Adbi Karobar - Article No. 2412

Adbi Karobar

ادبی کاروبار - تحریر نمبر 2412

جب گرتے پڑتے کسی طرح ہم نے ایم ۔اے پاس کر ہی لیا تو کچھ اور کر گزرنے کی فکر لاحق ہوئی ۔چوں کہ ہم نے اردو ادب میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی تھی

ہفتہ 13 اپریل 2019

 فضلِ حسنین
جب گرتے پڑتے کسی طرح ہم نے ایم ۔اے پاس کر ہی لیا تو کچھ اور کر گزرنے کی فکر لاحق ہوئی ۔چوں کہ ہم نے اردو ادب میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی تھی اس لیے کوئی ادبی کام ہی کرنے کی خواہش کچھ زیادہ غیر فطری نہ تھی۔چنانچہ اس سلسلے میں ہم نے اپنے ایک دوست نما استاد سے مشورہ لینا چاہا۔استاد کا کام چلاؤ تعارف اتنا ہی کافی ہے کہ موصوف نے دنیا دیکھ ہی نہیں رکھی ہے بلکہ کافی ٹھونک بجا کر دیکھی ہے ۔
وسیع المطالعہ ہیں البتہ دورانِ گفتگو جب ترنگ میں آجاتے ہیں تو مقامی زبان کے ایسے فصیح وبلیغ الفاظ کا استعمال بھی کر جاتے ہیں مخاطب ان کے تعلیم یافتہ ہونے میں شک کرنے لگتا ہے ۔
بہر حال ،موصوف نے ہمارا عندیہ سننے کے بعد ہماری جانب اس طرح دیکھا جیسے کوئی ماہر نباض نبض دیکھنے کے بعد مریض کو اس کے جملہ امراض سے آگاہ کرنے کے لیے پوزیشن لیتا ہے ۔

(جاری ہے)

پھر فرمایا”دیکھیے حضرت! آپ پہلی بھول تو یہی کررہے ہیں کہ لکھنے پڑھنے کا دھندا اپنا نے کی سوچ رہے ہیں جب کہ زمانہ ایسا آگیا ہے کہ جس میں قلم اور کتاب جیسی چیزوں کے لیے ذرا بھی گنجائش نہیں رہ گئی ۔خیر،کوئی ادبی کاروبار کرنا ہی ہے تو پھر وہ کام پکڑیے جس کا بازار کچھ چڑھاہو“۔
عرض کیا،”اسی غرض سے تو جناب کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں کہ آپ رہنمائی فرمائیں“۔

ارشاد ہوا”بھئی نقادی کاکام ہی کر سکتے ہو“۔
عرض کیا ”حضور نقادبننے کے لیے تو خاصا علم درکارہے ۔ایم ۔اے تو خیر اساتذہ کے آگ پیچھے گھوم کرکسی طرح نکال لیا لیکن نقاد بننے کے لیے تو بہت پڑھنا پڑے گا۔پھر نقادی سیکھ جانے کے بعد پریکٹس جمنے میں بھی خاصا وقت لگ جاتا ہوگا“۔
استاد نے قدرے ناگواری کے ساتھ ہمیں ٹوکا”برخوردار! ابھی تم بالکل کچے لگتے ہو اس معاملے میں۔
پہلی بات تو یہ جان لوکہ نقادی سیکھی نہیں جاتی ۔پہلے کچھ اور بننے کی کوشش کرتے ہیں لوگ ،مثلاً افسانہ نگار،ناول نگار،ڈرامانگار یا کم ازکم نثری شاعر۔جب کچھ نہیں بن پاتے تو نقاد اپنے آپ بن جاتے ہیں ۔یوں بھی ایم۔اے کرنے کے بعد ادب کا طالب علم جس دن ریسرچ جوائن کرتا ہے ،نقادی کی داغ بیل تو اسی دن پڑجاتی ہے ۔ہاں ،تمھیں کس قسم کا نقاد بننا ہے ،اس پر ذرا دھیان دینا ضروری ہے “۔

دریافت کیا ”کیا نقادی بھی کئی قسم کی ہوتی ہے؟“
فرمایا”لو اور سنو! بھئی صابن ،شیمپووغیرہ کسی لیبل کے بغیر چلا سکتا ہے کوئی؟“
ہم نے ضرورت بھر کو چونکتے ہوئے کہا”حضور ! ادب کا موازنہ صابن اور شیمپو وغیرہ سے کررہے ہیں آپ ؟“
ارشاد ہوا”برخوردار! وہ بھی ایک کاروبار ہے اور یہ بھی ایک دھندا ۔اس لیے کوئی نہ کوئی ٹریڈمارک تو ضروری ہی ہے اور ظاہر ہے جتنے قسم کا ادب ہو گا ،اتنے قسم کی تنقید ہوگی“۔

ہم نے ہمت ہارتے ہوئے کہا ”استاد ! یہ تو خاصا لمبا چکر ہے ۔شاید میں اس میں چل نہ پاؤں گا“۔فرمایا”کوئی کام شروع کرنے سے قبل ہی ہتھیار ڈال دینا بزدلی ہے ۔اور پھر میں تو ہوں ہی تمھارے ساتھ۔موٹے طور پر شروعات کرادوں گا۔چلا لے گئے تو ٹھیک ہے ورنہ اس میں تمھاری کوئی پونچی دوبنے کا خطرہ تو ہے نہیں“۔
”ٹھیک ہے ۔آپ رہنمائی جاری رکھیں“۔
ہم نے پھر کمر کستے ہوئے گزارش کی۔موصوف مصنوعی فلسفیوں کی طرح نظریں خلاء میں لے گئے پھر چند لمحے بعد زمین پراترتے ہوئے بولے”ہاں تو پہلے یہ طے کرلیں کہ تمھیں کون سا ادب پکڑ نا ہے “۔
ہمارے منہ سے نکل گیا”حضور ! ترقی پسندادب کا توخاصازور ہے “۔
تم بیک ڈیٹ میں بولنے لگے ۔استاد نے ٹوکا۔اب اس کا بازار گر چکا ہے ۔پھر بھی ریفرنس کے لیے موٹے طور پر اتنا جان لو کہ اگر تخلیق میں کسان ،مزدور اور انقلاب وغیرہ جیسے الفاظ کا استعمال نہیں ہوا ہے تو تخلیق کتنی ہی معیاری کیوں نہ ہو،وہ ترقی پسند ادب میں تو نہیں سما سکتی ،باقی جہاں جی چاہے جائے۔

ہاں ،ایک بات اور ․․․تخلیق میں تناظر ،ساختیات اور پس ساختیات جیسے بھاری بھر کم الفاظ کا جتنا زیادہ استعمال ہو گا،وہ اتنی ہی معیاری تخلیق گردانی جائے گی۔ادھر کچھ دنوں سے ایک نیا لفط فیشن میں آگیا ہے وہ لفظ ہے مابعد جدلی․․․اچھا چھوڑو! یہ بہت زیادہ گاڑھا ہے ۔جب میں پھنس رہا ہوں تو تم بھلا کیا سنبھال پاؤ گے اسے ۔ استاد نے سانس لینے کی غرض سے توقف کیا تو ہم نے جلدی سے پھر سوال داغ دیا۔
”حضور یہ عملی تنقید کیا ہوتی ہے ؟“فرمایا”میاں ،ان سب جھمیلوں میں مت پڑو۔یہ سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں ۔جیسے کسی چیز کی مارکٹ جب گرنے لگتی ہے تو اسے پروڈکٹ کے نام میں کچھ ادر اِدھر اُدھر کر دیا جاتا ہے تاکہ لوگ مغالطے میں آجائیں کہ یہ کوئی نیا آئٹم ہے ۔بس اتنی سی بات ہے “‘۔ہم نے استاد کے شانہ بہ شانہ چلنے کی کوشش میں اپنی قابلیت بھی جتاڈالی۔
”استاد ادھر جدید ادب کچھ زیادہ زور مارنے لگا ہے ؟“
”تمھارا خیال زیادہ برا نہیں“۔استاد قدرے اطمینان سے بولے۔”لیکن بھیا ایک بات ہے جدید نقاد بننے کے لیے مغربی ادب نہ سہی کم ازکم مغربی ادیبوں کے نام جاننا تو لازمی سمجھو“۔
ہم نے گھبرا کر جلدی سے عرض کیا”لیکن حضور ! مجھے تو ابھی اردو کے بیشتر ادیبوں کے نام ہی نہیں معلوم“۔ارشاد ہوا”کوئی بات نہیں ۔
اردو ادب کے نقاد کے لیے اردو ادیبوں کے نام جاننا اتنا ضروری نہیں جتناکہ مغربی ادیبوں کے نام ۔تم نے انگریزی ادب کے ان دانشوروں کا نام نہیں سنا،جنھوں نے مغربی ادیبوں کے نام کے بل بوتے پر جب ہاتھ میں ڈنڈا اٹھایا تو پھر اردو کے کسی قلمکار کو شاید ہی بخشاہو۔اور اردو کے ادیب ونقاد بھی اس بری طرح احساسِ کمتری کے شکار ہوگئے تھے کہ کسی نے بھول کر بھی ان مغرب زدہ دانشوروں پر لگام لگانے کا خیال تک دل میں نہ آنے دیا․․․․ہاں تو دیکھو بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔
ہم جدید ادب کی بات کررہے تھے ۔توفی الحال کام چلانے کے لیے اتنا سمجھ لوکہ اگر کوئی تخلیق پڑھ چکنے کے بعد معاً غالب کا یہ شعر ذہن میں عود کر آئے کہ:
بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
تو سمجھ لو کہ تخلیق جدید ادب کے لیے کوالیفائی کر جائے گی اور اگر تخلیق پڑھتے وقت یافارغ ہونے کے بعد اس میں کچھ مقصد کی جھلک بھی نظر آجائے تو اس تخلیق کے لیے جدیدادب میں گنجائش مشکل سے نکل پائے گی۔
جدیدادب ،ادب کے لیے ہوتا ہے ،دنیا داری کے لیے تو تمام شعبے ہیں۔ ادب کو بھی اگر دنیاوی مایا جال میں پھنسادیا جائے تو کیا بات ہوئی بھلا؟“ہم نے اس مکڑ جال سے گھبرا کر ایک نیا شوشہ چھوڑ دیا”حضور ! یہ مبصری کیسی رہے گی؟“
”یہ خیال بھی کوئی خاص برا نہیں“استاد نے حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا لیکن اچانک ہمیں کچھ یاد آگیا اور ہم نے تشویش کے ساتھ عرض کیا”اس میں تو یوں موٹی موٹی کتابیں خواہ مخواہ پڑھنا پڑیں گی
؟“
استاد نے معنی خیز تبسم کے ساتھ فرمایا”یہ ایک عام غلط فہمی ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ کتاب پڑھے بغیر تبصرہ کرنا آسان اور سیف ہوتا ہے ۔اگر آپ نے کتاب پڑھ کر تبصرہ کرنے کی حماقت کی تو پھر شاید ہی کوئی قلمکار آپ سے خوش رہ سکے یوں کہ حقیقت بہر حال تلخ ہوتی ہے ،اس لیے محتاط طریقہ یہی ہے کہ صرف شوکیس یعنی گیٹ اپ،کتابت وطباعت تک ہی محدودرہیے۔اندر جھانکنے کی کوشش کی تو پھر مسائل ومصائب سے مفر نہیں․․․․بھئی،کسی کی ایک جنرل قسم کی تعریف میں دو لفظ لکھ دینے میں کچھ چلا نہیں جائے گا اور فی الوقت ادب میں یہ کاروبار ایسا ہے جس میں ہینگ لگے نہ پھٹکری اور رنگ آئے چوکھا۔
اگر آپ فرضی تبصرے میں رواں ہو گئے تو پھر قلمکار آپ کے آگے پیچھے گھومنے لگیں گے اور اگر آپ نے کسی مخصوص صنف پر کچھ دن مشق کرلی تو پھر آپ اس صنف کے سول ایجنٹ ہو جائیں گے اور ہر موقع پر ضرورت مند پھر آپ کی طرف ہی رُخ کریں گے۔
اس حوصلہ افزائی پر ہم خوشی سے جھوم اٹھے اور جلدی سے عرض کیا”حضور ! اس کاروبار میں تو فائدہ یقینی ہے کیونکہ ضخیم سے ضخیم کتابیں مفت ہمارے ہاتھ لگتی رہیں گی،جنھیں ہم اپنے دوست کتب فروش کی مدد سے فروخت کرکے اچھی کمائی کر سکتے ہیں“۔

ارشاد ہوا”آپ تو بالکل کورے نکلے اس معاملے میں ۔میاں ،اگر وہ بکنے لائق کتابیں ہوں تو اتنی فراخدلی سے تبصرے کے لیے کیوں بھیجی جائیں؟مصنف تو کتابیں تبصرے کے لیے بھیج بھیج کر اپنے گھر میں خواہ مخواہ پھنسی جگہ خالی کرتاہے“۔
استاد کی زبانِ مبارک سے یہ کلمات سنتے ہی ہمارا سارا جوش ٹھنڈا پڑ گیا اور ہم تقریباً نارمل ہوتے ہوئے کسی اور کاروبار کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہو گئے ۔

Browse More Urdu Columns