Juz Qais Baqi Ghalib (teesri Qist) - Article No. 2571

Juz Qais Baqi Ghalib (teesri Qist)

جز قیس باقی غالب (تیسری قسط) - تحریر نمبر 2571

غالب نے ٹیشو سے ناک کا بہتا پانی صاف کیا، زیادہ ہنسنے سے آنکھ بھی مذاق مذاق میں بہنا شروع ہو گئی تھی۔۔۔ بلکہ شوخیاں اشکوں کی صورت موتی بن کر برس ہی تھیں

عابدہ ظہیر عابی جمعہ 22 مئی 2020

میتھیو معمول کی سروس پر آتی، صبح سے رات ہوتے ہی چلی جاتی تھی۔ 
 مجنوں بڑا متاثر ہوا۔۔۔مجنوں نے بے قراری سے پوچھا۔ تمہاری خاطر۔۔۔ غالب نے ڈبل مصالحہ مار کر جملہ دریافت کیا۔۔۔۔۔
 اپنا بسا بسایا گھر۔۔۔۔میری خاطر ۔۔۔؟ اس سے پہلے مجنوں غالب کی ہمدردی میں کچھ اور بولتا۔۔۔غالب نے چندرا کر سبھی سے کہا، ”کیا میرے پیار میں کوئی کمی تھی؟۔
۔۔ نہیں بالکل نہیں۔۔۔میں نے کسی چیز کی کمی ہونے نہیں دی۔ گر وہ اسے اپنا گھر سمجھتی تو ہرگز نہ جاتی۔ ایک بار بھی کہہ دیتی کہ نہیں جاتی۔۔۔ میں روک لیتا۔۔۔ اس نے اس گھر کو اپنا نہیں جانا۔ بس میں بھی ہو گیا انجانا۔ 
بس اب تم اس گھر کو اپنا گھر ہی سمجھو اور خوش رہو“ یک دم غالب کو فلو کا اٹیک ہوا۔۔۔اور عشق بخار کا حملہ ہوا۔

(جاری ہے)

”تم کیا سمجھتے ہو۔

۔۔میں نے کبھی محبت نہیں کی؟۔۔۔عشق نہیں کیا؟ اس آگ میں میں قسم سے کئی بار جلا بھنا ہوں۔۔۔بھن کے کباب ہوا۔۔۔ آتش کباب سے عشق کباب ہوا۔۔۔۔ یہ کباب بنا بنا کر پکائے اور کھائے جاتے ہیں۔ ضیافتیں اڑائی جاتی ہیں۔ یہ میرے ہی رائج کیے گئے ہیں کباب۔۔۔کیا سمجھے۔۔۔؟“
”میں نے کبھی عشق کباب نہیں کھائے“، مجنوں نے معصومانہ انداز سے کہا۔
 کیا میرا رائج کردہ کباب۔۔۔کباب جسے اب لوگ اپنا نام لے کر پکاتے ہیں اور خوب کھاتے ہیں اور خوب کماتے ہیں اور تم محرومی کباب ہو۔ جبھی تمہارے پیار میں مطلب کباب میں ہڈی ہے اور تم شکستگی کا کچومر ہو کر رہ گئے ہو۔۔۔ غالب کی برجستگی قابل ستائش و دید تھی۔ دوستوں کو وہ آبروئے دراز کو مچمچا کر پہلے ہی سمجھا اور دبا چکے تھے۔ سو سبھی ان حالات سے لطف اٹھا رہے تھے۔
غالب اپنا فلو اٹیک اور بخار میں بذلہ سنجی کا گراف بلند ہوتا جا رہا تھا تھا۔
 آہ بے اثر دیکھی نالہ بہتا پایا 
 غالب نے ٹیشو سے ناک کا بہتا پانی صاف کیا، زیادہ ہنسنے سے آنکھ بھی مذاق مذاق میں بہنا شروع ہو گئی تھی۔۔۔ بلکہ شوخیاں اشکوں کی صورت موتی بن کر برس ہی تھیں۔ ہاں تو میں کیا کہہ رہا تھا کہ!... کباب گوشت سے بنتے ہیں اور انہیں مصالحہ لگا کر سیکا جاتا ہے۔
 
” میں کہہ رہا ہوں میں نے کبھی کباب نہ کھائے، نہ دیکھے، نہ بنائے۔۔۔“ مجنوں۔۔۔ذکر کباب پر جذ بز ہو کر بولا۔۔۔ ، ”میں نے یہ نام آپ سے سنا ہے پہلی بار۔۔۔“
 ” کس نے کہا ہے کہ تمہیں محبت آتی ہے؟“ غالب نے بھناتے ہوئے کہا۔ 
”جی میں تو ابھی نیا نیا آیا ہوں“، مجنوں نے جز بز ہوتے ہوئے منمنا کر کہا۔
 کھل کے بات کرو۔
۔۔یہ من۔۔۔ من۔۔۔ مت کرو۔ چسکا کا لب گویائی خوب سے خوب تر۔۔۔پرکشش دل لبھانے والی۔۔۔ مزاح کو بھی اس مزاح پر کیوں نہ زعم ہو
بیٹھے ہوئے حضرات میں سے مصرعے شوخی تحفتا ارسال کیا گیا۔۔۔
غالب نے مسکرا کر گردن ہلائی۔۔۔ بس اتنا ہی کافی ہے پھر کبھی باقی۔۔
” مجنوں صاحبزادے! اب تو صحرا میں تو نہیں جاؤ گے ؟“، غالب نے اوپری غصے اور رعب سے بھناتے ہوئے کہا۔
تم شکر کرو اس کوچہ عشق کی آوارہ گردی کرنے سے بچ گئے۔۔۔اس رہ کے خارزار۔۔۔ لہو، لہو کر دیتے ہیں۔۔۔ کہ وحشت بھی بندے کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔۔۔ اتنی سخت اور ثقیل ہوتی ہے محبت کہ بھوک پیاس مٹا دیتی ہے۔ 
 تیرے عشق نچایا کر کے۔۔۔
 ھو۔۔۔ھو۔۔۔ھو۔۔ھو۔۔تیرے عشق نچایا کر تیرے تھیا تھیا۔۔۔
غالب کے حقے کی نڑی موسیقی کا کام دے رہی تھی یا پھر غالب لفظوں کو شعر نڑی میں سے اچھال رہے تھے۔
” مجنوں صاحبزادے! اب تو صحرا میں تو نہیں جاؤ گے ؟“ 
نہیں۔۔۔کبھی نہیں۔۔۔ اتنی محبت اتنی چاہت کوئی کر ہی نہیں سکتا قیس نے لگاوٹ سے کہا۔۔۔۔میں تو اب آپ سے وفا نبھاؤں گا۔۔۔''وفا“ 
بس آپ کا ”وفادار“ ہو جاؤں گا ،
مجنوں نے غالب کے دست کو تھام کر کہا۔ 
مجنوں کی عشق میں لت پت چاشنی بھری گفتگو یقین بل یقین تھی۔ 
غالب و حاضرین کو جہاں لطف سخن نے لبھایا وہی سبھی نے قیس۔
۔۔سلامت رہو۔۔۔مجنوں سلامت رہو۔۔۔۔شاباش۔۔۔
غالب کی نڑی حقے کی گڑگڑاہٹ بھی وجد میں آکر غالب کا ساتھ نبھانے لگی۔۔۔گڑگڑ۔۔۔۔گڑ۔۔۔۔شا_با_ش۔
غالب نے وقت کی گزرتی ساعتوں پر نگاہ ڈالی تو چونک گئے اپنے دوستوں کو دیکھتے ہوئے بولے
نارنج زریں (سورج) کی آمد میں پانچ چھ گھنٹوں کا وقفہ ہے 
تم بھی شب تاب (جگنو) ہوچکے ہو۔۔
۔یار زندہ صحبت باقی (مطلب رخصت اب تم سب جاؤ) سبھی مسکراتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے تو غالب نے یک دم کہا ارے رکو بھئی ایسی بھی کیا آپا دھاپی۔
بہادر شاہ ظفر نے کل اپنے خاص بندوں کے ذریعے آم کی پیٹیاں تحفتاً ارسال فرمائی ہیں۔ جاکر اقبال کو بھی خبر کر دو کہ غالب نے یاد فرمایا ہے۔ حاضر ہو جائیں احتمام آم بلخاص جب طعام کرنے ہوں گے ہم اس شب و روز کو آگاہ کر دیں گے۔ 
یہ ہم پر موقوف ہے جب مناسب سمجھیں گے پیغام ارسال کر دیں گے ۔ غالب نے شائستگی سے کہا تبھی سب آداب کرتے رخصت ہو گئے۔ ارے بھئی کل پھر آنا ایک نشست باقی ہے۔ غالب نے جاتے ہوئے یاروں کو کہا۔ 
سبھی نے اثبات میں گردن ہلائی اور چلے گئے۔ (جاری ہے )

Browse More Urdu Adab