Hum Bhi Sahib-e-jaidad Ho Ghae - Article No. 2329

Hum Bhi Sahib-e-jaidad Ho Ghae

ہم بھی صاحب جائیداد ہوگئے - تحریر نمبر 2329

منگل 18 دسمبر 2018

شفیقہ فرحت

قرض کی مے تو نہیں البتہ چائے ضرور پیتے تھے (کیوں کہ غالب سےازلی اورابدی رشتہ ہے۔

!) اور جانتے تھےکہ ایک دن یہ فاقہ مستی، جس میں سےاب مستی بھی غائب ہوتی جارہی ہے،ضرور رنگ لائے گی۔

(جاری ہے)

!

توصاحب وہ رنگ لائی اورایساچوکھا کہ ہماری عینک زدہ آنکھیں بھی چکا چوند ہوگئیں۔

!واقعہ کسی سال کے کسی مہینے کی کسی تاریخ کا ہے کہ ہماری ایک دوست نے شیطان اعظم کا رول ادا کیا۔
یعنی
ہمیں ورغلا کر اپنے گھر لے گئیں۔ ابھی تصوراتی اطمینان کا روایتی سانس بھی نہیں لیا تھا کہ اطلاع ملی ہمارے کبوتر خانےکا،جسےعرف خاص میں دولت خانہ (اگرچہ دولت سرے سے مفقود ہے) کہا جاتا ہے، تالا توڑ دیا گیا ہے۔

گھر پہنچتے پہنچتے پوری ایک قوم تعزیت کرنےاور پس ماندگان کو صبرکی تلقین کرنےجمع ہوگئی۔

ان سب کو ہم نے اطمینان دلایا کہ اول تو ہمارے تالا ازل ہی سے ٹوٹا ہوا تھا۔
یہ ہمارے ہاتھ کی صفائی تھی جس سےاس کا بھرم قائم تھا۔
یعنی اسے ہم اس فنکارانہ خوبی سے چپکا دیتےتھےکہ وہ بند معلوم ہونے لگتا تھا!اس لیے اس واردات کو ‘‘تالا توڑنے‘‘ کا نام نہیں دیا جاسکتا۔

اوردوسرے یہ کہ دن کواس طرح لٹنےسےرات کو چوری کا خدشہ نہ رہا۔

!!

اورپھرگھرکی یہ حالت کہ جب جب کوئی آتا ہمیں نہایت ہی فلسفیانہ اورراہبانہ انداز میں پوز بنا کرکہنا پڑتا۔

‘‘آج ہی گھر میں بوریا نہ ہوا!’’

لےدے کےجوتےکےپرانےڈبےسےمشابہ ایک ریڈیو تھا جس میں ہر وہ اسٹیشن لگ جاتا جسے آپ نہ لگانا چاہتےہوں۔

! اورجس میں بیک وقت آدھے پون درجن اسٹیشن سنےجاسکتےتھے۔ریڈیو سیلون کےبیوپاروبھاگ سےفلم‘‘پریم کی بلبل’’کی کہانی،آکاش وانی کےپنچ رنگی پروگرام وودھ بھارتی سےفلمی گانے،ریڈیو پاکستان سےعربی فارسی میں خبریں، بمبئی سےڈرامہ،مدراس سے تامل میں آ۔
اورجالندھر
سے بلے۔بلے۔ اورجب یہ نقطۂ عروج پر ہوتےتوایسا معلوم ہوتا کسی میدان جنگ سے بمباری کا آنکھوں دیکھا اورکانوں سنا یاجارہا ہو۔

اورایک گھڑی تھی جو ممکن ہےکسی زمانےمیں گھڑی رہی ہو۔

لیکن اب اس میں اس قسم کے کوئی جراثیم نہیں پائے جاتے تھے۔

توصاحب جب منقولہ اورغیرمنقولہ جائیداد کی زبوں حالی کا یہ عالم ہو توچوری کا کیا غم!غم تھا تو صرف اس بات کا کہ غریب نے گھر کی ایک ایک چیز الٹنے پلٹنے میں کتنی محنت کی اوراسے واپسی کےلیےبس کا کرایہ تک نہ مل سکا۔

! بھلا وہ اپنےدل میں کیا سوچتا ہوگا۔ اس سےزیادہ بےعزتی کی بات اورکیا ہوسکتی ہے—؟ کہیں کل کلاں کو وہ الٹا ہمیں ہی منی آرڈر نہ بھیج دے! یا اکھل بھارتیہ چورسبھا بنا کرہم جیسے لوگوں کی فلاح و بہبود کےذرائع نہ سوچنےلگے۔

خیرجوہواسوہوا۔ مگراب ایسےآڑے وقتوں کےلیے کہ جب گھر کی عزت پر بن جائے ہمیں کچھ نہ کچھ بچائےرکھنا چاہئے۔

ہماری آمدنی اورخرچ کا حساب کچھ ایسا ترقی پسندانہ تھا کہ ہزاراکاؤنٹنٹ رکھےجانےاورسیکڑوں کمیشن بٹھائےجاتے تب بھی ان کی ایک دوسرے سےدوستی نہ ہوتی۔
اس لیے حساب کتاب کرنا یا بجٹ بنانا ایسا ہی تھا جیسے یو۔
این۔
او میں کشمیرکا مسئلہ اٹھانا— اس جھنجھٹ میں پڑنےکےبجائےہم نےاپنے VETOپاورسےکام لیتےہوئےنہ آؤ،نہ آگانہ پیچھا جھٹ سو روپےاٹھا کے ایسی جگہ رکھوا دیے جہاں وہ ہمارے لیے بھی اجنبی بن گئے۔
!

چار،پانچ روزبخیرخوبی گزرگئےاورہمیں اپنےسوروپوں کی جدائی کا قطعی احساس نہ ہوا۔

بلکہ ہم خاصا فخرمحسوس کررہے تھےکہ ہم بھی صاحب جائیداد ہوگئے!اگردن میں ایک خاص تناؤاورچال میں رعونت پیداہوگئی—اورراوی تویہاں تک کہتا ہےکہ لب ولہجہ میں بھی انقلاب آگیا—! ہم جو پہلے ہروقت اپنےجیسےپھکڑلوگوں کےساتھ گپیں ہانکا کرتےتھےاوروہ قہقہے لگاتےتھےجوگزوں اور میلوں تک سنےجاسکتےتھے۔
اب صرف زیرلب تبسم (کہ جس میں تبسم کم اورمتانت زیادہ ہوتی ہے) سےکام چلایا کرتے۔
اوراس پھکڑقوم کےساتھ بیٹھنا اورگپیں ہانکنا تواب عہد پارینہ کی داستان بن چکا تھا۔
گواس تبدیلی کا ہم پر یہ اثرہواکہ کئی دنوں تک گردن،زبان،جبڑے، ہونٹ اورپیٹ میں شدت کا درد ہوتا رہا۔
طبیعت گری گری رہی۔کسی کام میں دل نہ لگتا تھاکیاکرتےمجبورتھےکہ صاحب جائیداد طبقے کا شیوہ یہی ہے!

چھٹےروزناگہانی طورپربازارسےگزرہوا۔

ایک حسین ساڑھی دکان میں لہرارہی تھی۔ ہم نے پہلے اسے دیکھا پھراپنی ڈھائی جگہ سےسلی ساڑھی کو۔
اورایک عاشقانہ سی آہ بھرکےآگےبڑھ گئے۔کیوں کہ سوروپےبچانےکے لیےلازمی تھا کہ ہم ڈھائی نہیں بلکہ سواتین اورساڑھے چارجگہ سے پھٹی ساڑھی پہنےگھومیں۔
!!

دو قدم چلنےکےبعد سال بھرپرانی چپل بھی ٹاٹا— بائی۔ بائی کہنےلگی۔

پھردل پرسوکا نوٹ کہ جو پتھر سے بھی بھاری تھا رکھا اور چپل میں پن اٹکالی—!

رفتہ رفتہ ہم بکھرے سوکھےبال، سونی آنکھیں، پھیکے ہونٹ اورروکھا ویران چہرہ لیےکالج پہنچنےلگے۔

عوام اورخواص نےسوچا کہ شاید ہمارے کسی عزیزکا انتقال ہوگیا ہے۔
اس لیےہم اپنے سوگوارہیں۔ یا شاید ہم نےپھرایک نیا عشق شروع کردیا ہےاورجو شدومد کےلحاظ سے پچھلےتمام ریکارڈ توڑدے گا۔
اس
لیےایک طرف توتعزیتی جلسےکا انتظام ہونےلگا تودوسری طرف بڑے رازدارانہ انداز میں مشورے دیےجانےلگے۔
اورتب ہم نےاعلان کیا کہ اس سوگواری میں نہ کسی موت کا ہاتھ ہے نہ رومان کا— سب مایا کا جال اور ہماری چال ہے۔
یعنی ہم نے مبلغ سو روپےبچائےہیں۔ نتیجے کے طور پر ہم اس قابل نہیں رہے کہ لپ اسٹک پوڈر کا جل کریم تیل کی LUXURIES کو برداشت کرسکیں۔
اگرآپ لوگوں کو یہ خوف ہےکہ آپ کی طبع نازک ہماری اس ویران صورت کو برداشت نہ کرسکے گی اورعین ممکن ہے کہ اسی صدمےسے ایک آدھ کا ہارٹ فیل ہوجائے توبخوشی (یا بہ رنج) ہمارے سولہ نہ سہی آٹھ سنگھار کا انتظام کردیجئے ہمیں قطعی اعتراض نہ ہوگا!!

خیرصاحب صورت پر ڈالیے خاک، کہ یہ خاک سے بنی ہے اور خاک میں ملے گی۔

اورسیرت پرنظرڈالیےکہ یہ نہ کسی سےبنی ہے نہ کسی میں ملے گی۔
!
مگروائے تقدیرکہ یہ سیرت بھی سوروپے یعنی دس ہزارنئے پیسوں کی چمکتی دیوارمیں۔
زندہ چنی جارہی ہےاورکسی مائی کے لال (افسوس کہ لالی یعنی بیٹی کو قابل التفات ہی نہیں سمجھا گیا۔
!
) میں ہمت نہیں کہ اسے کھینچ کےنکال سکے!

ہاں وہ قصۂ حاتم طائی یوں ہے کہ حسب معمول چند ایسی لڑکیوں نےجن کےچہرےغریب و افلاس کی دھول سے اٹے رہتے ہیں۔

جن کی آنکھیں حسرت ومایوسی کے بوجھ سےجھکی رہتی ہیں۔جو اپنے آپ کو اس درجہ مجرم سمجھتی ہیں کہ نہ کبھی ہنستی ہیں، نہ مسکراتی ہیں، نہ اچھلتی کودتی ہیں۔
بلکہ
ہمیشہ جھکی جھکی رہتی ہیں اوران کا بس چلے تو شاید زمین میں زندہ دفن ہو جائیں— تو ایسی ہی دو لڑکیوں نےداخلے کی فیس کےلیے روپےمانگے۔
کیونکہ انہوں نےسن رکھا تھا کہ حاتم کی قبرپرلات مارنے والی (دھیرے سے ہی سہی۔
!)
ہستی موجود ہے۔

لیکن حضور!وہ زمانےتو ہوا ہوگئے— سوروپےنےاس حاتم کی ٹانگیں یوں کس کےپکڑ رکھی تھیں کہ ہلکی سی جنبش بھی ممکن نہ تھی۔

ہاتھ بھی جکڑے ہوئےتھے۔ پتہ نہیں کیسےسو روپوں کی یہ دیواراتنی اونچی نہ ہوپائی تھی کہ آنکھوں کوڈھک لیتی۔
توآپ کی یہ حاتم طائی سو روپےکی اس جھلملاتی دیوارکی آڑمیں کھڑی بے بسی سےان جھکےہوئےسروں جھکی ہوئی آنکھوں اورگڑے ہوئے قدموں کو دیکھتی رہی۔

ظاہر ہےجائیداد یوں لٹائی نہیں جاتی—!!

مہینےکے پندرہ دن گزرگئے۔

پکچرہم نے دیکھی نہیں۔ کینٹین میں چائے پینی (اپنے پیسے سے) چھوڑدی۔
لوگوں کےگھرآنا جانا بند کردیا کہ بس اورٹیکسی پر پیسے نہ اٹھیں۔ لیکن پیسےہیں

Browse More Urdu Columns