Gawaiye - Article No. 2572

Gawaiye

گویئے - تحریر نمبر 2572

ایسا نہ ہو آپ کے نازک دل مہمان مو صوف کی خوفناک آواز کوہوائی حملہ کا سائرن سمجھ کر شادیادھوری چھوڑ کر ہی نہ بھاگ جائیں؟"اس پر طرہ یہ کہ موصوف جو گانا متواتر الاپے جارہے تھے وہ کسی بھی شادی کی تقریب کے لیئے انتہائی مس فٹ تھا۔۔" بُہتا پیار نہ کریں،نئی تے رُل جائیں گا۔۔ ایتھے رُل موئے لکھاں، تُوں وی رُل جائیں گا "

Syed Tansir Hussain سید تنصیر حسین بدھ 27 مئی 2020

 کہتے ہیں کہ رونا اور گانا سب کو آتا ہے؛ اب یہ الگ بات ہے کہ کُچھ گویئوں کا گا نا سا معین کو جھومنے پر مجبور کردیتا ہے جبکہ اپنے تئیں بعض گویئے ایسے بھی ہوتے ہیں جنکے گانا کی آواز کانوں میں پڑتے ہی سامع اپنے کانوں کے پردوں کی بقا کی خاطر دُم دبا کر بھاگ جا تا ہے؛ایسے ہی ایک گویئے کو ایک گھرانے نے اپنے ہاں منعقدہ ہحفلِ موسیقی میں گانے کے لئے بُلایا؛اس پذیرائی پر موصوف خوشی سے پھولے نہیں سمارہے تھے؛سٹیج پر رُونمائی کے بعدانہوں نے کورنش بجاتے ہوئے صاحبِ خانہ سے دریافت کیا ،" فرمایئے!
 صاحب، کون سا گانا سُننا پسند فرمائیں گے ؟ "صاحبِ خانہ نے فرا خدلانہ انداز میں جواب دیا ، " اپنا کوئی سا گانا سُنا دیجئے "گویئے نے ہر بار عاجزی کی شرح بڑھاتے ہوئے اپنی
 عرض متعدد باردُھرائی، "پھر بھی! میراکوئی گانا تو ایساضرور ہوگا جو آپ سب سے پہلے سُننا پسند فرمائیں گے؟بالآخر، اس مُکرر سوال سے اُکتا کرصاحبِ خانہ بلی تھیلے سے باہر لاتے ہو ئے بولے،"اجی !گاناوانا کس کمبخت کو سُننا ہے؟مجھے تو بس مکان ہذاکے دوسرے پورشن پر قابض نہایت ہی لچڑکرائے داروں سے اپنا مکان خالی کرواناہے"سنگرز کی روایتی اورغیر روایتی ،کئی اقسام ہیں غیر روایتی اقسام میں، سب سے زیادہ تعداد میں اور شیطان کی طرح ہر جگہ پائی جانے والی قسم" باتھ روم سنگرز "کی تسلیم کی جاتی ہے۔

(جاری ہے)

 جب ہم زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں زیرِ تعلیم تھے ، تو یونیورسٹی کے فتح ہال میں جا وید عرف جیدی# نامی ہمارے ایک ہوسٹل فیلو ہوا کرتے تھے؛ موصوف پرلے درجے کے باتھ روم سنگر تھے؛ یُوں تو وہ چلتے پھرتے ، سوتے جاگتے حتیٰ کہ کلاس اٹینڈ کرتے ہوئے بھی حسبِ موقعہ کُچھ نہ کُچھ گُن گُناتے رہتے تھے، مگر اُنکے اصل جوہر باتھ روم المعروف بیتاالخلا میں ہی جاکر کُھلتے تھے؛ اسی ہوسٹل میں مقیم ہمارے ایک کلاس فیلواُنکے کے بارے میں اکثریہ دلچپ ریمارکس پاس کیاکرتے تھے ،"لگتا ہے جیدی میاں# بیت الخلا پیشا ب کی بجائے، سات سُروں کے دریا بہانے جاتے ہیں " ہمارے کُچھ شریر ساتھیوں نے گُلوکاری کا ٹھرک پُورا کرنے کے لئے وکھری ٹائپ کی جگہ کے انتخاب پر جیدی میاں# کو مشہو گلوکار ریشماں کے خطاب ، " بُلبلِ صحرا" کے وزن پر "بُلبلِ بیت الخلا"کا خطاب دے رکھا تھا․غیر روایتی گُلوکاروں کی دوسری بکثرت پائی جانے والی قسم "سٹریٹ سنگرز "کی ہوتی ہے جو گلیوں ،محلوں ،شادی بیاہ کی تقریبات ، بسوں اور ویگنوں یا شہر کے مصروف چوکوں پر مجمع لگا کر اپنے فن کے مظاہرے کے ڈھونگ میں دراصل بھیک مانگتی پھرتی ہے؛سٹریٹ سنگنگ کے شعبہ میں غلبہ ان گڈوی والیوں کا ہے جو دن کے اُجالے میں مختلف پُر مسرت تقریبات میں گانے کے ساتھ ،" توبہ تو بہ کرادتی تُوں ظالماں" جیسے لچر گانوں پر پورے عشوہ و ادا سے ڈانس کر کے اُنکی رونق بڑھاتی ہیں اور رات کو اِنہی گانوں کے پریکٹیکل کے لیئے اپنے کسی دیوانے کے بیڈ روم کی زینت بنتی ہیں؛ سٹریٹ سنگرز میں سے اکثر گُلوکاری کے ابجد سے بھی واقف نہ ہونے کی وجہ سے پرلے درجے کے بے سُرے ہوتے ہیں مگر تقریب کے اختتا م تک حاضرین کی جان نہیں چھوڑتے اور انتہائی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بدو بدی ایسی تقریبات کے مدعوین سے داد بھی لیتے ہیں اورنوٹ بھی؛ڈراؤنے خدو خال والا ایسا ہی ایک نام نہاد گلوکار ہمارے ایک دوست کی شادی خانہ آبادی میں کافی دیر سے اپنی بے ہنگم گائیکی سے حاضرین کا ناک میں دم کیئے ہوئے تھا؛ تان لگاتے ہوئے وہ باہر کونکلے ہوئے اپنے اُلوجیسے ڈیلے کچھ اس خوفناک انداز سے مُسلسل نیچے سے اُوپر اوردائیں بائیں گُھماتا تھا کہ اسے دیکھ کر اچھے اچھوں سُور ماؤں کا بھی تراہ نکل رہا تھا؛اسکے باوجود بعض شر کا اُسے گالیاں دینے کی بجائے گاہے بگاہے بیلیں دے رہے تھے۔
۔ 
یہ غیر متوقع ریسپا نس دیکھ کر ہم ان حاتم تایئوں میں سے ایک کے پاس گئے اور اُسکے کان میں سر گوشی کرتے ہُوئے پوچھا، "محترم ! کیا واقعی آپ اس بد نما اور بد نوا گویئے کو بیلیں اِسکے فن کی داد کے طو پردے رہے ہیں"۔۔ موصوف نے مُسکراتے ہوئے میرے کان میں جوابی سر گوشی کرتے ہوئے کہا۔۔ " توبہ کرو جی! میں تو محض اُسکا آج کاانکم ٹارگٹ پورا کر کے اپنی اور دیگر حا ضرین کی موصوف کی سائرن نما آواز سے جلد سے جلد گُلو خلاصی کی خواہش کو پورا کرنے کی خاطر ُاسکی یہاں سے رخصتی کا سامان کرنے کی نیت سے ا ایسا کررہاہوں۔
 ایسا نہ ہو آپ کے نازک دل مہمان مو صوف کی خوفناک آواز کوہوائی حملہ کا سائرن سمجھ کر شادیادھوری چھوڑ کر ہی نہ بھاگ جائیں؟"اس پر طرہ یہ کہ موصوف جو گانا متواتر الاپے جارہے تھے وہ کسی بھی شادی کی تقریب کے لیئے انتہائی مس فٹ تھا۔۔" بُہتا پیار نہ کریں،نئی تے رُل جائیں گا۔۔ ایتھے رُل موئے لکھاں، تُوں وی رُل جائیں گا " ۔۔ ڈھیروں بیلیں وصول کرنے کے بعد بھی جب اُس نے کافی دیر تک بہتاپیار نہ کرنیکی اپنی یہ بے وقت دھمکی نما راگنی جاری رکھی تو دُلہا میاں سے نہ رہا گیا؛ وہ سٹیج سے نیچے اُترے اور خراماں خراماں چلتے ہوئے موصوف کے پاس تشریف لے گئے؛ جیب سے100 روپیہ کا کڑکڑاتا نوٹ نکا لا اور اسے گُلوکار صاحب کی ہتھیلی پر رکھتے ہوئے کہا،"او میاں!کیوں تومیرے ہونیوالے پیار کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑگیا ہے؟پہلے ہی شادی کافی لیٹ ہونے کی وجہ سے میرے لیئے پیار کے مواقع محدود ہیں؛ اوپر سے تونے بہتا پیار نہ کرنے کی نہ ختم ہونے والی " ٹھمری" شروع کرکے میرا تراہ نکال کے رکھ دیا ہے۔
۔ پکڑو یہ نوٹ اور میری اور میرے مہمانوں کی حسِ سماعت پر احسانِ عظیم کرتے ہوئے کہیں اور جاکر سریں بکھیرو! ۔۔گلوکاروں یا گویئوں کے دُوسرے بڑے گروہ کو روایتی یا باقائدہ گُلوکارکا نام دیا جاسکتا ہے روایتی گُلوکاروں میں بھی ٹاواں ٹاو اں بے سُرے گلوکار پائے ۔جاتے ہیں مگراس گروہ میں زیادہ تر وہ نامور کلاسیکل ، نیم کلاسیکل، پلے بیک سنگرز اور مشاق لوک گلوکار ہی اپنا مقام بنا سکتے ہیں جنہیں اپنے کسب میں کمال حاصل ہوتا ہے اور جنکی فنی پُختگی کو جنابِ ایوب خا و ر#نے کچھ اس دلکش اندازسے خراجِ عقیدت پیش کیا ہے: ۔
۔ # سات صُروں کا بہتا دریا تیرے نام ہر سُر میں ہے رنگ دھنک کا تیر ے نام ۔۔ تان سین ،اُستاد بڑے اور چھوٹے غلام علی خان، ملکہء موسیقی روشن آرا بیگم ، استاد نصرت فتح علی خاں، مختلف گھرانوں سے تعلق رکھنے والے استاد امانت علی خان جیسے موسیقی کے نامو اُستاد، پٹھانے خان، اُستاد جمن ،عالم لوہار، طفیل نیازی ، ثُریا مُلتانی کر اور عطااللہ خان جیسے کہنہ مشق لوک گلوکار؛مکیش، محمد رفیع، لتا منگیشکر، زبیدہ خانم، نسیم بیگم، رونا لیلیٰ ، ناہید اختر ، مھناز، مسود رانا ا، حمد رُشدی ، اخلاق احمد ، شہنشاہِ غزل مہدی حسن،اور سب سے بڑہ کر ملکہء ترنم نور جہاں جیسے پلے بیک سنگرز ؛غرض، ان گنت فنکار ایسے ہیں جو اس گُلدستہ کی زینت بن سکتے ہیں؛ سب ایک سے بڑھ کر ایک ہیں مگر نور جہاں نور جہاں ہے جسکا متبادل آج تک تو موسیقی کی دُنیا پیدا نہیں کرسکی ہے؛ ما دام کے بے شمار سُریلے گیت آج کے دور
 کے بہت سے نو خیز گلوکاروں کے تعارف کا وسیلہ بن کر اُنکے رزق کا سامان کر رہے ہیں جس سے مادام کے گیتوں کے زبان زدِ عام ہوجانے کی پیشین گوئی کرنے والے برسوں پہلے کے اُنہیں کے اس نغمے کی حقانیت پر مہرِ تصدیق ثبت ہوجاتی ہے:۔
۔ گائے گی دُنیا گیت میرے ۔۔ سُریلے اَنگ میں نرالے رنگ میں۔۔ بھرے ہیں ار مانوں میں!۔۔۔
 سینکڑوں راگوں اور راگنیوں پر مکمل دسترس حاصل کرنے کی متْقاضی کلا سیکل موسیقی و گُلوکاری بہت اعلیٰ پائے کا فن ہے مگر سُر اورلے سے عدم واقفیت کی بنا پر نئی نسل میں اس انمول فن کے قدر دان بہت کم ہیں جسکی وجہ سے آج کے دور میں کلاسیکل موسیقی و گُلوکاری اپنے جائز مقام سے محروم ہوچُکی ہے۔
۔
بعض نام نہاد گلوکار سامعین پر راگ اوراگنیوں اور کلاسیکل موسیقی پر اپنی گرفت کی دھو نس جمانے کے لئے، کلاسیکل موسیقی کے استادوں کے انداز میں گانے کی کی بھونڈی کوشش میں کچھ اس طرح سے سُر لگاتے ہیں کہ سننے والے کو محسوس ہوتا ہے کہ یا تو گلوکار صاحب کو کسی شے نے کاٹ کھایا ہے یا اُسکا پاؤں کسی ناہنجار کے بھاری بوٹ کے نیچے دب گیا ہے؛ ٹھمری کلاسیکل موسیقی کی وہ صنف ہے جس میں فنکار ایک ہی مصرع کو مختلف انداز سے اس مہارت اور دلکش سروں کے ساتھ سے بار بار الاپتے ہیں کہ تکرار کے باوجود ایک لمحے کو سامعین کی دلچسپی کم نہیں ہوتی؛فنِ موسیقی کی ایک اور صنف قوالی سے وابسطہ فنکار بھی ٹھمری کے سے اندازمیں حمد، نعتیں، منقبت اور عارفانہ کلام کمال مہارت سے گاکر سامعین پر وجد طاری کر دیتے ہیں مگر اُنکی بھونڈی نقالی کرنے والے بہت سے بے سُرے اور اناڑی قوال عشقیہ غزل کے عامیانہ مصرعوں کو اسی صنف میں بے ڈھنگے طریقہ سے گا نے کی ناکام کوشش کرکے کر سامعین کو باسیاں لینے پر مجبور کر دیتے ہیں؛ کلامِ اقبال# تو اکثر․بے جاتکرار کے چمپیئن ، ان قوال نما گلوکاروں کا خاص مشق ستم بنتا رہتاہے جس کی طرف مرحوم ضمیر جعفری# نے کچھ اس ظریفانہ پیرائے میں اشارہ فرمایا ہے:۔
۔۔۔ ۔ # تال دے کر جب کلامِ حضرتِ اقبال# دیں شعر کیا ہر لفظ کی چوکھٹ پر چوکی ڈال دیں 
 شعردیں ، پھر پرچہء ترکیبِ استعمال دیں کافیوں کو دور تک کھینچیں ،ردیفیں ٹال دیں 
 فلسفہ تھا سرنِگُوں، مفہوم خستہ حال تھا
شعر بچ نکلا تو یہ اقبال # کا اقبال تھا۔۔۔ بُلھے شاہ اور اُن جیسے اور بھی بہت سے اکابرین کا عارفانہ کلام بھی اکثر ان نام نہاد قوالوں کے ہاتھوں قیمہ بنتا رہتا ہے؛ ایک محفلِ زکر و نعت میں،قوالوں کی اسی قسم کی ایک ٹولی با با بُلھے شاہ کاکلام گا گاکر عقیدت مندوں کے دلوں کو منور کرنے کی جُستجُو میں جُتی ہوئی تھی۔
۔ "بُلھے شاہ نوں سدو۔۔ بلھے شاہ نوں سدو۔۔ سدو ! سدو ! سدو۔۔ بُلھے شاہ نوں سدو! سدو! " ۔۔بہت د یر تک اُنکی سوئی اِسی مصرعہ پر اٹکی ر ہی جس پر مجمع میں سے ،اِس طویل اور بے تُکی تکرارسے اُکتائے ہوئے ایک عقیدت مند نے اِ ِسی لے (Tone )میں باآوازِ بُلنددُھائی دی۔۔"اوہ نہیں آندے۔۔ تُسیں اگے ودھو ۔!" ان قوالوں کے بار بار پُکارنے پرتو بُلھے شاہ آئے نہیں مگر اگر عجیب و غریب ہیت اور مغرب کی اندھی تقلید کے رسیا وکھری ٹائپ کے اُن گُلوکا ر روں کو کہ جنکو عُرف ِ عام میں پاپ یا ڈسکو گُلو کار کہا جاتا ہے،گلے پھاڑ پھاڑ کر اپنا کلا م کے اِس بھیانک انداز"۔
۔ بُلیا آ آ آ۔ آآ ۔ آآآ ۔آ۔"سے حصے بخرے کرتے دیکھ لیں تو غالب امکان ہے کہ وہ یہ کہتے ہوئے اپنی آخری آرام گاہ سے نکل کر اِ ِنکے سامنے آنے پر مجبور ہوجائیں گے، "میرے کلام نُوں بخشو!۔۔ تُسی ایتھوں نسو ! " یہی ہیں نوجوان نسل میں مقبول ہونے کے دعویدار ، عہدِ نو کی پیداوا ،وہ پاپ یا ڈسکو گُلوکار،جو گاتے کم اور دھماکے زیادہ کرتے ہیں؛ نامور مزاحیئہ شاعر انور مسعود# کا یہ قطعہ انکی طرزِ گُلوکاری کے نمایاں خدودو خالِ کی کیا بھر پُور عکاسی کرتا ہے؛۔
۔۔ ۔۔۔
 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ # گویئوں کے یہ وحشت ناک جتھے جو چِلاتے ہیں، گانے کی بجائے 
 دھماکے ہیں یا موسیقی ہے یارو ہمیں اس پاپ سے اللہ بچائے! ۔۔۔ لگتا ہے ، دھوئیں کے غلاف میں لپٹے ہوئے سٹیج پرکسی
 ایسے ہی گلوکار یا بینڈ کو گُلوکاری کی آڑ میں دھما چوکڑی مچاتے دیکھ کر ہی میر# یہ سوال پُوچھنے پر مجبور ہوئے ہونگے ۔۔" دیکھ تو دل کہ جاں سے اُٹھتا ہے یہ دُھواں سا کہاں سے
 اُٹھتا ہی"میرصاحب! حیران نہ ہوں!یہ دُھواں سات سُروں کو ان بے سروں کے ہاتھوں سِر نگوں ہوتا دیکھ کر موسیقی کی سمجھ رکھنے والے شائقین کے سُلگتے دلوں سے اُٹھتاہے․۔
۔
 جسطرح کلاسیکل اور نیم کلاسیکل موسیقی میں نام کمانے کے لئے سُر اور لے پر دسترس حاصل کر نا ضروری ہے اسی طرح جدت کے نام پر گُلوکاری کی دُنیا میں وارد ہونیوالی۔ اس بدعت میں کامیابی کے لئے عجیب وغریب ہیئت اختیار کرنا، غیر مروجہ لباس پہننا اور زُلفوں سے انتہا پسندوں کا سا سلوک کرکے انہیں پریشان کیئے رکھناضروری سمجھا جاتا ہے؛
 دھبے دار جینز اور پُھولدار زنانہ ڈیزائن والی شرٹ پہنے اور ڈراؤنے سیاہ شیشوں والے چشمے لگائے نئی نسل کے پسندیدہ یہ گُلوکاریا تو "داڑھی مُونچھوں کا سب صفایا ہے ، فارغ
 البال اِسکو کہتے ہیں" کی عملی تفسیر بنے ہرطرف سے اور ہر جگہ کی کلین شیوء کرائے ہوتے ہیں یا پھربالوں کو شُترِ بے مہار کی طرح کھلا چھوڑ کرصنفِ نازک کے گیسُوؤں کے ہم پلہ بنا کر روشن خیالوں کی روح کو تسکین پہنچانے کے اسباب کرتے دیکھے جا تے ہیں؛
 کُچھ عرصہ قبل پاکستان میں پاپ سنگنگ کے پائیئرز میں سے ایک، جناب اے․ نیئر مرحوم نے ایک ٹی․ وی شو میں آج کے پاپ سنگرز کے بارے میں یہ دلچسپ ریمارکس دیئے تھے،"پاکستان میں پاپ سنگنگ ہم نے ہی شروع کی تھی۔
مگر ہمیں کیا پتہ تھا کہ آگے چل کر یہ لوگ ٹانگوں سے ہی گانا شُروع کردینگے " اعضا کی نہ ٹتھمنے والے بے تُکی حرکات کے ساتھ کسی پاپ سنگر کو گاتا دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے موصوف کی شرٹ میں بھڑ گُھس گئی ہے یا اُسکے پاجامے میں دخیل کوئی مینڈک پُھدکڑیاں مار مار کر گُلوکار صاحب کو بھی اپنی پیروی کرنے پر پر مجبُورکیئے ہُوئے ہے ؛ کلاسیکل ، ہلکی پُھلکی اور لوک گیتوں میں ہمیشہ غالب اور نمایاں آوازگُلوکار یا گویئے کی ہوتی ہے مگر اسکے برعکس پاپ یا ڈسکو موسیقی میں آر کسٹرا خصوصاً ڈرم کی کانوں کے پردے شکن آواز کاراج ہوتا ہے ؛ درمیان میں کبھی کبھار گُلوکا ر
( سنگر )ر کی آواز یا بینڈ کی اجتمائی ہُو ہکار بھی سُنائی دے ہی جاتی ہے؛ لہذا، پاپ یا ڈسکو کی دُنیا میں بے سُرا ہونا سرے سے مسلئہ ہی نہیں ہوتا ہے؛بلکہ دیکھا گیا ہے کہ اس شعبہ میں
 کوئی سُریلا گُلوکاراگرغلطی سے قسمت آزمائی کر بھی لے، تو وہ کھلنڈرے شائقین کے دلوں پر شاز ہی اپنے فن کا جادُو جگا پاتاہے؛گانا سُننے کی چیز ہے؛ اچھا گانا وہ ہوتا ہے جو
 کانوں کو بھلا لگے اور جسے شائقین سے سندِ مقبولیت حاصل کرنے یا متعارف ہونے کے لئے سیکس کے گرم مسالہ سے لبریز کسی بے ہودہ وڈیو کی حاجت نہ ہو؛
آج کی موسیقی اور سنگنگ کی دُنیاپر وڈیوز کے بل بوتے پر کامیابی حاصل کرنے والی پاپ یا ڈسکو موسیقی و گُلوکاری کے غلبہ نے میوزک لائبریریز میں پڑے گانوں کے سٹاک کو " سُننے والے"اور "دیکھنے والے"گانوں میں تقسیم کر کے رکھ دیا ہے؛دیکھنے والے گانوں میں گانے کا تو بس بہانہ ہی ہوتاہے ۔
۔ ایسے گانوں کے رسیا لوگوں کی آنکھیں اُنکی وڈیو ز میں جلوہ فرماہیرو ہیروئنز کی شرافت شکن اداؤں میں ڈوبی ہوتی ہیں جبکہ اس دوران اُنکے دل ودماغ اپنے دلپسند فنکاروں کی ان اداؤں کے پریکٹیکل کرنے کی تمناؤں میں اُلجھے ہوتے ہیں " وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ، دیکھنے والے والے گانوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے؛ حد تو یہ ہے کہ اس منفی رجحان کے سامنے سر نگوں کرتے ہوئے بعض لوک فنکاروں نے بھی اپنے گانوں کی ایسی ہی وڈیو جاری کرنا شروع کردی ہیں جن میں اپنے ساتھ" ملنگ"کالیبل چسپاں کرنے والے نام نہاد لوک فنکار نمایاں ہیں؛ اپنے سروائیول کے لیئے چند
 نامور کلاسیکل فنکاروں کے نونہال بھی کلاسیکل اور نیم کلاسیکل موسیقی پر ڈسکو موسیقی کی پیوندکاری کرکے ٹیمز میں نظارہء موجِ فرات برپا کرنے کی سعیء لاحاصل میں جُتے ہوئے
 ہیں․ موسیقی کے نام پر فحاشی کو فروغ دینے کا یہ منفی رجحان اگر جاری رہا تو پھر دلوں میں اُتر جانے والی لوک ، کلاسیکل اور نیم کلاسیکل موسیقی کے مستقبل کے لئے بس دُعا ہی کی جاسکتی ہے․ اس تلخ حقیقت کے بارے میں دو آرا نہیں ہو سکتیں کہ موسیقی کے جدید ترین آلات اور اعلیٰ ترین تکنیک کے استعمال کے باجود آج فنِ موسیقی و گُلوکاری تیزی سے روبہء زوال ہے؛پیرانہ سال یا اس دُنیا سے کُوخیر باد کہ جانیوالے اپنے دور کے جنئیس اور لیجنڈ موسیقارروں ، گُلوکاروں او موسیقی سے وابسطہ دیگر فنکاروں کا نعم البدل تلاش کر نا ہمارے
لئے جوئے شیر لانے کے مترادف بنتاجارہاہے؛ اِسکی وجہ یہ ہے کہ ہر شعبئہ زندگی کی طرح ، ماضی میں موسیقی سے وابسطہ بیشتر افرادنے اپنے شوق اور فنی صلاحیت کی وجہ سے اس شُعبہ میں اپنا اپنا مقام بنا یااور ہمیشہ ہمیشہ کیلئے امر ہوگئے؛ وہ اپنے کام سے عشق کرتے تھے اور اپنے کسب میں کمال حاصل کرنا اُنکا جنون تھا؛ اُنہوں نے پیسے کی چمک دمک سے مُتاثر ہوکر موسیقی کی دُنیا میں قدم رنجہ نہیں فرمایا تھا؛جبکہ دیگر شعبہ ہائے زندگی کی طرح آج کی موسیقی کی دُنیا پر بھی ٹیلنٹ سے محروم ان نو دولتیئوں کاکا قبضہ ہوچکا ہے جو دولت کا ہتھیار
 استعمال کرکے ہر اس شعبہ زندگی یا شے کو اپنے چُنگل میں لے کر اپنی دیرینہ بے ہُنری اور اناری پن سے اُسکا ناس مار کر رکھ دینا اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں ،جسکی افادیت مسلمہ
 ہوتی ہے یا جسکو عامتہ الناس پسند کرتے ہوں ؛ کسی نے سچ ہی کہا،" جسکا کام اُسی کو ساجھے، اور کرے تو ٹھینگا باجے "لُطف کی بات تو یہ ہے کہ موسیقی کی دُنیا میں اُمڈ آنے والے
 دولت کے سیلاب کی رومیں بہ کر ایسے ایسے خاندانوں کے چشم و چراغ بھی بحرِ موسیقی میں غوطہ زن ہوچُکے ہیں جو ماضی میں گویئوں، موسیقاروں اور فنِ موسیقی سے وابسطہ دیگر فنکاروں کو "مراثی"کہ کہ کر ان پر طنز کے نشتر چلایا کرتے تھے۔
۔ ع ۔۔بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے؟ پانی کے بُلبلے کی سی بقا کی حامل جدید موسیقی کا اولین نقص ہی یہی ہے کہ
 دولت کی بیساکھیوں کے بغیر اس میں کامیابی ناممکن سمجھی جاتی ہے جبکہ صدیوں تک دلوں پر راج کرنے کی صلاحیت سے مالا مال، خطہء مشرق کی دیر پا موسیقی میں ٹیلنٹ ، شوق اور محنت ہی کامیابی کی ضمانت ہے؛ آئیے! آج ہی سے آخری سانس لیتی اپنی فلم انڈسٹر میں نئی رُوح پُھوکنے اور ا ُسکی توانائی کو قائم و دائم رکھنے کے لئے ٹانک کا کام دینے والی مشرقی موسیقی کو پھر سے فروغ دینے کے لئے ، باصلاحیت فنکاروں کی تلاش اور اُنہیں ہر طرح کی ضروری سہولت بہم پہنچانے کی منزل کی طرف اپنے سفر کا آغاز کریں!

Browse More Urdu Columns