Sochain Ya Jayeen Bhar Main - Article No. 2629

Sochain Ya Jayeen Bhar Main

سوچیں یا جائیں بھاڑ میں - تحریر نمبر 2629

دنیا میں مفاد پرستی کا یہ عالم ہے کہ ہر کام کسی نہ کسی مطلب کے حصول کے لئے کیا جاتا ہے

جمعرات 12 نومبر 2020

سید عارف نوناری
دنیا میں مفاد پرستی کا یہ عالم ہے کہ ہر کام کسی نہ کسی مطلب کے حصول کے لئے کیا جاتا ہے مادہ پرستی نے دنیائے اسلام ہی نہیں بلکہ عالمی دنیا کو اتنا گرا دیا ہے کہ یہ سیاست دانوں میں سب سے زیادہ ہے۔کاش کہ معاشرہ میں حرص‘ لالچ‘خود غرضی‘مطلب پرستی جیسے عناصر کا خاتمہ ہو جائے تو معاشرہ میں امن و استقلال پیدا ہو سکتا ہے۔حکومت میں تبدیلی کے تین جمہوری طریقے ہیں۔

عوامی تحریک
تحریک عدم اعتماد
فوج یعنی مارشل لاء
نواز شریف ایک طریقہ آزما کر خاموش ہو گئے ہیں دوسرا طریقہ اپنانے کے لئے کئی ماہ سے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں لیکن ابھی تک کامیاب نہیں ہوئے جبکہ تیسرے طریقے کے امکانات ابھی تک نہیں ہیں۔محترمہ بے نظیر بھٹو کئی دفعہ کہہ چکی ہیں کہ اگر نواز شریف تحریک عدم اعتماد لے آئیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔

(جاری ہے)

کیا نواز شریف حکومت کی تبدیلی میں کامیاب ہو جاتے ہیں یا نہیں۔اس کا پتہ نہیں البتہ اتنا ضرور ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو اپنے پاؤں مضبوط بنانے میں کسی حد تک کامیابی حاصل کر رہی ہیں اور کئی ممالک سے معاشی منصوبوں پر معاہدے اور تعلقات کی بحالی کے لئے اقدامات کر چکی ہیں۔
محترمہ بے نظیر بھٹو ملک کو بحران‘سست روی سے نکال کر بحالی کی طرف لے جانا چاہتی ہیں ملکی رکاوٹیں بین الاقوامی سطح پر ان کے لئے مسائل پیدا کر رہی ہیں‘پھر اپوزیشن کی سوچ میں ذرا بھر بھی تبدیلی نہیں آئی ہے۔
جمہوری حکومت کو کیوں پھلنے پھولنے نہیں دیا جارہا۔کیا جمہوریت پاکستان میں موزوں و مناسب نہیں۔اصل میں ہمارا معاشرہ ایسی ڈگر پر چل رہا ہے کہ جس کو موڑنا مشکل نظر آرہا ہے ہر جگہ آپ کو بدعنوانی‘ اقربا پروری‘رشوت‘میل ملاپ‘تعلقات کی بناء پر افعال سر انجام ہوتے نظر آتے ہیں۔سیاسی مشینری میں اتنے نقائص پیدا ہو گئے ہیں کہ مفاد پرستی کی انتہا ہو چکی ہے۔
محکمہ صحت‘تعلیم‘کچہریاں‘انتظامیہ سب میں ایسے عناصر پیدا ہو گئے ہیں کہ پاکستان کی انہیں کوئی پرواہ نہیں ہے ان کا مقصد صرف اپنے مفادات،معیار زندگی اور صرف اپنے مسائل کا حل تلاش کرنا ہے۔ملکی وسائل کی انہیں کیا‘جائے بھاڑ میں۔ سیاسی الجھاؤ میں ملک ڈوب گیا ہے‘عام آدمی بے چارے کو کیا معلوم کہ کیسے حالات درست ہو سکتے ہیں یہاں یہ عالم ہے کہ تعلیم یافتہ طبقہ بھی ملکی مسائل میں عدم دلچسپی ظاہر کر رہا ہے۔

جب کسی قوم یا ملک کی تقدیر میں تبدیلی آنا ہو تو نوجوان ہی سیاسی‘سماجی یا معاشی تبدیلی کا سبب بنتے ہیں پاکستان میں نوجوان کیوں خاموش ہیں؟اس کی سب سے بڑی وجہ بے روزگاری ہے نوجوان طبقہ خود انفرادی مسائل ومصائب میں معاشی لحاظ سے مبتلا ہے سیاست دان ان کے مسائل کو جان بوجھ کر اس لئے حل نہیں کر رہے ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ اگر ان کا مسئلہ بے روزگاری حل ہو گیا تو پھر ان کی سوچ ہماری طرف آجائے گی لہٰذا سیاست دان ایسی گیم کھیل رہے ہیں اور بے روزگار موثر طبقہ مجبور وبے بس ہے۔
سیاست دانوں کی سوچ کو منفی نظر آتا ہے جہاں سیاسی لوگوں کی غلط روش نے ملک کو کمزور سے کمزور کرکے کنگال کر دیا ہے انسان کی سوچ پاکیزہ ہونی بھی ایک تعمیری خوبی ہوتی ہے تعمیری سوچ کبھی کسی کا نقصان نہیں پہنچاتی۔معاشرہ کس طرف جا رہا ہے اور کیوں جا رہا ہے۔سیاست میں انقلابی تبدیلیوں کی ضرورت شدت سے محسوس کی جا رہی ہے معاشرہ کو سدھارنے والے خود ایسے گڑھے میں گرے ہوئے ہیں جن کو کوئی نکالنے والا نہیں۔
ترقی یافتہ ممالک میں سیاست دانوں نے صرف ملکی مفادات کی خاطر سوچا ہے۔
پاکستان میں غریب کیا کر سکتا ہے اسے تو دو وقت کی روٹی کی فکر لاحق ہوتی ہے اسے کیا پتہ ملک کو کیا کچھ کرنا چاہئے۔کیا ملکی مسائل‘خارجہ پالیسی‘ معیشت اور بے روزگاری کے خاتمہ کے لئے وسائل کو بروئے کار لایا جا سکتا ہے اور کیا ہونا چاہئے یہ فرض صرف تعلیم یافتہ طبقہ کا ہے کہ وہ ملک سے محبت کریں۔
اس کے مسائل کو اپنے مسائل جانیں۔اگرچہ مفاد پرستی نے ایسے ڈیرے ڈال لئے ہیں کہ دکھ اور صدمے کے سوا کچھ نہیں دیکھنے میں آیا ہے کہ پاکستان کی تعمیر کرنے والے اب خود پاکستان کو کمزور کرنے میں مصروف ہیں۔انقلاب کو لانا بہت ضروری ہو گیا ہے بیرونی ممالک میں پاکستان کا وقار‘عظمت اور مقام وہ نہیں رہا جو کہ پہلے ہوا کرتا تھا۔ہر برا فعل اور بدنام کام کرنے میں ملک مشہور ہو چکا ہے۔
دنیا میں جہاں بھی انقلاب آیا اس کی ضرور سیاسی یا سماجی وجوہات تھیں موجودہ حالات اور تقاضوں کے مطابق فلاح بہبود اور اصلاحات کی ضرورت کو شدت سے محسوس کیا جا رہا ہے۔
کسی بھی ملک میں نوجوان ملک کی کریم تصور ہوتے ہیں ممالک کا مستقبل ہمیشہ نوجوانوں سے جڑا ہوتا ہے۔ہمارا نوجوان کیوں باشعور اور ہوش مند نہیں۔اسے کیوں ملکی سوچ نہیں دی جا رہی ہے۔
اصل میں ہمارا معاشرہ ایسی ڈگر پر چل رہا ہے جہاں اسلامی خطوط نہیں ہیں بلکہ غیر مہذب اقوام کی تقلید کی جا رہی ہے ایسی حالت میں نوجوان طبقہ اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کو کیسے سمجھیں۔نوجوان کو ہیروئن‘سمگلنگ‘ افیون کی طرف لگایا جا رہا ہے پھر نوجوان فرائض سے کیوں غفلت نہ برتیں اور انقلاب یا تبدیلی کا کیسے سوچ سکتے ہیں۔
پاکستان میں سیاست عبادت نہیں بلکہ کاروبار کی اسٹیج بن چکا ہے سیاست میں حصہ لینے سے پہلے منافع کا اندازہ لگا لیا جاتا ہے اور دیکھا جاتا ہے کہ شہرت کے علاوہ کاروبار میں اصل سے زائد کیا ملتا ہے۔
جب ملک کے چلانے والوں کی سوچ ایسی ہو پھر عام انسان کی سوچ کیا ہو گی۔ملک کی ڈگر کیا ہو گی۔کون سا راستہ اختیار کیا جائے اب وقت ہے کہ نوجوان طبقہ کو شعور دلانے کے لئے ایک تحریک چلائی جائے تاکہ ہر غلط کام کی راہ میں رکاوٹ ہو اور رکاوٹ صرف نوجوان ہی پیدا کر سکتا ہے انقلاب سے نہ صرف نظام بلکہ مسائل انصاف‘بدعنوانیوں کا خاتمہ‘رشوت‘سفارش‘قتل و غارت یہ سب برے نظام کے برے پہلو ختم ہو کر رہ جاتے ہیں۔سیاسی انقلاب ہی ملک کی بہتری‘استحکام اور مشکلات کا حل ہے کیونکہ سیاست میں گندگی آنے سے ملک گندا ہو گیا ہے۔

Browse More Urdu Adab