Sheetan - Article No. 2432

Sheetan

شیطان - تحریر نمبر 2432

ایک دن ایک اداکارہ نے مجھ سے پوچھا:”اس دنیا کی رنگارنگی اور خوبصورتی کس کے وجود سے ہے

جمعرات 20 جون 2019

 ڈاکٹر یونس بٹ
ایک دن ایک اداکارہ نے مجھ سے پوچھا:”اس دنیا کی رنگارنگی اور خوبصورتی کس کے وجود سے ہے؟“ یہ سوال کرکے وہ جواب بن کے سامنے بیٹھ گئی،لیکن جب میں نے کہا شیطان کے دم قدم سے !تو اس نے سر سے لے کر پاؤں تک مجھے یوں دیکھا جیسے میں نے کہہ دیاہو”میری وجہ سے “شیطان سے میرا پہلی بار باقاعدہ تعارف اس دن ہوا جب میری ملاقات اپنے گاؤں کے مولوی صاحب سے ہوئی ،میں نے ان کی کسی بات پر اختلاف کیا تو انہوں نے میرے والد صاحب سے کہا”آپ کا لڑکا بڑا شیطان ہو گیا ہے ۔
“انہوں نے ٹھیک ہی کہا تھا کیونکہ اس دنیا میں پہلی بار اختلاف رائے شیطان ہی نے کیا۔یوں وہ اس دنیا میں جمہوریت کابانی بھی ہے۔
شیطان مرد کے دماغ میں رہتا ہے اور عورت کے دل میں۔ہر آدمی سے پناہ مانگتا ہے اور کئی لوگوں کو وہ پناہ دے بھی دیتا ہے ۔

(جاری ہے)

شیطان اور فرشتے میں یہ فرق ہے کہ شیطان بننے کے لیے فرشتہ ہونا ضروری ہے ۔جہاں تک شیطان کا آدم کو سجدہ نہ کرنے کا تعلق ہے،وہ سب اس کا پبلسٹی سٹنٹ تھا جس کی وجہ سے اسے اتنی شہرت ملی کہ جہاں رحمان کا نا م آتا ہے وہاں اس کا ذکر ضرور ہوتا ہے ۔

ورنہ اس آدم کو تو وہ آج بھی سوسوسجدے کرنے کے لیے تیارہے ۔میں شیطان میں کبھی نہیں گھبرایا لیکن بر اآدمی دیکھ کر ہی ڈر جاتا ہوں کیونکہ شیطان برافرشتہ ہے بر اانسان نہیں۔
میں جب تک بزرگوں اور نیک لوگوں کے پاس رہتا ہوں،اپنا آپ بر ا لگتا ہے کیونکہ جب ان کی روزانہ نیکیوں کی گنتی سنتا ہوں تو خود کو برا سمجھنے لگتا ہوں۔یہ تو بھلا ہو شیطان کا جس کے پاس جا کر مجھ جیسا بھی نیک لگتا ہے ۔
کہتے ہیں شیطان نہ ہوتا تو کوئی برا آدمی نہ ہوتا لیکن میں کہتا ہوں کہ شیطان نہ ہوتا تو کوئی اچھا آدمی نہ ہوتاتا کہ شیطان سے ڈر کر تو سارے نیکیاں کرتے ہیں۔
اس دنیا میں شیطان اکیلا نہیں بلکہ رحمان اکیلا ہے۔جب آدمی اچھا کام کرنے جارہا ہو شیطان ساتھ ہوتا ہے اور جب برا کام کرنے جارہا ہوتو وہ شیطان کے ساتھ ہوتا ہے۔کہتے ہیں لاحول ولا قوة پڑھو تو شیطان غائب ہو جاتا ہے ۔
میرا دوست ”ف“کہتا ہے ”کسی کو غائب کرنا کون سا مشکل کام ہے ،یہ تو میرے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے ۔“ٹھیک کہتا ہے جب وہ بایاں ہاتھ بڑھا کر ادھار مانگتا ہے تو مقابل آنکھ جھپکتے ہی غائب ہو جاتاہے۔
شیطان کائنات کا سب سے پہلا صحافی ہے ،جس نے اللہ تعالیٰ کو یہ خبر دی کہ آدم زمین پر جا کر کیا کیا کرے گا !یہی نہیں وہ پہلا وکیل بھی ہے جس نے آدم کو مشورہ دیا کہ پھل کھا لو پھر کوئی تم سے جنت کا قبضہ نہ لے سکے گا،ہمیشہ کے لیے یہیں رہو گے اور فیس مشورے میں جنت لے لی۔
اپنی غلطی تسلیم کرنا دراصل خود کو انسان مانتا ہے ۔کیونکہ وہ صرف شیطان ہے جس نے آج تک اپنی غلطی تسلیم نہیں کی شاید اسی لیے ہم بھی آج کل اپنی غلطی نہیں مانتے۔
جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے،مگر سچے کے پاؤں تو ہوتے ہیں مگر سر نہیں ہوتا۔اس دنیا کا پہلا سچ شیطان نے بولا جو یہ تھا کہ آدم زمین پر جاکر فساد برپا کرے گا۔کہتے ہیں کہ اکیلے آدمی کے ساتھ دوسرا شیطان ہوتا ہے۔
اسی لیے میں ساتھ ہوں،تو”ف“کہنے لگتا ہے ”وہ خود کو اکیلا محسوس کررہا ہے“
اس دنیا کا پورا نظام شیطان کی وجہ سے چل رہا ہے ،اگر شیطان نہ رہے تو کوئی انسان نہ رہے،سب فرشتے ہو جائیں ،ہمیں انسان رہنے کے لے شیطان چاہیے ،وہ نہ ہوتا تو مولویوں اور واعظوں کے بچے بھوکے مرجاتے کہ یہی تو ان کا ذریعہ روزگارہے۔شیطان نہ ہوتو وہ کس کے خلاف تقریریں کریں یہ سارے حسن کے بازار ،رقص وموسیقی کی محفلیں اسی کے دم قدم سے تو ہیں ،یہی نہیں عبادت گاہیں بھی اسی سے پناہ مانگنے کے لیے ہیں ۔
وہ نہ ہوتا تو کوئی سیاست دان اور شاعرنہ ہوتا عورت کا تو کوئی کام ہی نہ رہ جاتا۔کہتے ہیں عورت زمین پر شیطان کی ایجنٹ ہے ۔یہ ٹھیک لگتا ہے کیونکہ شیطان بھی تو مذکرہی ہے۔
شیطان سب سے اچھا فرشتہ تھا مگر براتب بنا جب وہ بول پڑا،اسی لیے پیدا ہونے والے بچے فرشتے ہوتے ہیں کیونکہ انہیں بولنانہیں آتا اور جونہی وہ بولنے لگتے ہیں ماں باپ کہتے ہیں یہ شیطان ہو گئے ہیں۔

انسان اور جانور میں یہی فرق ہے کہ بندے کے پاس شیطان ہے اور جانوروں کے پاس رحمان تو ہے مگر شیطان نہیں ۔شیطان نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ورنہ تو وہ ایک سماجی جانور ہے ۔جس دن جانوروں کو یہ شعور مل گیا کہ ایک شیطان کی راہ ہے اور ایک رحمان کی۔اپنی مرضی سے جو چاہو چن لو،اسی دن جانور بھی اشرف المخلوقات میں سے ہو جائیں گے”ف“کہتا ہے ۔
”جانور تو سگریٹ بھی نہیں پیتے ،جھوٹ بھی نہیں بولتے ،وہ اشرف المخلوقات کیسے بن سکتے ہیں؟“
اللہ تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ بندوں پر کتابیں اتاریں ،کچھ ادیبوں کی کتابیں پڑھ کر تو لگتا ہے شیطان نے بھی اپنے برگزیدہ بندوں پر کتابیں اتاری ہیں۔شیطان کی عمر کیا ہے ؟وہ بوڑھا ہے یاادھیڑ عمر!میں نہیں جانتا لیکن اتنا پتہ ہے کہ اسے وہ سب پسند ہے جو صرف جوانی میں ہی پسند کیا جا سکتا ہے۔

وہ جگہیں جہاں صرف خدا کو یاد کیا جاتا ہے ،وہ ویگنیں یا بسیں ہیں ۔ورنہ عبادت گاہوں میں تو زیادہ تر شیطان ہی کے بارے میں تلقین ہوتی ہے ۔بڑے بوڑھے بچوں کو ابتداء ہی سے شیطان سے ڈرانا شروع کر دیتے ہیں تاکہ وہ ان کا ادب کرتے رہیں۔
میرا دوست ”ف“کسی اداکارہ کو برتھ ڈے پر بھی برتھ ڈے سوٹ میں دیکھ لے تو شیطان کو برا بھلا کہنے لگتا ہے اور آج کل وہ دن رات شیطان کو برا بھلا کہنے کے مواقع ڈھونڈ تا رہتا ہے ۔
ویسے اگر شیطان نہ ہوتا تو اردو ادب کو بڑا نقصان پہنچتا،ڈاکٹر شفیق الرحمن مزاح نگار کیسے بنتے!
شیطان انسان کا دوست ہے یا دشمن ،اس کا پتہ تو نہیں۔اتنا پتہ ہے کہ دوست اپنی برائی آپ کے نام لگا کر خود بری الذمہ ہو جاتے ہیں جب کہ آپ برائی کرکے شیطان کو برائی الذمہ کرتے ہیں ۔ہمارے ہاں مولوی حضرات ہمیں دنیا میں ہر اس چیز سے منع کرتے ہیں جسے حاصل کرنے کے لیے ہی وہ جنت میں جانا چاہتے ہیں ،حالانکہ جنت اور دنیا کا بڑا فرق ہی یہ ہے کہ جنت میں شیطان نہ ہو گا۔

شیطان کی سب سے بد قسمتی یہ ہے کہ اسے موت نہیں آتی،ورنہ وہ اتنا شیطان نہ ہوتا ۔پہلے اس نے حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ نہ کیا تو شیطان بنا، اب اسے شیطان رہنے کے لیے آدم کو روز سجدہ کرنا پڑتا ہے۔
جس دن انسان نے پہلی بار کسی دوسرے کی دھڑکن سنی اور اس نے چاہا کہ یہ آواز دوسروں کو سنائے تو اس نے ڈھول بنایا۔پچھلے ہفتے میں اپنے گاؤں گیا تو ڈھول کی دھڑکن گاؤں کے سینے میں صاف سنائی دے رہی تھی۔
لوگوں نے ایک پہلوان کو کاندھوں پر اٹھا رکھا تھا اور دنگل جیتنے کی خوشی میں اس کے گلے میں ہار ڈال رہے تھے اور جو یہ دنگل ہارا تھا،سر جھکائے پیچھے پیچھے آرہا تھا۔مجھے عجیب سا لگا کہ کاندھوں پر تو اسے اتھانا چاہیے جس کی وجہ سے سب کو یہ خوشی نصیب ہو ئی۔اگر وہ نہ ہوتا تو جسے سب لوگوں نے کاندھوں پر اٹھا رکھا تھا، کوئی آنکھ اٹھا کر نہ دیکھتا۔آج انسان اشرف المخلوقات ہے ،اسے اگر تمام مخلوقات نے اس رتبے کی وجہ سے کاندھوں پر بٹھایا ہے تو صرف اس لیے کہ شیطان سے دنگل جیتتا رہتا ہے ۔اس لیے شیطان کی سلامتی کی دعا مانگنا چاہیے کیونکہ اس کی سلامتی کی دعا ہماری بلند قامتی کی دعا ہے ۔

Browse More Urdu Adab