Surkh O Sofaid - Article No. 2453

Surkh O Sofaid

سرخ وسفید - تحریر نمبر 2453

مہینہ پندرہ دن پہلے ہم نے ٹماٹروں کو بہت کس مپرسی کے عالم میں دیکھا ہے ۔چھ روپے سیر سے گرے‘تو بیس پیسے کے حساب سے فروخت ہونے لگے۔

عطاالحق قاسمی جمعرات 29 اگست 2019

مہینہ پندرہ دن پہلے ہم نے ٹماٹروں کو بہت کس مپرسی کے عالم میں دیکھا ہے ۔چھ روپے سیر سے گرے‘تو بیس پیسے کے حساب سے فروخت ہونے لگے۔جب یہ چھ روپے سیر تھے‘تو سبزی والے کی دکان میں ڈیکوریشن پیس کے طور پر سجے نظر آتے تھے۔کوئی گاہک آتا تھا‘تو دکاندار بڑی احتیاط سے اس گوہر نایاب کو اٹھاتے تھے اور سونے کی طرح تول کر گاہک کی خدمت میں پیش کرتے تھے‘لیکن جب ان کی قیمت گرتے گرتے بیس پیسے سیر تک جا پہنچی‘تو ہم نے انہیں سڑک کے کنارے ڈھیر دیکھا ۔
آواز لگالگا کر ہنکارے کا گلا بیٹھ جاتا‘تو کسی کا دل پیجتا اور وہ جیب سے دس دس پیسے کے دو سکے نکال کر پھینکتا اور جھولیاں بھر بھر کر گھر لے جاتا۔اس زمانے میں دکاندار بھی سیر کے سوا سیر ہی تو لتے تھے۔
اسی زمانے میں ہم نے ٹماٹروں کے ایک تھوک فروش سے جو انہیں پر چون میں فروخت کرتا تھا ایک روپے میں پانچ سیر ٹماٹر خریدنے کے بعد پوچھا کہ بردار عزیز!تم یہ ٹماٹر اتنے سستے داموں فروخت کیسے کرتے ہو؟ہماری اس بات پر وہ بے طرح ہنسا اور دھوتی کے پلو سے ماتھے کا پسینہ پونچھتے ہوئے بولا”جناب آپ سچ جاننا چاہتے ہیں؟“ہم نے کہا اگر تم سچ سچ بتا دو تو تمہاری مہر بانی ہے‘ورنہ ہم باقی جھوٹوں کا آج تک کیا بگاڑ سکتے ہیں جو تمہارا بگاڑ لیں گے۔

(جاری ہے)

“کہنے لگا ‘تو جی پھر سچی بات یہ ہے کہ ہم آج کل یہ ٹماٹر مفت لا رہے ہیں اور یہ جو آپ سے بیس پیسے وصول کرتے ہیں ‘تو یہ منڈی سے یہاں تک کا کرایہ اورد ل روٹی چلانے کا خرچ ہے۔۔!!“
مگر اب ان باتوں کا تذکرہ فضول ہے‘کیونکہ ٹماٹروں کی قیمت پھر سے بڑھنا شروع ہو گئی ہے ‘چنانچہ یہ سطور لکھتے وقت بیس پیسے سیر تک جا پہنچی ہے اور صورت یہ ہے کہ اب یہ سڑک پر ڈھیر نظر نہیں آتے،بلکہ پھر سے دکانوں پر سج گئے ہیں اور ٹماٹروں ہی کی طرح تلنے لگے ہیں۔
ممکن ہے فروخت کرنے والے بھی منڈی سے مفت ہی لاتے ہوں‘لیکن نئے بجٹ میں چونکہ بار برداری کے اخراجات میں اضافہ کر دیا گیا ہے اس لئے منڈی سے دکان تک پہنچتے پہنچتے ایک سیر ٹماٹر پر اب غالباً ڈیڑھ روپیہ خرچ آنے لگا ہے‘تاہم اسے ہمارا مفروضہ ہی سمجھنا چاہئے‘کیونکہ ہم پر حقیقت حال واضح نہیں ہے۔جب یہ چھ روپے سیر کی ”ثریا“سے بیس پیسے سیر کی ”پاتال“میں گرا اس وقت بھی اس کی وجہ ہماری سمجھ میں نے آئی اور اب یہ بیس پیسے سیر سے ڈیڑھ روپے تک جا پہنچے ہیں ‘تو بھی ہم ان کی وجہ سمجھنے سے معذور ہیں اور صرف ٹماٹروں کی قیمت میں اس زیروبم سے آگاہ ہونے کے لئے اگرہمیں علم معاشیات کے تفصیلی مطالعہ کا مشورہ دیا جائے ‘تو ہم اس سلسلے میں پیشگی معذرت پیش کرتے ہیں۔

قومی بحران کے ان دنوں میں صرف ٹماٹر ہی کی قیمتیں اوپر نیچے نہیں کی جاتی رہیں‘بلکہ انڈے کے سلسلے میں بھی یہی صورت حال دیکھنے میں آئی ہے۔جو انڈہ بارہ آنے میں فروخت ہوتا تھا وہ چار آنے میں فروخت ہوتا رہا اور اب رفتہ رفتہ یہ پھر سے اپنی پرانی قیمت کی طرف لوٹ رہا ہے۔ہم نے ٹماٹرکی طرح انڈے کی قیمت میں بھی اس اتار چڑھاؤ پر زیادہ تر دد کا اظہار نہیں کیا کہ خریدنے والا اپنی قوت خریدا ور بکنے والے کی اوقات سے واقف ہوتا ہے اور اسی کے مطابق دام ادا کرکے سودا چکاتا ہے‘لیکن منڈی میں موجود دیگر اشیائے خوردنی ونا خوردنی کی موجودگی میں صرف سرخ ٹماٹر اور انڈے کی قیمتوں میں اچانک کمی بیشی سے ہمارے ایک پرانے خیال کو تقویت ضرور پہنچتی ہے ۔

دراصل ہر بحران میں ہم نے دیکھا ہے کہ”سرخ “بھی منڈی میں پہنچ گئے ہیں اور ”سفید“ بھی ”لائن حاضر“ہو گئے ہیں ۔اب یہ مختلف عوامل پر منحصر ہے کہ ان کی کیا قیمت لگتی ہے ؟اگر ان کا داؤ چل جائے‘تو موتیوں میں تلتے ہیں ‘ورنہ نالیوں میں رلتے ہیں ۔اس وقت دربار میں ٹماٹر اور انڈے دونوں موجود ہیں ۔جب ٹماٹرکی ضرورت بڑھتی ہے ‘تو ٹما ٹر کی قیمت میں اضافہ ہوجاتا ہے اورجب انڈا ناگزیر ہوتا ہے ‘تو سر کار انڈے کی قیمت بڑھا دیتے ہیں ۔یہ سرخ وسفید گماشتے ہر دورمیں اپنی قیمتوں پر نظر ثانی کراتے ہیں اور پر ابلم یہ ہے کہ ان کی یہی قیمت ہر بار ہمیں اپنی جیب سے ادا کرناپڑتی ہے!

Browse More Urdu Adab