Ghee Shakar Aur Makhan Lagana - Article No. 2375

Ghee Shakar Aur Makhan Lagana

گھی شکر اور مکھن لگانا - تحریر نمبر 2375

مکھن کھانا پہلوانوں کی مرغوب غذا جبکہ مکھن لگانا سرکاری ملازمین کا پسندیدہ شغل ہے۔پہلوانوں کو بھوک نہ بھی لگی ہو ،دل نا بھی چاہ رہا ہو مکھن دیکھتے ہی جی للچانا شروع کر دیتا ہے

Murad Ali Shahid مراد علی شاہد پیر 18 فروری 2019

لسی،مکھن اور گھی شکر کا پنجاب میں اتنا ہی احترام کیا جاتا ہے جتنا کہ ہندو دھرم میں گاؤ ماتا یا دھرتی ماتا کا کیا جاتا ہے،ہمارے ہاں مکھن کھانے اور” لگانے“کے علاوہ دیہی علاقوں میں بچوں کا نام بھی” مکھن “رکھنے کے کام آتاہے۔مکھن نام رکھنے سے شادی سے قبل تو کوئی مسئلہ درپیش نہیں آتا مگر شادی کے بعد یہ نام اس لئے مسئلہ کا باعث بن جاتا کہ ہمارے ہاں اکثر خواتین اپنے خاوند کو نام سے نہیں پکارتیں،چونکہ ہمارے ہاں دیہی اور سیدھی سادھی خواتین براہ راست خاوند کا نام لینا معیوب خیال کرتیں ہیں تو کبھی لسی میں مکھن کو دیکھ لیتیں تو نام لینے کی بجائے کہتی ہیں کہ دیکھو لسی میں مُنے کے ابا(مکھن) تیر رہے ہیں۔
یا لسی میں سے گڑیا کے ابو(مکھن) کو نکال کر گرم گرم روٹی پر رکھ کے دیتی ہوں،یا پھر گڈو کے ابا(مکھن) کو سالن میں ڈال کر کھانے سے بچے صحت مند رہتے ہیں،اور اگر حاملہ خواتین ننھی کے ابا(مکھن) کو کھائیں تو بچہ توانا اور گورا چٹا پیدا ہوتا ہے،اسی لئے آج بھی پنجاب کے دیہی علاقوں میں شادی بیاہ پر مکھن یا گھی شکر کے چمچ دولھا کوکھلانا نیک شگن سمجھا جاتا ہے کہ اس سے دولھا دلھن کی زندگی میں مٹھاس اور بچے گورے چٹے پیدا ہوتے ہیں۔

(جاری ہے)

وہ تو شادی کے پہلے سال ہی پتہ چل جاتا ہے کہ گھی شکر دولھا کو نہیں دلہن کو کھلانے کی ضرورت تھی۔
پنجاب میں صحت مند اور گورے چٹے بچوں کے نام ”مکھن“رکھنا اس بات کی دلیل سمجھی جاتی ہے کہ پراڈکٹ کے مالک(میاں بیوی)دو آتشہ ہونگے،یعنی جیسی کوکو ویسے ہی کوکو کے بچے۔مکھن کھانا پہلوانوں کی مرغوب غذا جبکہ مکھن لگانا سرکاری ملازمین کا پسندیدہ شغل ہے۔
پہلوانوں کو بھوک نہ بھی لگی ہو ،دل نا بھی چاہ رہا ہو مکھن دیکھتے ہی جی للچانا شروع کر دیتا ہے ،ایسے ہی آفسز میں باس کا دل نہ بھی چاہ رہا ہو،سرکاری ملازم کی باس کو دیکھتے ہی مکھن لگانے کے لئے زبان للچانا شروع ہو جاتی ہے۔آپ کہہ سکتے ہیں کہ مکھن کھانا پنجابیوں کی شان جبکہ مکھن لگانا پاکستانیوں کا قومی شعار بنتا جا رہا۔
سرکاری دفاتر میں مکھن لگانے کا کلچر جس تیزی سے فروغ پا رہا ہے لگتا ہے کہ لیبر پالیسی اور تعلیمی پالیسی کی طرح مکھن پالیسی کو بھی حکومت وقت کو باقاعدہ متعارف کروانا پڑ جائے گا۔
جس میں سرکاری ملازمین کومکھن لگانے کے طریقے،اسباب اور نتائج سے آگاہی فراہم کی جائے گی تاکہ اس بات کی سند رہے کہ دفتر میں سب اچھا چل رہا ہے۔کبھی کبھار تو دفتر میں سب اچھا چلانے کے لئے صاحب کے ساتھ ساتھ بیگم صاحبہ کو بھی مکھن لگانا پڑتا ہے ،بیگم کو ”مکھن زدہ“ کرنے کا ادراک، صاحب کو اس وقت ہوتا ہے جب بیگم اپنے ہی صاحب کے کان کھینچ کر حکم صادر فرما رہی ہوتی ہے کہ ”اس بار دینو ڈرائیور کو ایک ہفتہ کی چھٹی زیادہ دینی ہے کیونکہ اس کی بیوی بھی میری طرح اداس اور بیقرار ہے“
ازمنہ قدیم یا کچھ دیہی علاقوں میں دور حاضر میں بھی ہماری خواتین مکھن اور دیسی گھی کو بالوں کے تیل کے متبادل کے طور پر استعمال میں لاتی ہیں،کبھی کبھار تو مکھن اور گھی سے اس قدر بال تر بہ تر کر لیتی ہیں کہ” مکھن زدہ“ سر جب عرصہ قلیل کے لئے سورج کی کرنوں کی تپش میں آ کر اپنا کمال دکھاتا ہے تو سر سے اٹھنے والے” بھبوکوں“ سے آس پاس کے تمام بچے تتر بتر ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔
اور تو اور آج بھی دور دراز کے دیہاتوں میں خواتین کے سر پر لگائے جانے والے مکھن اور گھی کی ”خوشبو“ سے ہی اندازہ لگایا جاتا ہے کہ خاتون کے گھر میں بھینسوں اور گائے کی کتنی تعداد پائی جاتی ہے۔ایک مرتبہ لوکل روٹ کی بس میں سفر کرتے ہوئے مجھے بھی اس ”مخصوص عطرانہ بُو“ سے ہی اندازہ ہوا کہ اس علاقہ میں مرد حضرات بس کی چھت پہ بیٹھ کر کیوں سفر کرتے ہیں۔
بھئی جب مکئی کی روٹی،مکھن ملا ساگ ، مولی کے پراٹھے اور سر پر دیسی گھی یا مکھن کی بوندا باندی کے بعد بس یا ویگن میں سفر کیا جائے گا تو لوگ سانس بند کروا کے مرنے سے چھت پہ سفر کرنے کو ہی بہتر سمجھیں گے نا۔
خواتین اگر مکھن کو آئل کا متبادل خیال کرتی ہیں تو مرد ملازمین بھی اسے تھوک کا نعم البدل سمجھتے ہیں،کہ جہاں تھوک سے کام نہ نکلتا ہو مکھن لگا کے نکلوا لیتے ہیں۔
ویسے جن ملازمین کو تھوک اور مکھن لگانا نہیں آتا ان کے حلق،جیب(pocket) اور زبان خشک ہی رہتے ہیں اور جو لوگ اس فن میں یکتا ہوتے ہیں وہ زبان،حلق اور جیب (pocket )کسی کو بھی خشک نہیں ہونے دیتے۔پاکستان میں دھیرے دھیرے یہ عادت وبا کی صورت اختیار کرتی جا رہی ہے،کلرک سے پارلیمنٹ تک سب اس بیماری کی زد میں ہیں،بس لفظوں کی ہیر پھیر ہے بالکل ایسے ہی جیسے کہ
دوچار لفظوں کی ہیر پھیر ہوتی ہے
پھر اس کی نہیں اپنی غزل ہوتی ہے

Browse More Urdu Columns