Saare Jahan Ka Dard Hamare Jigar Main Hai - Article No. 2622

Saare Jahan Ka Dard Hamare Jigar Main Hai

سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے - تحریر نمبر 2622

ہر مریض کی اپنی الگ کہانی ہوتی ہے پھر دل کرتا ہے کہ یا الٰہی ان کو کون سمجھائے کہ خدمت میں عظمت اور بڑائی ہے

بدھ 4 نومبر 2020

سید عارف نوناری
سکون اور تکلیف دونوں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں ان دونوں کو بڑھانے یا کم کرنے میں انسان کا بھی کردار ہے۔ڈاکٹر یہ فریضہ انجام دیتے ہیں۔ہسپتالوں میں جائیں تو غم اور خوشی کی داستانیں ملتی ہیں۔ہر مریض کی اپنی الگ کہانی ہوتی ہے پھر دل کرتا ہے کہ یا الٰہی ان کو کون سمجھائے کہ خدمت میں عظمت اور بڑائی ہے۔پچھلے دنوں کی بات ہے کہ چھوٹے بھائی کا آپریشن تھا اور سوچا کہ آپریشن خیر و عافیت سے ہو جائے پہلے دن ہی سے ہسپتال کی کڑوی گولیوں نے احساس جگا دیا کہ ایسا ہسپتالوں میں کب سے ہونے لگا‘انسانیت کب سے ختم ہو گئی ہے اور شیطانیت نے ڈیرے جما لئے ہیں۔
پھر خیال آیا کہ ہسپتالوں میں ایسا ہونا کوئی عجوبہ نہیں بلکہ روٹین ورک ہے۔پہلے ہی دن چیخ و پکار کی آوازیں اتنی سنیں جیسے کسی کا بیٹا کھو گیا ہو۔

(جاری ہے)

پانچ بیٹوں کا باپ اس دنیا میں بڑی تکلیف میں رخصت ہو گیا۔ساری رات اسی پریشانی اور غم میں گزری کہ یا الٰہی تیرے بھید نیارے ہیں پھر صبح سویرے دل کو کچھ ایسی ہی خراشیں صاف پیٹ پہنچیں کہ دل رویا اور دو عورتیں جن کی عمریں بھی کچھ اتنی زیادہ نہیں تھیں روتی بین کرتی جا رہی تھیں۔

ان کے عزیز و اقارب ان کوتسلیاں دے رہے تھے اور وہ غم و تکلیف کے آنسو رو رہی تھیں شاید وہ ان کی ماں تھی کہ جس کی مامتا سے وہ محروم ہو گئے تھے۔یہ حالت دیکھ کر ایسا محسوس ہوا جیسا کہ دل نے حرکت کرنا چھوڑ دی ہے بس ہر طرف موت ہی موت نظر آتی تھی اور ایسا لگا کہ یہ موت کا بازار ہے ہر روز کوئی نہ کوئی اس صحت خانہ سے چھٹکارا حاصل کرکے آرام کی نیند سو جاتا ہے اور آرام کی نیند سونے والوں کے عزیز و اقارب عمر بھر کے لئے تکالیف‘رنج و غم کے سمندر میں کھو جاتے ہیں۔
ایسی اموات روز دیکھنے کو ملتیں اور ہر موت کی کوئی نہ کوئی داستان ضرور ہوتی۔
ایسا محسوس ہوتا کہ جیسے سارے جہاں کا درد اس جگہ جمع ہو کر اردگرد بکھر رہا ہے۔رات کے وقت لوگ ایسے سوئے نظر آتے جیسے قیامت کے دن حساب دینے کے لئے مخلوق التجا میں ہو گی اور رب کی مرضی پر فیصلہ ہو گا۔ایک دن تو ایسا شور مچا کہ ہسپتال کے اس کو نہ کے مریض ضرور پریشان ہو گئے کہ پتہ نہیں کیا ظلم ہو گیا ہے کہ جس کی آواز ہسپتال کے اندر وارڈ میں آرہی ہے۔
ہم نیچے باہر سڑک سے چائے پینے کے بعد واپس آرہے تھے وہاں گئے تو معلوم ہوا کہ ایک جوان کی موت ہو گئی ہے۔ہم بھی ان کے غم میں شریک ہوئے۔ہونی کو ان ہونی کون کر سکتا ہے البتہ صبر و شکر کرکے وارڈ میں آگئے۔احساس ہوا کہ زندگی کتنی بڑی نعمت اور بیماری کتنی عذاب ہے۔
بندہ یہاں مریضوں کے علاوہ لواحقین کو دیکھ کر حیران و پریشان ہو جاتا ہے جب بے چارے مجبوری کے مارے ہسپتال کی سیڑھیوں‘ برآمدوں میں‘گرم فرش پر رات گزارنے کے لئے نہ تو سوتے ہیں بلکہ مریض کی طرف دھیان ہوتا ہے۔
ایسا بھی ہوا کہ ایک دن ایک بزرگ کے آپریشن کے بعد ٹانکے کھل گئے تو ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر بجائے اس کے کسی سینئر کو بلوائیں اور بزرگ جو زندگی و موت کی کشمکش میں مبتلا ہے اس کا حل سوچے اس کو مرگ بستر پر پڑا رہنے دیا۔مجھے یقین ہو گیا کہ یہ بابا صبح سے پہلے اس دنیا سے رخصت ہو جائے گا کیونکہ اس کے پیٹ کا اندرونی حصہ ٹانکے ٹوٹنے کی وجہ سے نظر آرہا تھا۔
رات پھر سونا کیا تھا بابا جی کی عمر کی دعائیں مانگتا رہا۔اللہ کا شکر ہے کہ وہ بابا بچ گیا۔شاید اللہ نے اس کے مقدر میں مرنا ابھی لکھا ہی نہیں تھا ورنہ ڈاکٹروں نے اپنی طرف سے کمی نہ کی تھی۔بے چارہ بابا۔پھر یوں ہوا کہ ایک وہاڑی کے ادھیڑ عمر آدمی کا آپریشن ہوا تو بے چارہ اتنا غریب اور بھولا بھالا تھا کہ آپریشن کے لئے میڈیسن لانے کے لئے اس کے پاس پیسے نہیں تھے ناجانے کہاں سے ادھار روپے لئے اور اس کی کسمپرسی کا یہ عالم تھا کہ جاتے وقت وہاڑی تک جانے کے لئے ان دونوں میاں بیوی کے پاس کرایہ تک نہ تھا۔
ان کو میں نے چٹ دی اور بتایا کہ میرے نانا گارڈ ہیں وہ آپ کو گاڑی میں بٹھا کر وہاڑی پہنچا دیں گے لیکن بے چارے اتنے سادہ تھے کہ ان کو یہ بھی یقین نہیں تھا کہ ہم اس چٹ کے ذریعہ وہاڑی پہنچ جائیں گے۔شاید ان کے عزیز لاہور میں تھے کسی وجہ سے وہ ان کے پاس نہیں جانا چاہتے تھے۔جب وہ چلے گئے تو بعد میں ان کو ملنے کے لئے کچھ لوگ آئے شاید یہ وہی لوگ ہوں گے جن سے وہ ناراض تھے۔
احساس ہوا کہ غریبوں کو امداد حکومت کی طرف سے کسی مستحق کو نہیں ملتی۔ترس آتا ہے ایسے لوگوں پر جو جگر سوزاں رکھتے ہیں کہ یا رب تیرے سوا ان کا کوئی والی وارث نہیں۔مجھے اچھی طرح یاد ہے وہ سماں جو برصغیر کی تقسیم کے وقت ہمارے بزرگوں نے دیکھا تھا۔ویسا ہی سماں یہ ہسپتال پیش کر رہے ہیں۔بے چارے مجبوری کے ہاتھوں مارے یہ لوگ ۔ایسا معلوم ہوتا ہے جیسا کہ ساری دنیا کے دکھ یہاں آکر اکٹھے ہو گئے ہیں ہر طرف عجیب سی کیفیت نظر آتی ہے۔
پتہ نہیں کیوں یہ احساس ہوتا ہے کہ کاش ڈاکٹر ہوتے اور انسانیت کی خدمت انسانیت کی طرح کرتے۔چلو کسی سے کچھ دعائیں ہی مل جاتیں۔کسی کا بھلا ہو جاتا لیکن افسوس بھلا نہیں کر سکتے کیونکہ ہم نے میڈیکل نہیں پڑھا۔یہاں یہ بھی خیال آیا کہ صحافت بھی اصل میں ڈاکٹر کے نشتر کا کام دیتا ہے ورنہ آج ہم اس جذبہ میں نہ ہوتے کہ جس جذبہ کے تحت قلم یہ سب کچھ لکھنے پرمجبور کر رہا ہے۔

انسانیت کی تذلیل دیکھی نہیں گئی وگرنہ کون قلم اٹھاتا ہے۔مریضوں کے ساتھ بعض لواحقین کا یہ رویہ درست ہے اور بعض تو اپنے مریض کے علاوہ دوسروں کو فراموش کر دیتے ہیں لیکن دوسرے مریض کا خیال رکھنے کے جذبات رشتوں میں بندھے ہوئے ملتے ہیں۔
ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ہمدردی صرف ان لوگوں میں ہی ہے۔ایک ہی ریل گاڑی کے مسافروں کی طرح دکھ سکھ سانجھا نظر آتا ہے ہر روز کا ساتھ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ازل سے یہ رشتہ قائم ہو۔
مریض آتے ہیں اور اپنے دن پورے کرکے چھوڑ جاتے ہیں۔مریض کے ساتھ رہنے والے بے چارے کوئی کسی جگہ پر بیٹھ کر ناشتہ کر رہا ہوتا ہے اور کوئی کسی جگہ پر بیٹھ کر اور مریض کے رشتہ دار ان کی تیمارداری کے لئے آتے ہیں تو پھر معلوم ہوتا ہے کہ یہ رشتہ دار کس قسم کا ہے اور یہی احساس‘احساس انسانیت ہے ورنہ کون کسی کے لئے اتنی مسافت طے کرتا ہے۔ کوئی مریض کسی علاقے کا اور کوئی کسی علاقہ کا۔بس بے چارے قسمت کے مارے ہسپتال میں شفایابی کے لئے یہاں چند ایام کے لئے ڈیرے جماتے ہیں۔

Browse More Urdu Adab