Do Ko Larana - Article No. 2384

Do Ko Larana

دوکولڑانا - تحریر نمبر 2384

دومرغوں یا بٹیروں کو لڑانا شغل ہوسکتا ہےفن نہیں البتہ دوآدمیوں کولڑانا خاص کرجب کہ وہ ہم پیالہ وہم نوالہ ہوں دانت کاٹی روٹی کھاتے ہوں یقینا ًفن ہے۔

ہفتہ 2 مارچ 2019

دومرغوں یا بٹیروں کو لڑانا شغل ہوسکتا ہےفن نہیں البتہ دوآدمیوں کولڑانا خاص کرجب کہ وہ ہم پیالہ وہم نوالہ ہوں دانت کاٹی روٹی کھاتے ہوں یقینا ًفن ہے۔

(جاری ہے)

اس فن کے موجد تو نارومنی ہیں کیوں کہ ان کا پسندیدہ شغل دیوتاؤں اورانسانوں کو آپس میں لڑانا ہےلیکن نارومنی کےعلاوہ ایک اور ہستی کو بھی اس فن کا امام مانا جاسکتا ہےاور وہ ہے بی جمالو۔
یہ وہی جانی پہچانی جمالو ہےجواکثر بھُس میں چنگاری ڈال کرالگ کھڑی ہوجاتی ہےاورجب بھُس میں سےشعلےنکلنےلگتے ہیں تو بغلیں بجاکر اپنی مسرت کا اظہار کرتی ہے۔

اس فن کےلیےبڑے ریاض کی ضرورت ہےجب تک ان تمام حربوں کا غورسےمطالعہ نہ کیا جائےجونارومنی یا بی جمالو دوکو لڑانےمیں استعمال کرتےہیں کوئی شخص اس فن میں مشّاقی حاصل نہیں کرسکتا۔

سب سےپہلا حربہ یہ ہےکہ جن دو اشخاص کو آپس میں لڑانا چاہتےہیں انھیں علیٰحدہ علیٰحدہ یقین دلادیں کہ آپ سےبڑھ کر ان دونوں کا دنیا میں کوئی بہی خواہ نہیں اورآپ جو کہہ رہےہیں بڑے خلوص سےکہہ رہےہیں دوسرا حربہ یہ ہےکہ آپ ان دونوں کی کسی دکھتی ہوئی رگ کوچھیڑنے کی کوشش کریں۔
اس ضمن میں یاد رکھیں کہ ہرشخص کی کوئی نہ کوئی دکھتی ہوئی رگ ضرور ہوتی ہے۔
کسی
کی یہ کہ جس عزت کا وہ مستحق ہےاس سےاسےمحروم رکھا جارہا ہےکسی اورکی یہ کہ اس کےسب احباب احسان فراموش واقع ہوئےہیں اورکسی کی یہ کہ لوگ اس سےبلاوجہ حسد کرتے ہیں۔
تیسرا حربہ یہ ہےکہ جب وہ دونوں لڑنے پر آئیں تو آپ چپکےسےیہ کہہ کرکھسک جائیں کہ آپ کو یک لخت کوئی ضروری کام یاد آگیا ہےاس لیےآپ اجازت چاہتے ہیں۔

عام طور پردیکھا گیا ہےکہ دواشخاص کولڑانےمیں نارومنی یا بی جمالو کا ضرورہاتھ ہوتا ہے۔

مثال کےطور پرگھوش بابواورگپتا بابوایک دفترمیں کلرک ہیں۔ دونوں پکےدوست ہیں یعنی ایک دوسرے پرجان چھڑکتے ہیں۔
اسی دفترمیں بھٹاچاریہ بھی کام کرتا ہے۔جونارومیت کی نمائندگی کرنے میں یدطولےٰرکھتا ہےایک دن بھٹا چاریہ گھوش بابو کےکمرے میں آتا ہے۔
کہتا ہے۔‘‘اپنا سمجھ کے ایک بات کہنا چاہتا ہوں برا تونہیں مانوگے؟’’

‘‘نہیں براماننےکی کیا بات ہےشوق سےکہیۓ۔

’’

‘‘پہلےیہ بتائیےکہ گپتا بابوسےکچھ ناچاقی تو نہیں ہوگئی؟’’

‘‘بالکل نہیں۔

’’

‘‘بڑے تعجب کی بات ہےتوپھرمعاملہ کیا ہے؟’’

‘‘بات کیا ہےذرا کھل کرکہیۓ؟’’

‘‘کچھ نہیں کچھ نہیں میرا خیال ہے مجھے خاموش ہی رہنا چاہئے۔

’’اتنا کہنے کے بعدواقعی بھٹاچاریہ خاموش ہوجاتا ہے۔ ادھرگھوش بابوسوچتا ہےکہ ضرورکوئی بات ہےاس لیےاصرارکرتا ہے۔

‘‘بھٹاچاریہ بھئی بتاؤ نا بات کیا ہے؟’’

‘‘بات ہے بھی اور کچھ بھی نہیں، میرا مطلب ہےکم ازکم گپتا بابو......’’

‘‘ہاں ہاں گپتا بابو۔

’’

‘‘نہیں میں کچھ نہیں کہوں گا۔ اچھا میں چلتا ہوں۔’’

اب گھوش بابو بھٹا چاریہ کو پرماتما کا واسطہ دے کرکہتا ہےکہ اُسےوہ بات ضروربتانا پڑے گی۔

ایک بارانکار کرنےکے بعد بھٹا چاریہ راز دارانہ لہجہ میں کہتا ہے۔
‘‘ذرا
گپتا سے بچ کر رہئے گا وہ آپ کےخلاف صاحب کےکان بھررہا ہے۔
پرسوں میں نےاسےیہ کہتےسنا کہ گھوش بابو ہرروز پندرہ منٹ لیٹ آتا ہےاورکام کرنےکی بجائےسارا دن اخبار پڑھتا رہتا ہےاور ہاں لیکن میراخیال ہے مجھےیہ نہیں کہنا چاہئے۔
’’

‘‘نہیں نہیں رک کیوں گئےاب بتانےلگےہوتوچھپاتےکیوں ہو۔’’

‘‘بھئی تم دونوں میں خواہ مخواہ جھگڑا ہوجائےگا اورمیں جھگڑے کو بالکل پسند نہیں کرتا۔

’’

‘‘نہیں آپ کوضروربتانا پڑے گا۔’’

‘‘بتا تو دیتا ہوں لیکن یاراس سےیونہی جھگڑا نہ مول لےلینا۔

’’

‘‘اچھا وہ بات بتائیے۔’’

‘‘ہاں تو وہ صاحب سےکہہ رہا تھا کہ آئندہ جب گھوش بابولیٹ آیا تو میں آپ کوخبرکروں گا۔

’’

بھٹاچاریہ بھس میں چنگاری رکھکر رخصت ہوتا ہےاورگھوش بابو دل ہی دل میں پیچ وتاب کھانے لگتا ہے کہ یہ گپتا بابو تو دوست کے پردے میں دشمن نکلا۔

اب شامت اعمال سےایک دن گھوش بابودفترکےلئےلیٹ ہوجاتا ہےشاید اسے بس نہیں ملی یا اس کی سائیکل پنکچر ہوگئی ادھرصاحب کو کسی فائل کی جو گھوش بابو کےقبضے میں ہے۔

ضرورت پڑجاتی ہے۔ گھوش بابو کو اپنےکمرے میں نہ پاکرصاحب چپڑاسی سےکہتا ہےکہ جب وہ آئےاُسے صاحب کےکمرے میں حاضر ہونےکےلئےکہا جائے۔

گھوش بابو جب آتا ہےتواسےصاحب سخت سُست کہتےہیں وہ فوراً سمجھ جاتا ہےکہ معاملہ کیا ہےصاحب کےدفتر سےنکل کر وہ سیدھا گپتا کےکمرے میں پہنچتا ہے۔

‘‘آؤ بھئی گھوش بابو۔’’ گپتا مسکرا کرکہتا ہے۔

‘‘رہنے دو یہ بناؤٹی مسکراہٹیں مجھےآج پتہ چلا کہ تم مارِآستین ہو۔

’’

‘‘کیا بات ہےاتنےناراض کیوں ہو رہے ہو؟’’

‘‘ناراض نہ ہوں تواورکیا کروں یہ اچھی شرافت ہےدوست بن کر پیٹھ میں چھرا گھوپنتے ہو۔

’’

‘‘ارے بھئی کس نےچھرا گھونپا ہے۔’’

‘‘مجھےسب معلوم ہےشرم آنی چاہئےتمہیں۔

’’

چنانچہ دونوں میں وہ تو تو میں میں ہوتی ہےکہ دفتر کےتمام کلرک اکٹھےہوجاتےہیں آخرکچھ لوگ بیچ بچاؤکرکےمعاملہ رفع دفع کردیتےہیں۔

جب سب کلرک اپنےکمروں میں چلےجاتےہیں تو بھٹاچاریہ یہ کہتےہوئےسنا جاتا ہےکیا زمانہ آگیا ہےصاحب دوست ہی دوست کےدرپئےآزارہوگیا اب کس پراعتبارکیا جائے۔

یہ توتھا نارومنی کا کارنامہ اب ذرا بی جمالو کی کارستانی ملاحظہ فرمائیے۔

بی جمالوکتھاسن کرمندرسےچلی آرہی ہےکہ راستےمیں اُسکی ملاقات مالتی سےہوتی ہے۔

مالتی کی شادی ہوئےسات آٹھ مہینےہوئےہیں بی جمالومالتی پرایک چھچھلتی ہوئی نظرڈالتےہوئےکہتی ہے۔

‘‘کتنی کمزور ہوگئی ہو تم مالتی۔ پہچانی بھی نہیں جاتیں۔

’’

‘‘نہیں تو۔’’مالتی حیران ہوتےہوئےجواب دیتی ہے۔

‘‘اری نہیں،سچ کہہ رہی ہوں،تمہارا تورنگ روپ ہی جیسےاڑگیا ہےمعلوم ہوتا ہےبہت کام کرنا پڑتا ہے۔

’’

‘‘ہاں کام توکافی کرتی ہوں۔’’

‘‘یہی بات ہےمیں بھی کہوں ہوکیا گیا تمہیں معلوم ہوتا ہےجٹھانی جی خوب کام کرواتی ہیں۔

’’

‘‘بڑی جو ہوئیں۔’’

‘‘بڑےہونےکا یہ مطلب تونہیں کہ خود توسارادن سیرسپاٹا کرے اورتم داسیوں کی طرح کام کرو تم گھر میں کیا آئیں اس کی تو پنشن لگ گئی۔

’’

‘‘نہیں کام کاج میں وہ بھی ہاتھ بٹاتی ہیں۔’’

‘‘وہ کیا ہوا جو ذرا دیرسبزی چھیل دی یا پھل کاٹ دیئےیہ کام تھوڑا ہی ہے۔

’’

‘‘پھربھی بڑی بہوجوٹھہری۔’’

‘‘بڑی بہو ہواکرے لیکن کام اُسےآدھا ضرورکرنا چاہئے۔

تمہارےسیدھے پن کا ناجائزفائدہ اٹھا رہی ہے۔’’

‘‘نہیں یہ بات تونہیں’’

‘‘تم ایک دم مورکھ ہو مالتی اپنا نفع نقصان نہیں سمجھتیں۔

میں نےتوسنا ہےدوکان کا ساراکام بھی تمہاراگھروالا کرتا ہےجیٹھ تمہارا تو موج کرتا ہے۔
موج، کبھی تاش کھیل رہا ہےکبھی شطرنج اور کبھی سنیما دیکھ رہا ہے۔
’’

‘‘گھروں میں ایسا ہی ہوتا ہےماسی۔’’

‘‘لیکن ایسا نہیں ہونا چاہئے۔

آخربرابرکا حصہ دارہےوہ کام کیوں نہ کرےدیکھو میری مانوتو ابھی سےالگ ہوجاؤنہیں توپچھتاؤگی تمہاراجیٹھ اورتمہاری جٹھانی دونوں بڑے چالاک ہیں اورتم دونوں ہوبھولےبھالےشرافت میں مارےجاؤگےدیکھو اپنا سمجھ کرکہہ رہی ہوں ورنہ میری یہ عادت نہیں کہ دوسروں کےپھٹے میں ٹانگ اڑاؤں اچھا رام رام۔
’’

بی جمالو پھوٹ کا بیج بونےکےبعد چلی جاتی ہےکچھ عرصہ کےبعد یہ پھوٹ وہ رنگ لاتی ہےکہ دیورانی اور جٹھانی میں جوتیوں میں دال بٹنےلگتی ہے۔

اب ذرا دیکھئےکہ نارومنی خاوند اوربیوی کوآپس میں کس طرح لڑاتےہیں راجیش اورنیلما ایک دوسرےکوبہت چاہتےہیں لیکن نارومنی کو یہ بات ایک آنکھ نہیں بھاتی،ایک دن راجیش کی غیرحاضری میں نارومنی ایک چھوٹےسےلڑکےکےہاتھ راجیش کےنام ایک خط بھجواتےہیں۔

لڑکا خط نیلما کو دیتا ہےوہ اس سےپوچھتی

Browse More Urdu Columns