Ghonsla - Article No. 2398

Ghonsla

گھونسلہ - تحریر نمبر 2398

لیکن اماں بی کسی طور مطمئن نہ ہوئیں اور ایک دن تو صاف صاف مانو اعتراف ہی کر لیا کہ "بہو بیگم غور سے سن لو۔تم اس گھر میں ہمارے بیٹے کے ساتھ آئی ہو اور اس سے آگے ہرگز امید نہ رکھنا کہ

بدھ 27 مارچ 2019

فاطمہ عمران

بہو بیگم کے کمرے کی کھڑکی گھر کے پچھلے صحن کی طرف کھلتی تھی جہاں صحن کے بیچ و بیچ بیری کا قدیم پیڑ کسی پرانی یاد کی طرح سر اٹھائے کھڑا تھا۔

(جاری ہے)

جب سے بہو بیگم بیاہ کر اس گھر میں آئی تھیں انہوں نے اس پیڑ سے دوستی سی کر لی تھی۔
جب
بھی فارغ ہوتیں کھڑکی میں بیٹھ کر اس پیڑ کو دیکھتے ہوئے سوچوں میں گم ہو جاتیں۔
یوں
اس پیڑ اور بہو بیگم کی بے لگام سوچوں کے درمیان ایک تعلق سا قائم ہو گیا تھا۔
نظر
پیڑ پر رہتی اور دماغ کسی اور نگری کی سیر میں گم رہتا۔

گھر میں بہو بیگم کے علاوہ 'وہ'، اماں بی ، ابا میاں ، ایک پرانی نوکرانی آنا بیگم اور چند ملازم تھے جنہیں آنا بیگم ہی دیکھتی تھیں۔

چھوٹے صاحب اکلوتی اولاد ہونے کی وجہ سے اماں بی کے کافی لاڈلے تھے۔
جب سے بہو بیگم بیاہ کر گھر آئیں تھیں اماں بی کو ان سے نجانے کیوں خدا واسطے کا بیر ہو گیا تھا۔
یہ
تو بعد میں عقدہ کھلا کہ بیٹے کی شراکت داری انکو ایک آنکھ نہ بھاتی تھی۔
رسم
دنیا سے مجبور تھیں جو بیٹا بیانا پڑا۔ورنہ بہو بیگم تو انکی آنکھوں میں بال کی طرح کھٹکتی تھیں۔
انکی چڑ بہو بیگم سے کچھ ڈھکی چھپی نہ تھی۔ایک دو بار دبے الفاظ میں بہو بیگم نے سمجھانا بھی چاہا کہ وہ انکے بیٹے پر "قبضہ" کرنے نہیں آئیں۔
انکا
بیٹا بہو بیگم کا شوہر بھی ہے۔اور وہ یہاں اپنے شوہر کے پاس آئیں ہیں نہ کہ اماں بی کے' بیٹے'میں شراکت داری کرنے۔
لیکن
اماں بی کسی طور مطمئن نہ ہوئیں اور ایک دن تو صاف صاف مانو اعتراف ہی کر لیا کہ "بہو بیگم غور سے سن لو۔
تم
اس گھر میں ہمارے بیٹے کے ساتھ آئی ہو اور اس سے آگے ہرگز امید نہ رکھنا کہ ہم تمہیں اپنے دل میں جگہ دیں گے" اس صاف گوئی پر بہو بیگم حیران ہونے کے ساتھ ساتھ غمزدہ بھی ہو گیئں۔
بھلا
کیسے سمجھائیں وہ اماں بی کو کہ جیسے وہ ابا میاں پر اپنا حق جتاتی ہیں۔
ویسے
ہی بہو بیگم کا بھی اپنے شوہر پر کچھ حق ہے۔
بھلا انکا شوہر ہونا انکے بیٹے ہونے کا حق کیسے چھین سکتا ہے؟ لیکن شاید اماں بی سمجھنا ہی نہیں چاہتی تھیں۔
اس اعتراف کے بعد تو گویا انہوں نے بہو بیگم سے باقاعدہ "دشمنی" پال لی۔
آتے
جاتے اٹھتے بیٹھتے بہو بیگم کو نیچا دکھانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتیں۔
چھوٹی
چھوٹی باتوں پر بہو بیگم کا کلیجہ چھلنی کیے رکھتیں۔ بہو بیگم کی کوشش ہوتی کہ جلد از جلد کام ختم کے کر کمرے کی راہ لیں جہاں کھڑکی کے پار بیری کا پیڑ انکا منتظر ہوتا۔
اب
انہوں نے اس پیڑ سے رشتہ سا استوار کر لیا تھا۔

ایک دن کیا دیکھتی ہیں کہ پیڑ کے بیچ و بیچ بل کھاتی شاخوں کے درمیان چڑیوں کا گھونسلہ جھول رہا ہے۔

خود کو باقاعدہ سرزنش کی کہ یہ گھونسلہ کب یہاں آیا اور انہوں نے پہلے کیوں نہ دھیان دیا۔
؟
بس پھر تو بہو بیگم کو ایک نیا کھیل ہاتھ آ گیا۔
دل چڑیا چڑے میں بسا لیا۔ چڑیا کب شور مچاتی ہے؟کب نخرہ دکھاتی ہے؟ چڑا کب اس سے ناراض ہوتا ہے کب پیار جتاتا ہے؟ بہو بیگم کے پاس انکا سارا حساب تھا۔
ایک دن جو چڑیا ناراض ہو کر نخرہ دکھانے پر آئی تو چڑے نے اسکے اردگرد منڈلا منڈلا کر ایسے شورمچایا جیسے معافی مانگ رہا ہو کہ اس بار معاف کر دو آئندہ ایسا نہیں ہو گا۔
بہو
بیگم کافی دیر تک یہ منظر دیکھ کر ہنستی رہیں۔

شادی کو آٹھ ماہ ہونے کو آئے لیکن بہو بیگم کی گود ابھی بھی سونی تھی۔

اماں بی کو ایک نیا بہانہ مل گیا نیچا دکھانے کو۔ سارا دن وارث کی رٹ لگائے رکھتی تھیں۔
کبھی کسی بہانے سے بہو کو کہہ دیتیں اور کبھی بہو کے سامنے آنا بیگم کے آگے تذکرہ لے کر بیٹھ جاتیں کہ جانےکب انہیں پوتے کا منہ دیکھنا نصیب ہو گا؟ ایک سال بھی نہ ہوا تھا اور بہو بیگم پر بانجھ ہونے کا ٹھپہ لگا دیا حالانکہ ڈاکٹرنی نے کہا بھی تھا کہ بس خدا ہی کیطرف سے دیر تھی۔
ورنہ
بہو بیگم تو بالکل ٹھیک تھیں۔

بہو بیگم اماں بی کے آگے کر بھی کیا سکتی تھیں؟ اکیلے میں چھپ چھپ کر رو لیتی تھیں۔

نماز میں گڑگڑا کر دعائیں مانگتیں یا پھر خریداری کے بہانے مزاروں کے چکر لگاتیں۔
وہاں کبھی چڑھاوے چڑھاتیں اور کبھی دھاگے باندھ آتیں. پھر بھی مراد بر نہ آتی تو رو رو کر خدا سے معافی مانگتیں کہ اگر ان سے جانے انجانے میں کوئی غلطی ہو گئی ہے تو خدا انہیں معاف کر دے اور انکی سونی گود بھر دے۔

اماں بی کی نفرت کو تو ٹھوس وجہ مل گئی ۔

بے اولاد عورت کٹے تنکے کی مانند ہوتی ہے۔جانے کب ہوا کا جھونکا اڑا کر لے جائے۔
سسرال میں عورت کے قدم جمانے کے لیے پہلی مضبوط جڑ اسکی اولاد ہوتی ہے۔
اور بہو بیگم کے پاس سب کچھ تھا بس ایک اولاد ہی نہ تھی جو بہو بیگم کے لیے اماں بی کی نفرت شاید کچھ کم کر سکتی۔

ایک دن آنا بیگم نے جانے اماں بی کے کان میں کیا کھسر پھسر کی کہ مارے خوشی کے اماں بی سنبھالی ہی نہ جا رہی تھیں۔

رات کو بہو بیگم دودھ کا گلاس کمرے میں دینے گئیں تو اماں بی ناک نکوس کر بولیں۔
"یہ دودھ کا گلاس تو تم میری بہو کے لیے سنبھال کر رکھو جو مجھے پوتے کا منہ دکھائے گی۔
میرا
بیٹا اب دوسری شادی کرے گا۔ اب وہ تم جیسی بانجھ عورت کے پلو سے لگ کر نہیں بیٹھے گا۔
"
بہو بیگم کے ضبط کے سارے موتی ٹوٹ ٹوٹ کر بکھرنے لگے اور وہ اماں بی کے قدموں میں بیٹھ کر رو دیں۔
اماں
بی منہ پھیر کر بولیں۔ "جس دن تم نے اس گھر کی دہلیز پار کر کے میرے بیٹے کے دل میں پہلا قدم رکھا تھا اس دن میں نے تمہیں اپنے دل سے نکال باہر کر کے کوسوں دور پھینک دیا۔
میں
اچھے سے جانتی ہوں کہ میرا بیٹا تم سے محبت کر بیٹھا تھا۔
لیکن
اب نہیں۔ اب اسکی آنکھوں سے پٹی اتر چکی ہے۔خود ایک سوکھی عورت بھلا میرے بیٹے کی زندگی کیسے شاداب کرے گی۔
؟اب
وہ تمہارا نہیں رہے گا۔کان کھول کر سن لو اب وہ تمہارے دام میں نہیں آنے والا۔
آنا
بیگم نے اپنے کانوں سے سنا ہے۔"

اماں بی کو یہ سب کہتے احساس بھی نہ تھا کہ انہوں نے بہو بیگم کی دنیا ایک لمحے میں پلٹ دی تھی اور انکی بات سن کر وہ کیسے ایک درد بھری قیامت سے گزر گئیں۔

دوڑی دوڑی آنا بیگم کے پاس پہنچی اور انکے قدموں میں گر کر انہیں ایک عورت اور ماں ہونے کا واسطہ دے کرمنتیں کرنے لگیں کہ انہیں سچ سچ بتائیں کہ اماں بی نے جو کہا وہ سچ تھا کیا؟ انہوں نے کیا سنا ؟آنا بیگم نے اٹھا کر گلے سے لگا لیا اور بولیں "ہاں بہو رانی ۔

۔ سچ کہا انہوں نے۔میں نے چھوٹے صاحب کو اپنے کانوں سے کہتے سنا ہے۔
وہ
ابا میاں کو کہہ رہے تھے کہ نئی دلہن کے آنے سے گھر میں ہنگامہ نہ ہو جائے کہیں ۔
اور
ابا میاں انہیں تسلی دے رہے تھے کہ

Browse More Urdu Columns