تو کس کے خیال سے؟تمہارے کہ بھئی ماں ہے،اسے بچے کی مامتا ہے،جو جی چاہے کر لینے دو ورنہ مجھے خود کب گوارا تھا کہ بیمار بچے کو تمہارے ہاتھ میں چھوڑ دوں۔

چچی سر پھیرتے ہوئے بولیں۔”کبھی اتنی توفیق تو ہوئی نہیں کہ گھڑی دو گھڑی آ کر بیمار کے پاس بیٹھ جائیں،آ جاتے ہیں صبح شام ناک پر دیا جلا کر کہ اُتر گیا ہو گا،بخار،کیا بات اب تک اُترا کیوں نہیں،تیز ہے؟اوہو!․․․․․․یہ تیمارداری کریں گے۔“
چچا چھکن دُشنام سن سکتے ہیں لیکن ایسا طعنہ جس میں اُن کی قابلیت کے کسی پہلو کی طرف اشارہ ہو اور پھر چچی کی زبان سے،ان کے برداشت سے باہر ہے۔
انہیں غالباً دل ہی دل میں کچھ ایسا محسوس ہوتا ہے گویا اس میں مضمر ہے کہ چچی نے اُن کی بیوی بن کر اُن پر بڑا احسان دھرا ہے اور بیوی کا احسان لینا ان کی مردانگی کسی صورت گوارا نہیں کر سکتی۔بغیر سوچے سمجھے بولے۔”جائیے آپ باورچی خانے میں تشریف لے جائیے،میں آپ کر لوں گا تیمارداری۔“
چچی ایسے دعوؤں کی حقیقت سے بخوبی واقف ہیں،ناک چڑھا کر بولیں۔
”کیا کروں،پتھر تلے ہاتھ دیا ہے،ڈاکٹر نے کہہ رکھا ہے،ایک سے زیادہ تیماردار بچے کے پاس نہ آئے گھر میں شور و غل نہ ہو ورنہ مجھے تو انکار نہ تھا۔کہہ دیتی یہ ارمان بھی شوق سے نکال دیکھو۔“
نہ معلوم چچا ایسے موقعوں پر جان بوجھ کر انجان بن جاتے ہیں یا اسی قسم کے گزشتہ دعوؤں کے عواقب اُنہیں یاد نہیں رہتے،بولے”تم ایک تیماردار اور میں ایک سے زیادہ ہو گیا؟وہ کیوں؟اور یہ شور و غل کیسا؟تم تو جیسے چپ شاہ کا روزہ رکھے بیٹھی رہتی ہو؟“
چچی جل کر بولیں۔
”چپ شاہ کا روزہ نہیں رکھتی تو بات بات پر امامی اور مُودے اور بُندو کو پکار کر گھر بھی سر پر نہیں اُٹھاتی۔“
چچا بگڑ کر بولے۔”بہت اچھا،جائیے،مُودے اور امامی اور بُندو کو بھی باورچی خانے میں گھٹنے سے لگا کر بیٹھا رکھیے میں ان کے بغیر بھی جناب کو دکھا دوں گا کیونکر کرتے ہیں تیمارداری۔“
چچا کو کمزور حریف سمجھ کر چچی عام طور سے ایسی بات گول کر جایا کرتی ہیں لیکن اس وقت اُنہیں بھی نہ معلوم کیا ہوا،جیسی بیٹھی تھی ویسی ہی اُٹھ کھڑی ہوئی اور جھانوے کا تولیا چچا کے ہاتھ میں پکڑا سیدھی باورچی خانے کو چل دی۔

ان کے یوں اچانک اُٹھ کھڑے ہونے کی اُمید چچا کو بھی نہ تھی،حیران رہ گئے۔ایک منٹ تو چپ چاپ تولیے کو دیکھتے رہے،آخر ذمہ داریوں اور مجبوریوں کے احساس سے کھسیانی ہنسی ہنس پڑے۔للّو سے کہنے لگے:”دیکھتا ہے ان کی باتیں؟سمجھتی ہیں بس انہیں ہی آتی ہے تیمارداری،اور سب تو اپاہج ہیں۔“
اماں کے چلے جانے سے للّو کچھ کبیدہ خاطر ہو گیا تھا،کروٹ لے کر پڑا رہا۔
غالباً تکلفاً چچا نے پوچھ لیا۔”کیوں بھئی جھانواں کرتے رہیں۔
للّو نے منہ سے کچھ نہ کہا،سر ہلا کر ہاں کر دے چنانچہ چچا کے لئے اس کے سوا چارہ نہ رہا کہ جھانواں کریں اور بغیر کسی امداد کے کریں،بولے ”ہم آپ کریں گے اپنے بیٹے کے جھانواں۔“ذرا سے تامل کے بعد آپ پائنتی بیٹھ گئے،بولے”لو بھئی ہم تو کرتے ہیں جھانواں اور تم کرو ہم سے باتیں۔

جھانویں کے لئے تولیا بچھا کر سب پہلوؤں پر سے ایسے تکلف اور اہتمام سے تہہ کیا گیا جیسے چچا جھانویں کے لئے گدی نہیں بنا رہے،بیمار کے دل بہلاؤ کے لئے تولیے کی ناؤ تصنیف فرما رہے ہیں۔اس دوران میں للّو سے برابر مخاطب رہے۔”یہ چپ سادھنے کی شرط نہیں ہے، یوں تمہارا دل گھبرا جائے گا۔باتیں کرنی ہوں گی ہم سے،ہاں اچھا یہ بتاؤ،اچھے ہو کر تم کھاؤ گے کیا کیا؟“
اکیس دن کا بیمار،بھلا باتیں کیا کرے،کروٹ لیے چپکا پڑا رہا،تولیا تہہ کر چکنے کے بعد چچا کے چہرے پر فخر و اطمینان کی ایک مسکراہٹ کھلنے لگی۔
”اب بنی نہ گدی جھانویں کی۔اسے کہتے ہیں گدی۔کبھی دیکھی بھی نہ ہو گی بیگم صاحبہ نے۔“
چچا نے جھانواں شروع ایسے زور شور سے کیا،گویا جھانواں نہیں کر رہے پاؤں پر پالش کر رہے ہیں،باتیں مجبوراً بند کر دی تھیں کیونکہ ہاتھ کی حرکت کے باعث باتیں گیت کی تانیں سی بن کر حلق سے نکلتی تھیں۔بار بار گردن بڑھا کر صحن کی طرف دیکھ رہے تھے کہ شاید کسی سے نظریں چار ہو جائیں اور وہ اُس کارِ نمایاں کی خبر چچی تک پہنچا دے،سانس پھولا ہوا تھا،بات نہ ہوتی تھی مگر محض چچی کے سنانے کو کہے بھی جا رہے تھے۔
”اب مزہ آیا ہو گا جھانویں کا،․․․․بڑی محنت کا کام ہے․․․․ایک طرح کا فن سمجھنا چاہیے۔“
لیکن پانچ ہی منٹ بعد صورتِ حال میں تبدیلی رونما ہوئی،پہنچے اور کہنیاں دُکھنے لگیں،بازو ڈھیلے پڑ گئے ہاتھ رہ گئے،دل اُکتا گیا،اُٹھنے کی فکر ہونے لگی مگر اب اُٹھیں کیونکر؟خود اُٹھتے ہوئے ندامت ہوئی تھی،لڑکا بس کرنے کو کہتا نہیں تھا،نہ اُمید تھی کہ کہے گا۔
وہ آنکھیں بند کیے ایسا خاموش پڑا تھا گویا سے خبر ہی نہیں کہ چچا پر کیا گزر رہی ہے۔آخر کچھ دیر بعد تنگ آ کر چچا نے ہاتھ روکنا اور اس سے پوچھنا شروع کیا۔ ”کیوں بھئی پیاس تو نہیں لگی؟پانی لاؤں؟انار کے دانے نکال دوں؟․․․․ارے ہاں للّو!وہ جو تُو نے پودا لگایا تھا کیاری میں،اس میں پھول آ گئے لا کر دکھاؤں؟“مگر للّو نے کسی ایسی چیز کی فرمائش نہ کی جسے لانے کے لئے چچا کو اُٹھنے کا موقع مل سکتا۔
اسی طرح گُم سُم چپکا پڑا رہا۔
دو ایک دفعہ چچا نے ایسا بے خلل انداز اختیار کرکے اُٹھنے کی کوشش کی گویا ان کی رائے میں للّو سو گیا ہے مگر ان کے ہلتے ہی للّو کراہنے لگا یا آنکھیں کھول دیں چنانچہ چچا کو طوعاً و کرہاً پھر بیٹھ جانا پڑا۔پاؤں سو گئے تھے ہاتھ کانپنے لگتے تھے،کبھی بیٹھنے کا انداز بدلتے،کبھی جھانواں روک کر ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ کا بازو دبانے لگتے۔
جھانواں برائے نام ہو رہا تھا،مریض بھی بے چین تھا،چچا گھبرائی گھبرائی نظروں سے اِدھر اُدھر تک رہے تھے کہ کسی طرح اُٹھنے کا کوئی بہانہ ملے مگر کسی طرح مشکل آسان نہ ہوتی تھی۔آخر دل کڑا کرکے بولے:۔
”بس بھئی اب زیادہ جھانواں نہیں کرتے،ضعف ہو جاتا ہے۔“یہ نہ معلوم ہوا کہ مریض کو یا جھانواں کرنے والے کو۔
یہ کہہ کر چچا فوراً اُٹھ کھڑے ہوئے اور آرام کرسی پر دراز ہو گئے۔
تیمارداری کا جوش کچھ سرد سا پڑ گیا تھا،بڑی دیر تک منہ بنا بنا کر اپنا ہاتھ دباتے اور انگلیاں چٹخاتے رہے۔ٹانگیں پھیلا پھیلا کر تھکن اُتاری۔حواس بجا ہوئے تو للّو کی طرف توجہ کی۔”سو گئے للّو!للّو بھیا!اے للّو!او للّوے!نیند آ گئی کیا؟اچھا سو رہو۔“باہر چچی نے آواز سن لی چھٹن کے ہاتھ کہلا بھیجا۔”سونے نہ دینا،دوا کا وقت ہے۔سرہانے چھوٹی میز پر دوا کی شیشی رکھی ہے،ایک خوراک دے دو۔

چچا دوا دینے کو اُٹھ کھڑے ہوئے۔شیشی ہاتھ میں لے کر لیبل پڑھا،اِدھر اُدھر دیکھا۔داڑھی کھجلائی،پیٹ سہلایا بے تاب تھے کہ کسی کو امداد کے لئے پکاریں۔لیکن آج کے دن کسی کی امداد لینا غیرت کو گوارا نہ تھا،مجبوراً خود ہی دوا دینے پر آمادہ ہوئے۔شیشی رکھ دوا نکالنے کے لئے پیالی لائے،کاگ نکالا،پہلے تو شیشی کو دانتوں میں پکڑ کر کاگ کو پیالے میں اُنڈیلنے کی کوشش فرمائی۔
اس کے بعد لاحول کہہ کر کاگ میز پر رکھ دیا اور شیشی سے دوا اُنڈیلنی شروع کی۔بُوند بُوند بھر نکالتے اور آنکھیں چندھیا چندھیا کر خوراک کا نشان دیکھ لیتے۔ذرا سی دوا نکالنی باقی تھی کہ شیشی ذرا زیادہ اُلَل گئی،ڈیڑھ خوراک نکل آئی۔
چچا نے پہلے تو پیالی ٹیڑھی کی کہ زائد خوراک گرا دیں۔پھر خیال آیا کہیں ضرورت سے زیادہ دوا گر کر خوراک کی مقدار کم نہ ہو جائے چنانچہ ارادہ کیا کہ زائد دوا انٹیشی ہی میں ڈال کر اطمینان کر لیں۔

پیالی سے دوا شیشی میں اُنڈیلی۔آپ جانیے پیالی کے چونک تو ہوتی نہیں کہ دوا شیشی میں چلی جاتی،باہر بہ کر نیچے گر پڑی۔چچا نے ذرا دیر ہاتھ روک کر سوچا،اب کیا کریں!اس کے سوا چارہ نظر نہ آیا کہ پیالی میں جو دوا باقی رہ گئی تھی،وہ بھی شیشی ہی میں اُنڈیل دیں اور ازسرنو،ایک پوری خوراک نکالیں چنانچہ یک لخت اُنڈیلی دوا شیشی میں تو ذرا سی گئی،باقی سب ہاتھ پر سے بہتی ہوئی فرش پر گر پڑی۔

چھٹن کے ہاتھ چچی نے انار کے دانے نکال کر بھیجے تھے،وہ غریب کھڑا دوا نکالنے کا یہ تماشہ دیکھ رہا تھا،اُسے آ گئی ہنسی۔ایسے موقع پر کوئی ہنس پڑے تو چچا کو آگ لگ جاتی ہے،سر پھیر کر لال پیلی آنکھوں سے اسے گھورا۔”بدتمیز کہی کا،ہنسا کا ہے پر؟اور یہ کیا موقع تھا ہنسی کا؟ پیٹ پیٹ کر اَتو کُر دُوں گا۔“غرض غریب کو ڈانٹ ڈانٹ کر رونکھا بنا دیا۔

ہاتھ پونچھ پونچھ چچا نے شیشی کو دیکھا تو دوا آدھے فشاں تک تھی،آدھی اس اَدلا بدلی میں ضائع ہو چکی تھی۔اب کیا کریں؟آدھی خوراک سے آدھی خوراک تک دوا نکالنا آسان نہ تھا چنانچہ غور و خوض کے بعد طے کیا کہ بقیہ آدھی خوراک بھی ضائع کر دی جائے اور اس سے اگلی پوری خوراک نکالی جائے۔چونکہ باقی خوراک مریض کو نہ دینی تھی بلکہ ضائع کرنی تھی،اس لئے اسے احتیاط سے نکالنے کی ضرورت چچا کو نہ سوجھی،دروازے میں جا شیشی ذرا بے فکری سے دروازے میں اُلٹ دی۔

اب جو شیشی آنکھوں کے سامنے لا کر دیکھتے ہیں تو وہ پھر آدھے ہی نشان تک،مگر اگلی سے اگلی خوراک کے۔چچا جھنجھلا اُٹھے،بے ساختہ چند ناگفتہ بہ کلمات ان کی زبان سے نکل گئے مگر قہر درویش برجان درویش،کر کیا سکتے تھے؟امامی بُندو کا قصور تو تھا نہیں کہ غل مچا مچا کر دل کی بھڑاس نکال لیتے،اگلی آدھی خوراک ضائع کرنے کے عمل میں مصروف ہو گئے۔
قصہ مختصر کوئی آدھ گھنٹہ اور پانچ خوراکیں ضائع کرنے کے بعد چچا خاطر خواہ طور پر دوا نکالنے میں کامیاب ہوئے۔
للّو کی آنکھ لگ گئی تھی،اُسے جگایا،وہ ٹھنکتا ہوا جاگا۔بچے کے ٹھنکنے اور رونے سے چچا کی تیمارداری پر حرف آتا تھا۔دبی زبان سے اُسے چمکارا اور اُس سے طرح طرح کے جھوٹے وعدے کیے۔”ایک تو جناب من!ہم نے تمہارے لیے ڈور کی پوری ریل منگوائی ہے اور جناب دوسرے گلشن سے کہا ہے کہ ایک درجن رنگ برنگ کی کنکیاں بنا کر لائے،بس ادھر تم اچھے ہوئے اور ادھر پیچ لڑنے کا سامان ہوا۔

چچا چارپائی پر چڑھے،سہارا دے کر للّو کو اُٹھایا،دوا دینے لگے تو خیال آیا کہ کُلّی کے لئے پانی تو لائے ہی نہیں۔اُسے پھر لِٹا بھاگے بھاگے پانی لینے چلے گئے۔پانی کی پیالی میز پر رکھ کر پھر چارپائی پر چڑھے،للّو کو اُٹھایا،سمجھا بجھا کر بہزار دقت دوا دینے پر آمادہ کیا۔اب جناب نے کیا تماشہ کیا کہ پانی کی پیالی تو اُس کے منہ سے لگا دی اور کُلّی کے لئے دوا کی پیالی ہاتھ میں تھامے بیٹھے رہے۔
جب اُس نے خود ہی ٹھنک کر بتایا کہ یہ تو پانی ہے تو آپ کو اپنی غلطی معلوم ہوئی۔ندامت تو کیا ہوئی،اوہو کہہ کر پیالیاں بدل دیں،اور دوا کی پیالی للّو کو دی۔
خالی پیالی اُس کے ہاتھ سے لے کر کُلّی کے لئے پانی دیا تو اب اُگالدان کا خیال آیا۔گھبرا کر اُگالدان لینے کو لپکے،بچے کا سر دھڑ سے تکیے پر آ گرا۔اِدھر دوا سے اس کا منہ کڑوا،اُدھر لگا سر کو دھچکا۔
زور زور سے رونے لگا۔آپ کبھی اس کے آگے گلاس کرتے ہیں کبھی اُگالدان،کبھی انار کے دانے مگر بیمار کی ضد۔وہ کسی چیز کی طرف آنکھ اُٹھا کر نہیں دیکھتا،اماں اماں کہہ کر روئے جا رہا ہے۔چچا گھبرا کر کبھی للّو کو دیکھتے ہیں کبھی دروازے کو کہ کہیں چچی نہ آ رہی ہوں بچے کو کبھی لپٹاتے ہیں۔کبھی منتیں خوشامدیں کرتے ہیں۔مگر اس پر مطلق اثر نہیں ہوتا۔
مجبوراً چچی کی سامعہ نوازی کو بلند آواز میں کہنا شروع کیا۔”اب ہم نے تو دوا میں کڑواہٹ ملا نہیں دی،ایسی ہی ہوتی ہیں ان ڈاکٹروں کی دوائیں، ہمارا کوئی قصور ہو تو ہم ذمہ دار۔یوں اماں ہی کے بلانے کو جی چاہ رہا ہو تو تم جانو۔“
چچی باورچی خانے سے فارغ ہو کر چچا کے پانوں کی ڈبیا بھر رہی تھی۔وہیں سے بولیں۔”آئی بچے آئی۔“اتنے میں چچی آئیں،للّو نے رو رو کر بُرا حال کر لیا تھا۔
ہچکی بندھ گئی تھی۔چچا کے ہاتھ پاؤں الگ پھول گئے تھے۔اب ان سے تسلی بھی نہ دی جاتی تھی۔الگ کھڑے سراسیمہ نظروں سے اسے دیکھ رہے تھے،منہ تک بات آتی تھی مگر نکل نہ سکتی تھی۔دلاسہ دینے کو ہاتھ اُٹھانا چاہتے تھے مگر نہ اُٹھتا تھا۔چچی آئیں تو ان کے حواس بجا ہوئے۔بولے”آپ ہی آپ رونے لگا،بس دوا دی تھی۔“
چچی نے پان میز پر رکھ دیئے۔اور”میرا چاند!میرا لال!“کہتی ہوئی لپک کر سرہانے بیٹھ گئی۔
بچے کا سر اپنی گود میں رکھ لیا۔اور سہلانے لگی۔بچے کو ذرا سکون ہوا تو چچا پان کی طرف متوجہ ہوئے۔پان کھاتے ہوئے اپنے آپ سے کہنے لگے۔”رٹ ہی ماں کی لگ جائے تو تیماردار غریب کیا کرے۔“
چچی نے للّو کے ماتھے پر ہاتھ پھیرا۔تو ٹھنڈا ٹھنڈا تھا۔ہاتھ دیکھے تو وہ بھی ٹھنڈے!بولیں”اے ہے اسے تو ضعف کا دورہ پڑ گیا،پنڈا ٹھنڈا پڑا جا رہا ہے۔رنگت بھی تو پیلی پڑ گئی ہے۔
ارے کوئی دودھ لاؤ دودھ،پیچھے چولہے پر رکھا ہے،بالائی ہٹا کر لانا۔“
تیمارداری سے ابھی چچا کا باضابطہ چھٹکارا تو ہوا نہ تھا۔پیالی اُٹھا خود دودھ لینے روانہ ہو گئے۔باورچی خانے میں ماما آٹا گوندھ رہی تھی،دودھ نکالنے کو اُٹھنے لگی۔چچا کے منہ میں تھی پیک۔”اُوں ہُوں اُوں ہُوں“ کرکے اسے روک دیا۔لڑکے بڑھنے لگے،”اُوں ہُوں اُوں ہُوں“ کرکے اُنہیں بھی روک دیا،خود دیگچی اُٹھا دودھ اُنڈیلنے لگے۔
دودھ جوش پر آ کر ٹھنڈا ہو رہا تھا،اس پر آ گئی تھی بالائی۔چچی نے کہا تھا۔بالائی اُتار کر دودھ لانا۔بالائی ہٹانے کو آپ راکھ کر ایک پھونک جو مارتے ہیں تو پان کی ساری پیک دیگچی میں!دودھ کی اچھی خاصی چائے بن گئی۔
اب چچا کی حالت دیکھنے کے قابل تھی۔کبھی دیگچی کو دیکھیں،کبھی کھوئے کھوئے اِدھر اُدھر دیکھیں،کچھ سمجھ میں نہ آتا تھا،قصور کس کا ہے!ایک مرتبہ دیگچی نیچے رکھ دی،پھر اُٹھائی،دودھ کو غور سے دیکھا،پھر نیچے رکھ دی اُٹھ کھڑے ہوئے۔
بیمار کے کمرے کی طرف چلے،پھر باورچی خانے میں دیگچی کے قریب آ کھڑے ہوئے اور ٹھوڑی کھجانے لگے۔آخر سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر باہر اپنے کمرے میں چلے گئے۔اور اندر سے چٹخنی لگا لی․․․․ایک منٹ بعد باہر نکلے اور دودھ کی دیگچی اُٹھا پھر اندر گھس گئے۔
اس واقعے سے گھر میں جو تکدر پیدا ہوا تھا،وہ للّو کی صحت یابی سے پہلے رفع نہ ہو سکا۔

Browse More Urdu Adab