Aayi Rey Sardi - Qist 1 - Article No. 2513

Aayi Rey Sardi - Qist 1

آئی رے سردی -قسط نمبر 1 - تحریر نمبر 2513

روایتی طور پہ سردی کا آغاز بالعموم دسمبر کے مہینے سے شمار کیا جاتا ہے کیونکہ ہر برس دسمبر کی آمد پہ گرما گرم شاعری اور سرد مغالطوں کی نئی فصل کاشت ہوتی ہے اور ہر بار عاشق دسمبر کی آمد کا جس بیتابی سے انتظار کرتے ہیں

Syed Arif Mustafa سید عارف مصطفیٰ جمعہ 27 دسمبر 2019

سردی کب شروع ہوتی ہے اس بارے میں الگ الگ اندازے ہیں لیکن اس پہ سب کا اتفاق ہے کہ جب لگنا شروع ہوجائے اسی دن سے سردی شروع ہوجاتی ہے ، تاہم روایتی طور پہ سردی کا آغاز بالعموم دسمبر کے مہینے سے شمار کیا جاتا ہے کیونکہ ہر برس دسمبر کی آمد پہ گرما گرم شاعری اور سرد مغالطوں کی نئی فصل کاشت ہوتی ہے اور ہر بار عاشق دسمبر کی آمد کا جس بیتابی سے انتظار کرتے ہیں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے اس بار کے دسمبر میں تو وہ اپنے عشق کی کیاری میں ذاتی خون جگر سے سینچی گئی رومانی فصل کاشت کر ہی لیں گے لیکن پھر ہوتا یوں ہے کہ ان کا عشق سرد موسم کے دو تین ٹھٹھراتے غسل ہی میں کافی ٹھنڈیا جاتا ہے اور پھر وہ سارا خنک موسم کھانستے چھینکتے اور بڑا سا گرم ٹوپا پہنے اسی رقیب کی مونگ پھلیاں ٹھونگتے اور اس روسیاہ سے فرمائش کرکے گرما گرم چکن سوپ پیتے گزار دیتے ہیں۔

(جاری ہے)

یوں مزید عشق کرنے کے لیے وہ بھی سلامت رہتے ہیں اور رقیب کو بھی گزند نہیں پہنچتی۔ کچھ زیادہ ہونہار عاشق اس موسم میں محبوب کے بھائی سے دوستی گانٹھ کے اس کی گلی میں بلکہ عین اس کے گھر کے سامنے اکثر بڑے دھڑلے سے لکڑیاں جمع کرکے الاؤ روشن کرنے میں کامیاب رہتے ہیں ، یوں محبوب کا بھائی ہاتھ تاپتا ہے اور وہ دل تاپتے ہیں اور گاہے آنکھیں سینکتے ہیں۔


سردی کی کونپل چونکہ دسمبر میں سر ابھارتی ہے چنانچہ کچھ خاص قسم کے شعراء کی افزائش کا مہینہ بھی یہی ہے جنہیں ہم دسمبری شاعر کہتے ہیں کیونکہ ان کے کلام کا مرکزی نکتہ سرد دسمبر کا گرم انتظار اور اس کا والہانہ خیرمقدم ہوتا ہے اور یہ دسمبری کلام عام طور پہ تاثیر کے لحاظ سے ٹھنڈے موسم سے بھی کہیں زیادہ ٹھنڈا ہوتا ہے ، اتنا ٹھنڈا کہ اس کی خنکی سے اس کے تمام ردیف اور قافیے اور اوزان وغیرہ بھی ٹھٹھر جاتے ہیں- موسم سرما کی خصوصیات یوں‌ تو بیشمار ہیں لیکن آغا ان میں سے خاص الخاص یہ قرار دیتے ہیں کہ سردی درحقیقت قدرت کی طرف سے کپکپانا سکھانے کا وہ سالانہ ٹریننگ پروگرام ہے جس سے ملازمت اور ازدواجی زندگی ، دونوں ہی کو خوش اسلوبی سے بھگتانے میں بڑی اخلاقی مدد ملتی ہے اور اس سیزن سے حاصل کردہ سبق کےتحت بغلوں میں ہاتھ دبائے رکھنے اور کسی قدر خمیدہ پشت ہوکے چلنے کی عادت پڑجانے سے اور بعد از موسم سرما اس انداز کو معمول بنالینے سے تو دنیاوی درجات کی بلندی تقریباً یقینی ہوجاتی ہے- ہجر و فراق کے رموز پہ گہری نظر رکھنے والوں کے مطابق تکنیکی و فنی لحاظ سے سردی کا موسم ہی درحقیقت سرد آہ بھرنے کا اصل موسم ہے۔
غیرمحتاط اور ناتجربہ کار عاشق گرم مہینوں میں سرد آہ کھیچنے کی کوشش میں اپنی بچی کھچی توانائی اور محبوبہ کا اعتبار کھوتے ہیں۔ سرد موسم میں سرد آہ بھرنے پہ کسی کو اعتراض بھی نہیں ہوسکتا کیونکہ پھر وہ بھاپ بن کے خارج ہوتی ہے اور ارد گرد کے ماحول کے لیے راحت افزا ہوتی ہے- اس بارے میں آغا کی جانفشانی سے کی گئی ریسرچ کے نتائج یہ بتاتے ہیں کہ اگر 10 ہزار عاشق شہر کے کسی ایک حصے میں جمع ہو کر ایسی بھاپ کےاخراج کے لیے کمربستہ ہوجائیں تو اس کی حدت سے شہر میں ٹھنڈ کی شدت میں مناسب کمی لائی جاسکتی ہے۔


جہاں تک پیمائش کا معاملہ ہے تو ویسے تو اس کے لیئے تھرمامیٹر یا کیلون میٹر قسم کے کئی آلات موجود ہیں لیکن سچائی یہ ہے کہ سردی کا احساس ان پیمانوں سے ماورا ہے کیونکہ ماہرین کا یہ کہنا ہے کہ سردی اور بے عزتی کو جتنا محسوس کرو وہ اتنا ہی لگتی ہے ۔۔۔ ویسے کسی بندے کا اختیار تو دونوں ہی پہ نہیں لیکن سردی کے احساس کو ختم کرنے کے لیے گرم کپڑے لادنے پڑتے ہیں اور بے عزتی کے احساس کو ختم کرنے کے لیے دوسروں کے کپڑے بھی اتارنے پڑتے ہیں-۔
آغا کہتے ہیں کہ سردی طاقت کے پیمانوں کو الٹ دینے والے ایک ایسے زمانے کا نام ہے جس میں بھالو جیسے بھاری بھرکم افراد سب سے زیادہ کپکپاتے دکھتے ہیں جبکہ قدرت نے ان کے اندرون میں چربی کے ایک دو کمبل پہلے ہی گردا گرد لپیٹ دیے ہوتے ہیں لیکن پھر بھی وہ سب سے زیادہ سردی کے مارے معلوم ہوتے ہیں۔ان کے برعکس ان چھیچھڑا سی جسامت والوں کو دیکھیے ، کہ اکثر سخت سردی میں دانت پہ دانت جمائے نیلے پڑتے ہونٹوں کو بھینچے ، چھلکا سی ٹی شرٹ پہنے نظرآتے ہیں اور اپنے چند کلو والے منحنی وجود کا سپاٹ سینہ اس حد تک تانے و نکالے ، ادھر سے ادھر لیفٹ رائٹ کرتے پھرتے ہیں کہ گویا : شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کا ۔
۔۔ زیادہ حیرت انگیز معاملہ خواتین کا ہے کیونکہ تاریخ شاہد ہے کہ سردی کے موسم نے ہمیشہ خواتین سے مات کھائی ہے ۔۔ اگر کسی کو یقین نہیں آئے تو ذرا اس موسم میں ہونے والی کسی تقریب میں شرکت کرکے خود دیکھ لے ، جہاں مرد حضرات گرم سوٹوں جیکٹوں اور سوئٹروں کے اندر پناہ گزین ہونے کے باوجود بغلوں میں ہاتھ دبائے اور دانت پہ دانت جمائے کرسیوں اور صوفوں پہ پڑے ٹھٹھرتے پائے جاتے ہیں وہیں یہ نازک اندام مخلوق موسمی حفاظتی اقدام سے بےنیاز ہوکے باریک ریشمی و جاپانی کپڑوں میں ملبوس سینہ تانے مجاہدانہ خروش سے ہر سمت دوڑتی پھرتی دکھائی دیتی ہے۔


بات موسم سرما کی ہورہی ہے تو یہاں اسکے ایک خاص تحائف کا ذکر بھی عین ضروری ہے۔۔۔ اس بات سے آپ کے ذہن میں اگر بھاپ اڑا تے قہوے کافی یا سوپ آرہے ہیں یا پھر گاجر کے کھوئے اور انڈے والے حلوے اور بھاپ اڑاتے سوپ کے جلوے دھیان میں ہیں یا خشک میوہ جات کی فہرست نظر میں ہے تو غلطی پہ آپ بھی نہیں لیکن اپنی نیت اور معدے پہ قابو رکھیے کیونکہ یہاں میری مراد فقط لحاف سے ہے جو کہ سردیوں میں یہ بے تحاشا نیند لانے کا جادوئی اور مجرب آلہ ہے اور اسے اوڑھ کے جو نیند آتی ہے ویسی نیند صرف سرکاری ملازموں کو دفتر میں ہی آ پاتی ہے- آغا اسے ایک ایسی عمل انگیز شے بتاتے ہیں کہ جس کے اوڑھنے سے کبھی کبھی دماغ سے پہلے ضمیر سوجاتا ہے- اب یہ سردی بچاؤ ڈھال محض گاؤں دیہاتوں یا غریب غرباء تک ہی محدود ہو گئی ہے کیونکہ اس کی روئی کئی نسلوں تک ساتھ دیتی ہے اور اس میں کئی بزرگوں کی بسی باس ہمیشہ ان کی یاد دلاتی رہتی ہے اور اسے آئندہ بھی یقینی بنائے رکھنے کے لیے لحاف ترکے اور وراثت میں آگے منتقل ہوتے رہتے ہیں – آغا کے مطابق لحاف خصوصی رومانویت کے حامل ہوتے ہیں کیونکہ ان کی تیاری کا اہم ترین عنصر ڈورے ڈالنے جیسا جذبات انگیز عمل ہے۔
لحافوں کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ بوسیدگی سے بننے والے سوراخوں کو بھنا کے یا سٹپٹا کے دفعتاً بھرا یا چینپا جاسکتا ہے اور کئی بچوں کو اس میں سلاکے شریک حیات سے محبت کے دو میٹھے بول بے خطر بولے جاسکتے ہیں جبکہ کمبل انگریز کی دین ہے اور سراسر انہی کی طرح ناقابلِ اعتبار و بیوفا قسم کی شے ہے – اس میں ایک بار کہیں سے سوراخ ہوجائے تو بڑھتا ہی جاتا ہے اور کئی خوفناک امکانات کے باعث بہت ڈراتا ہے اور زیادہ سہانا وقت دوسرے کے کمبل کی طرف سے ہوشیار اور چوکنا رہنے میں ضائع ہوجاتا ہے – ایک خامی اس میں مزید یہ ہے کہ ذرا بے احتیاطی سے فورا” تنبیہی “کرنٹ بھی مارتا ہے- ایک خرابی البتہ لحاف میں اور بھی ہے اور وہ یہ کہ اگر اسے سردیوں کی سہ پہر میں اوڑھ کے لیٹا جائے تو شام کو اٹھنے نہیں دیتا ، زبردستی اٹھا دیا جائے تو صبح ہونے کا مغالطہ پیدا کردیتا ہے۔
(جاری ہے)۔

Browse More Urdu Columns