Taleemi Nizam Se Muaffi Mangain - Article No. 2641

Taleemi Nizam Se Muaffi Mangain

تعلیمی نظام سے معافی مانگیں - تحریر نمبر 2641

پاکستان کا نظام تعلیم وقت کے ساتھ ساتھ پستی کی طرف سفر کر رہا ہے

جمعہ 27 نومبر 2020

سید عارف نوناری
پاکستان کا نظام تعلیم وقت کے ساتھ ساتھ پستی کی طرف سفر کر رہا ہے۔پستی کی بہت سی سماجی اور سیاسی وجوہات ہیں۔سیاست اور تعلیم کا آپس میں تعلق بھی ہے اور نہیں بھی ہے اگر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے نظام تعلیم کا موازنہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ یورپ میں تعلیم پیسوں سے نہیں ملتی بلکہ تعمیری اور حقیقی تعلیم سے ہی ملک کا ہر شعبہ ترقی کی طرف گامزن ہے۔
وہاں سکولوں کا سسٹم اور تعلیم کا طریقہ کار پاکستان سے بہت مختلف اور ترقی یافتہ ہے۔یورپ اور ترقی پذیر ممالک کی تعلیم‘سوچ‘شعور اور وطن سے محبت پیدا کرتی ہے پاکستان میں تعلیم کا نام محض ڈگریاں ہیں۔تعلیم میں سیاست کی براہ راست مداخلت اور سیاسی عناصر کے براہ راست عمل ودخل سے تعلیم کاغذی ہو کر رہ گئی ہے۔

(جاری ہے)

تعلیم میں ایسے ہزاروں لاکھوں اساتذہ شامل کر لئے گئے ہیں جو نہ صرف نظام تعلیم بلکہ آئندہ نسل کو تباہی کی طرف لے جانے کا سبب ہیں۔

تمام نا اہل اور سیاسی لوگوں کی محکمہ تعلیم میں بھرتی سے تعلیمی بنیادیں کمزور رہنا شروع ہو گئی ہیں اگر تعلیم میں اس قسم کی مداخلت جاری رہی حکومت نے ایسے اساتذہ کی بھرتی بند نہ کی تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان ہر لحاظ سے تعلیمی پسماندگی کی وجہ سے ہر شعبہ میں پسماندہ ہو جائے۔پاکستان کی سیاسی‘مذہبی‘تعلیمی‘سماجی و اخلاقی پستی کی وجہ بھی تعلیمی ڈھانچہ میں ایسے عناصر کا شامل ہونا ہے جو اخلاقی،تعلیمی پسماندگی اور اہلیت پیدا کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔

سکولوں،کالجوں‘یونیورسٹیوں میں اتنا وقت طلباء کا ضائع کیا جاتا ہے کہ طلباء چھ گھنٹے میں بمشکل دو گھنٹے حصول تعلیم کے لئے دلچسپی لیتے ہیں باقی اوقات کار محض مشاغل میں گزار دیتے ہیں۔فنی تعلیم بھی جدید تقاضوں اور ضروریات کے مطابق نہیں ہے۔پاکستان میں بے روزگاری کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ تعلیم یافتہ ان پڑھ ہیں کیونکہ ڈگری کے مطابق ان میں اہلیت نہیں ہے پھر خوشحالی کی سوچ نہیں۔
طلباء میں ایسی سوچ پیدا کرنا بہت ضروری اور وقت کا تقاضا ہے کہ جس سے ملکی مفادات کی سوچ پیدا ہو اس سے قوم بہتر سے بہتر ہو سکتی ہے۔نظام تعلیم میں نقائص اتنے پرانے ہو گئے ہیں کہ اب ان کی اصلاح کے لئے ایک عرصہ درکار ہے سیاست کو تعلیم سے علیحدہ کرنا ضروری ہے اور نمائندگی پڑھے لکھے طبقہ کو دینا چاہیے۔جاپان‘جرمنی‘برطانیہ‘امریکہ اور چین کی ترقی کا راز ہی صرف تعلیم ہے تعلیم ہی ایسا عنصر ہے جو تبدیلیاں پیدا کرکے انقلاب پیدا کرتا ہے۔
تعلیمی پسماندگی کی ایک وجہ اسلامی نظام تعلیم کا فقدان ہے۔اسلامی تعلیم سے غیروں نے فوائد حاصل کرکے ترقی کی طرف گامزن ہوئے ہیں۔
تعلیمی اسلامی اصولوں کی یورپ نے تقلید وپیروی کی جن کو اسلامی تعلیمی نظام ورثہ میں ملا ہے انہوں نے فراموش کر دیا ہے۔پاکستان کی بقاء اور سلامتی صرف نظام تعلیم میں پائے جانے والے نقائص اور خامیوں کو دور کرنے سے ممکن ہے ایسا نظام تعلیم تشکیل دینے کی ضرورت ہے جو بنی نوع انسان کی اصلاح کرے‘سکولوں میں کلاس لینے اور پڑھانے تک کے طریقہ سے اساتذہ آشنا نہیں ہیں۔
اساتذہ میں تعمیری سوچ پیدا کرنے کے لئے انسٹی ٹیوٹ کا قیام بہت ضروری ہے تاکہ تربیت یافتہ اور باصلاحیت لوگ اس میدان میں آسکیں اساتذہ کے معیار کو بہتر بنانے کے لئے اعلیٰ تعلیم یافتہ ڈگری ہولڈر افراد ہی بھرتی کئے جائیں۔یورپ کا نظام تعلیم اتنا مضبوط اور با رابطہ ہے کہ ناقص تعلیم کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘یہاں داخلے میرٹ پالیسی کو نظر انداز کرکے کئے جاتے ہیں‘پالیسی میکرز خود تعلیمی ڈھانچہ کی درستگی کے لئے تجاویز سے آگاہ نہیں ہوتے‘وزیرتعلیم بلکہ تعلیم کے شعبہ سے واقفیت نہیں رکھے ہوئے ہیں ایسے شخص کو وزیر تعلیم بنا دیا جاتا ہے جس سے تعلیم میں بہتری کی توقع کیسے ممکن ہے۔
تعلیمی نظام میں اقربا پروری‘سفارشیں‘رشتہ داریاں‘تعلقات یہ سب تباہی کا سبب ہیں۔
ملک کی خوشحالی‘ترقی اور تعمیر صرف اور صرف اسی طریقہ سے ممکن ہے کہ ایسی پالیسیاں تشکیل دی جائیں جو وقت کے تقاضوں کے ساتھ ساتھ ملکی ضروریات کے تقاضوں کو بھی پورا کریں۔ایسا کیسے ممکن ہے وہ صرف ایسی صورت میں ممکن ہے جب اوپر ٹھیک ہو تو نیچے تک سسٹم خود بخود ٹھیک اور درست ہو جاتا ہے لیکن ایسا ممکن ہوتا نظر نہیں آرہا‘اب تو پبلک سروس کمیشن پر بھی بھروسہ کرنا ممکن نہیں رہا۔
دھاندلیوں کا بازار یہاں بھی گرم رہتا ہے اور کئی طریقوں سے یہاں بھی ایسی میرٹ کی پالیسی شروع ہو گئی ہے ‘مختلف طریقوں سے پرچوں کو تبدیل کرکے اہل کو نا اہل قرار دے دیا جاتا ہے اور انٹرویو میں اتنی دھاندلیاں ہوتی ہیں کہ عام آدمی ایسے طریقے سوچ کر حیران ہو جاتا ہے۔سسٹم میں ایسے ناجائز طریقے اپنائے جا رہے ہیں کہ یورپ اور ترقی پذیر ممالک کے پالیسی ہولڈر بھی سوچ نہیں سکتے ہیں‘پھر کریم نیچے رہ جاتی ہے اور نا اہلی اوپر براجمان ہو جاتی ہے۔
اس طریقہ سے مسلم تباہی و بربادی کی طرف آہستہ آہستہ سفر کر رہا ہے۔پاکستان کا نظام تعلیم اگر درست ہو جائے تو تمام نظاموں میں درستگی سے معاشرہ درست ہو سکتا ہے۔
طریقہ تعلیم بھی جدید نفسیاتی تقاضوں کے مطابق نہیں ہے طلباء کی نفسیاتی سوچ اور رجحانات کو پاکستان ہمیشہ سے نظر انداز کرتا آرہا ہے۔ بچوں کو صرف حصول تعلیم پر ہی مجبور کرنا درست نہیں بلکہ رجحانات کو پرکھنا بہت ضروری ہے تاکہ ذہنی سوچ کو بچپن سے مدنظر رکھا جا سکے حصول تعلیم کے لئے مثبت اقدامات کئے جانا بھی اہم ہے۔
پاکستان میں خصوصی طور پر ایسے طریقے ہیں جو فرسودہ ہیں جن کا عملی طور پر فائدہ کم ہے۔شہروں میں جدیدت کے باعث معیار تعلیم دیہاتوں کی نسبت قدرے بہتر ہے لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ ستر فیصد دیہاتوں میں تعلیمی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔شعبہ ایجوکیشن پر توجہ اور اصلاح سے ملک کا معاشرتی‘سیاسی‘مذہبی اور ثقافتی ڈھانچہ صحیح سمت اختیار کر سکتا ہے اس سے ملک کی سیاسی،معاشرتی،ثقافتی اور مذہبی بنیادیں مضبوط ہو سکتی ہیں وزارت تعلیم شاید کافی عرصہ سے اس پر توجہ نہیں دے رہی ہے۔
شعبہ تعلیم میں محکمہ کو صرف گریجویٹ‘پوسٹ گریجویٹ اساتذہ کو جدید تربیت کے بعد بھرتی کرنا چاہئے۔
میٹرک پاس اساتذہ طلباء کی نہ تو بنیادیں مضبوط کر پا رہے ہیں اور نہ ہی انہیں صحیح جدید تقاضوں کے مطابق تعلیم دینے کے طریقے آتے ہیں ‘بے شعور اور عالمی حالات سے بے خبر اساتذہ طلباء کو کیسے باشعور بنا سکتے ہیں۔یورپ اور ترقی یافتہ ممالک کا اگر موازنہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہاں شعبہ تعلیم پر بجٹ بھی زیادہ مختص کیا جاتا ہے اور ہر سال شعبہ تعلیم میں اصلاحی اقدامات کئے جاتے ہیں اس طریقہ سے ان کا نظام تعلیم بہتر سے بہتر ہونے کی وجہ سے ملک ترقی کی منازل طے کر چکے ہیں ہر شعبہ زندگی میں ترقی‘خوشحالی‘استحکام صرف اور صرف تعمیری اور باشعور سوچ سے ہے۔
پرائمری ہائی سکولوں‘کالجوں‘یونیورسٹیوں میں تعلیم اور اساتذہ میں اصلاحی اقدامات کو فروغ دیا جا رہا ہے یہاں دیہاتوں میں خصوصی طور پر اساتذہ صرف ماہانہ تنخواہ اور دیہاڑی لگانے کے نقطہ نظر سے جاتے ہیں ان میں قوم کے معماروں کو شعور، احساس اور سوچ دینے کا جذبہ نہیں یعنی عبادت کا جذبہ بھی بہت ضروری ہے۔ان کی اصلاح کے لئے خصوصی ٹریننگ سنٹر ہوں جو کہ ہر چھ ماہ بعد پندرہ یا ایک ماہ کی تربیت دیں وہ تربیت جدید ممالک کے شعبہ تعلیم کی نقل ہو پاکستان میں جتنا بے کار اور پسماندہ شعبہ تعلیم ہے کوئی اور نہیں۔
وزارت تعلیم ایسے افراد کو سونپ دی جاتی ہے جس کو تعلیم کی اصلاح کیا تعلیم کے مقاصد سے آگاہی نہیں ہوتی۔تعلیم میں انقلاب لانے سے ملک میں ہر طرح کا انقلاب ممکن ہے۔حکومتی اور انفرادی اقدامات و اصلاحات مندرجہ ذیل ہو سکتی ہیں۔
نظام تعلیم پر بجٹ فوج کے بعد دوسرے نمبر پر ہو۔
وزراء کو تعلیم میں سیاسی بھرتی بند کرنے کے خصوصی احکامات جاری کئے جائیں۔

نصاب کو جدید تقاضوں اور اسلامی نظریات و خیالات کے مطابق پہلی جماعت سے ایم اے تک تبدیل کیا جائے۔
اساتذہ کے طرز تعلیم اور سوچ کو تبدیل کرکے ملکی سوچ پیداکی جائے۔
پرائمری سکولوں میں کم از کم گریجویٹ اور ہائی سکولوں میں پوسٹ گریجویٹ ٹیچر سے کوئی کم قابلیت نہ رکھتا ہو۔
خصوصی طور پر خواتین کے تناسب تعلیم میں اضافہ کیا جائے تاکہ وہ بچوں کی تربیت اصلاحی نقطہ نظر اور جدید تقاضوں اور سوچوں کے مطابق کر سکیں۔

تعلیم میں خاص کر سیاسی مداخلت‘اقرباپروری‘رشتہ داریاں ختم ہونی چاہئیں تاکہ بلا امتیاز شعبہ تعلیم میں اساتذہ اپنے فرائض سر انجام دیں۔ پرائمری اور ہائی سکولوں کے اساتذہ کا تقرر گھروں کے نزدیک ترین سکولوں میں کیا جائے تاکہ فرائض میں غفلت نہ برتیں۔
پاکستان کے تمام اساتذہ کی اصلاح اور باشعور سوچ دینے کے لئے ملک بھر میں تربیتی ادارے قائم کئے جائیں تاکہ پرانے خیالات اور فرسودہ سوچ کے خاتمہ سے طالبات میں بھی جدید سوچ سے انقلابی ذہن پیدا کئے جا سکتیں۔

امتحانات کا طریقہ سوالات‘پرچہ جات اور مارکنگ کا طریقہ امتحانات میں بدعنوانیوں جیسے عناصر کا خاتمہ ہونا چاہئے۔
اساتذہ کو قانونی سزائیں عدم توجہ‘غفلت اور فرائض میں لاپرواہی برتنے پر دی جائیں اور صرف ان اساتذہ کو بھرتی کیا جائے جو نفسیات ذہنی لحاظ سے تعلیم سے وابستہ رہنے کی صلاحیت اور قوتیں رکھتے ہوں۔
ضلعی سطح پر نظام تعلیم کو چیک کرنے کے لئے سپیشل ایجوکیشن شعبہ ہائے قائم کیا جائے تاکہ اساتذہ پر ضلعی سطح پر نظر رکھی جا سکے۔

ان تجاویز کے علاوہ بہت سی اور خامیاں اور اصلاحات ہیں۔اساتذہ کے طرز زندگی‘طرز گفتگو‘طرز لباس اور دیگر لوازمات کا خصوصی خیال رکھنا اور ہدایات دینا بہت ضروری ہے۔نظام تعلیم پر کسی حکومت نے بھی اصلاحی اقدامات نہ کرکے ملک کو پسماندگی کے گڑھے میں ڈال دیا ہے۔پاکستان میں تعلیم کا تناسب 65 فیصد ہے لیکن یہ تعلیم حقیقی معنوں میں تعمیری تعلیم کا تناسب نہیں بلکہ مثبت اور سچی و حقیقی سوچ یا تعلیم کا تناسب بڑی مشکل سے 30 فیصد ہے۔
یہی وجہ ہے ملک کو صحیح اور وطن پرست حکمران ناقص اور غیر معیاری تعلیم ہونے کی وجہ سے نہیں مل رہے ہیں جیسے حکمران ہوں گے ان کی سوچ کے مطابق ہی پاکستان کے تمام شعبہ جات کام کریں گے ملک بھی اسی رفتار سے ترقی کرے گا۔ کیا ایسا نظام تعلیم ملک کو پسماندگی سے نکال کر ترقی و خوشحالی اور استحکام کی طرف لے جا سکتا ہے کیا کئی سالوں سے ایسی ڈگر پر چلنے والا نظام تبدیل ہو سکتا ہے۔یقینی طور پر اگر پاکستان کے حکمران ملک وقوم سے مخلص ہو جائیں تو ضرور شعبہ تعلیم درست سمت اختیار کر سکتا ہے۔

Browse More Urdu Adab