Pashtu Main Shopping - Article No. 2531

Pashtu Main Shopping

پشتو میں شاپنگ - تحریر نمبر 2531

پٹھان بھائیوں کے ساتھ مول تول کرنا بھی ایک آرٹ سے کم نہیں۔ عین ممکن ہے کہ کسی چیز کے ہزار روپے مانگ کر سو روپے میں آپ کے حوالے کردیں اور اگر اَڑ جائیں تو ایک پیسہ کم کرنے پر بھی آمادہ نہ ہوں۔

بدھ 12 فروری 2020

 پشاور میں ہمارے قیام کا زمانہ 1995ء سے لے کر 1998ء تک رہا۔ ان دنوں پشاور ایک نہایت پر سکون شہر ہوا کرتا تھا۔ مال روڈکے بیچلر آفیسرز کوارٹرزہمارا مسکن تھے اور آرٹلری میں ہم اپنافارغ وقت بتایا کرتے تھے۔ انگریز دور کی نشانی یہ حسین میس صدیوں کی تاریخ اپنے اندر سمیٹے نہایت شان سے مال روڈ پر استادہ تھا۔ یہ میس تعمیراتی حسن وزیبائش میں اپنی مثال آپ تھا۔
وکٹورین طرز کی دلکش عمارت ،خوش رنگ باغیچے اور دیدہ زیب فرنیچر کو دیکھ کر دل بے اختیار اس کے معماروں کو داد دے اٹھتا۔ اپنی عسکری زندگی میں ہمیں درجنوں میس دیکھنے کا اتفاق ہوا لیکن آرٹلری میس پشاور جیسا بانکپن کہیں اور نظر نہ آیا۔
ان دنوں میس لائف کے بعد یارلوگوں کا واحد شغل سستی شاپنگ کے لئے پشاور کے بازاروں کی خاک چھانناتھا۔

(جاری ہے)

باڑے میں انواع اقسام کی دیسی بدیسی اشیا ارزاں نرخوں پر دستیاب تھیں۔ ہمیں خود تو شاپنگ کا کوئی خاص شوق نہ تھا البتہ گھر والے اکثر فرمائشیں ارسال کرتے رہتے تھے جن کی تکمیل کے لئے ویک اینڈ پر بازاروں کا رخ کرنا ایک معمول کی بات تھی۔ پٹھان بھائیوں کے ساتھ مول تول کرنا بھی ایک آرٹ سے کم نہیں۔ عین ممکن ہے کہ کسی چیز کے ہزار روپے مانگ کر سوروپے میں آپ کے حوالے کردیں اور اگر اَڑجائیں تو ایک روپیہ کم کرنے پر بھی آمادہ نہ ہوں۔
پشاور میں شاپنگ کے کچھ اصول سینہ بہ سینہ چلے آتے تھے جن کے مطابق ایک تو شاپنگ کرنے اکیلے نہ جایا جائے، دوسرے اپنا تعارف فوجی افسر کے طور پر نہ کروایا جائے اور تیسرے یہ کہ کسی پشتو بولنے والے افسر کو ضرور اپنے ہمراہ رکھا جائے۔
پہلے دو اصولوں پر عمل کرنا ہمارے لیے چنداں مشکل نہ تھا لیکن تیسرے اصول کے بارے میں ہم ہمیشہ مشکل کا شکار رہے کیونکہ ان دنوں ایم ایس برانچ کی مہربانی سے کوئی پشتو جاننے والا افسر ہماری یونٹ تو کجا پوری ڈیو آرٹلری میں موجودنہ تھا۔
لفٹین پارٹی کی اس مشترکہ پریشانی کا حل نکالنے کے لئے ہمارے ایک سینیئر کو یہ بھاری پتھر چومنے کے لئے تیار کیا گیا۔ موضوف نے یونٹ کنٹین کے ملازم سے پشتو سیکھنے کی ابتداء کی جو کہ پشاور کے ایک نواحی علاقے کا رہنے والا تھا۔ اس کام کی تکمیل کے لئے ایک ماہ کا وقت مقرر کیا گیا۔ مقررہ وقت گزرنے سے کچھ روز پہلے ہی موصوف نے اعلان کیا کہ انہیں پشتوزبان میں مطلوبہ استعداد حاصل ہوچکی ہے۔
یہ بات سن کر ہماری خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ رہا۔ ہم نے ان کی منت سماجت کرکے انہیں ویک اینڈ پر اپنے ہمراہ باڑہ بازار چلنے کے لئے رضامند کرلیا۔ ہمارا شاپنگ پر جانا اس لئے بھی ضروری تھا کہ کچھ روز پہلے ہی گھروالوں کی جانب سے ایک عددٹی وی بھجوانے کی فرمائش موصول ہوچکی تھی۔
بازار میں پہنچ کر ہم نے الیکٹرونکس کی ایک دکان کے سامنے قدم روکے۔
اس مرتبہ مول تول کے ضمن میں ہم چنداں پریشان نہ تھے کیونکہ پشتوزبان کا ایک سکہ بند ماہر ہمارے ہمراہ تھا۔ دکاندار نے مختلف ماڈلوں کے ٹی وی دکھانا شروع کیے جن میں سے ایک ہمیں پسند آگیا۔ بھاؤ تاؤ کا مرحلہ آیا تو موصوف گویا ہوئے: دا ٹی وی ہمیں پسند دے۔ دا کتنے کا دے۔ دا گارنٹی کتنے سال کا دے؟ ان کی اس حیرت انگیز پشتوپر ہم دکاندار کے سامنے تو خاموش رہے لیکن باہر نکل کر اتنا ہنسے کہ آنکھوں سے آنسو امڈ پڑے اور ہمیں دہرے ہوکر ایک ستون کا سہارا لینا پڑا۔
اس دن کے بعد سے ہمیں کسی کو اپنے ہمراہ شاپنگ پر لے جانے کی ضرورت نہیں پڑی کیونکہ پشتو بولنے کا ایک نادر نسخہ اب ہمارے اپنے ہاتھ لگ چکا تھا۔
اس نسخے کے مطابق اردو ہو یا انگریزی اسے پشتو میں ڈھالنے کے لیے ہم ہر فقرے کے شروع میں ’دا‘ اور آخر ’ دے ‘ لگا دیا کرتے تھے۔

Browse More Urdu Adab