Halwa Or Shab E Barat - Article No. 2556

Halwa Or Shab E Barat

حلوہ اور شب برآت - تحریر نمبر 2556

عجب سا دکھ ہے مگر اپنا دکھڑا کسے سناؤں ۔۔۔ اس بار تو شب برآت آکے بھی نہ آئی کیونکہ نہ کسی دہلیز پہ پٹاخے چھوٹے نہ کسی بام پہ پھلجھڑیاں لہرائیں نہ بیچ گلی انار چلے اور نہ ہی کوچہ کوچہ کاغذی بم پھوٹے

Syed Arif Mustafa سید عارف مصطفیٰ جمعرات 9 اپریل 2020

 عجب سا دکھ ہے مگر اپنا دکھڑا کسے سناؤں ۔۔۔  اس بار تو شب برآت آکے بھی نہ آئی کیونکہ نہ کسی دہلیز پہ پٹاخے چھوٹے نہ کسی بام پہ پھلجھڑیاں لہرائیں  نہ بیچ گلی انار چلے اور نہ ہی کوچہ کوچہ کاغذی بم پھوٹے ۔۔۔ اس پہ بالائے ستم یہ کہ کسی نے حلوہ بھی نہیں بھیجا ۔۔۔ جبکہ ہم کتنی بار سمجھا چکے ہیں کہ  ہم حلوہ وصول کرنے اور کھانے کے معاملے میں مستعدانہ طور پہ بریلوی ہیں جبکہ  پکانے و بانٹنے  کےمعاملے میں سراسر پس و پیشانہ دیوبندی ہیں  یوں ہمارے مسلک کا نام ہے بریل بندی لیکن اس بار کہیں سے حلوہ آکے نہ دیا ۔
۔۔  خود حلوہ لینے کو جانے کا یارا نہ تھا اس لیئے صبر کے سوا چارہ نہ تھا ۔۔۔ ہم مزاجاً مولوی تو نہیں لیکن   بچپن سے حلوہ خوری کے خوگر ہیں اور پہلے ہمارے گھر پہ بھی ہر شب برات کے موقع پہ حلوے کے تھال اترتے تھے اور ہر سمت حلوے کے جلوے بکھرتے تھے مگر پھر یکایک کچھ کتابیں ایسی پڑھ بیٹھے کہ حلوے سے از خود ہاتھ دھو بیٹھے اور اب اس کے بعد سے ہر سال بروز شب برات یوں ہوتا ہے کہ دائیں بائیں گھروں سے طرح طرح کے خوشبودار حلووں کی لپٹیں ہلکان کیئے دیتی ہیں اور پھر ہمارے لیئے بس یہی کام رہ جاتا ہے کہ حلوہ نہ کھائیں بیٹھے بیٹھے محض اندازے لگائیں کہ ابھی اوپری منزل سے جس حلوہ کی خوشبو کی ہماری ناک نے بلائیں لی ہیں وہ کس چیز کا حلوہ تھا اور بائیں طرف کا پڑوسی جس حلوے پہ بڑھ بڑھ کے ہاتھ صاف کرتا سنائی دے رہا ہے وہ کونسا حلوہ ہے ۔

(جاری ہے)

۔۔ اس موقع پہ ہمارے معدہ چیخ چیخ پڑتا ہے اور اس کی دہائیاں ہمارے صبر کے سب کس بل اس شدت سے نکالنے پہ بضد ہوتی ہیں کہ ہم اس خوف سے سمٹ کے اور ذرا دہرے ہوکر بیٹھ رہتے ہیں کہ شدت کرب سے پیٹ پہ پڑنے والے بل کہیں باہر کرتے سے ہی نہ جھلک جائیں  ۔۔۔

 دراصل شب برات کے موقع پہ حلوہ نہ پکا کے ہم حلوہ مخالف کتابوں کے مصنفین سے کیا گیا اپنا غائبانہ و یکطرفہ وعدہ نبھاتے ہیں مگر اس عالم میں کہ بعد دوپہر سے ہی نظریں مستقل اپنی چوکھٹ پہ رہتی ہیں اور ہر آہٹ پہ دوڑے دوڑے جاتے ہیں ۔
۔۔ لیکن شومئی قسمت اگر شب برآت پہ اتنے بیتابانہ انتظار کے بعد بھی اگر کہیں سے حلوے کی کمک ہمارے ذوق ندیدگی کو سہارنے نہ پہنچ سکے تو سورج ڈوبتے ہی ہمیں یہ دنیا زیادہ فانی معلوم ہونےلگتی ہےاور ہمارے نومولود متحدہ مسلک کی بقاء خطرے میں پڑ جاتی ہے اس لیئے تھک ہار کےپھر وہی حلوہ مخالف کتابیں کھول لیتے ہیں اور کمال ضبط کے ساتھ صفحہ صفحہ چھلانگتے ہوئے چپ چاپ اپنے پیٹ میں منطق و دلائل کے لوندے اتارتے ہیں مگر پھر بھی سکون ہے کہ آکے نہیں دیتا ۔
۔۔ کسی کو کیا بتائیں کہ اب تو کئی برس ہوچلے کہ شب برآت کے موقع پہ ہمارے ذائقے کے غدود مسلسل عرصہء امتحان میں ہیں اور امتحان بھی ایسا کہ اس میں نقل کی مطلق گنجائش بھی نہیں۔۔۔ ہمیں نہیں معلوم کہ عقیدے و مسلک کی بابت اب اجتہاد کی اجازت کس قدر باقی ہے لیکن دلی طور پہ ہم اس کے حامی ہیں۔۔۔ یہاں اس بات کا مطلب یہ قطعاً نہ سمجھا جائے کہ ہمیں شب برآت کے حلوے کی ممانعت کے اصولوں میں اساسی تبدیلی مقصود ہے ہرگز ہرگز نہیں ، البتہ بس ذرا چنے کی دال کے حلوے کی گنجائش ضرور نیک مطلوب ہے   

Browse More Urdu Columns