Internet Or Net Practice - Article No. 2346

Internet Or Net Practice

انٹرنیٹ اور نیٹ پریکٹس - تحریر نمبر 2346

مختلف ملکوں کی سیر کا اہتمام کرنے کے بعد تھک ہار کر چائے کا کپ پیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یار آج تو بہت سفر کر لیا۔

Syed Qamar Bukhari سید قمر بخاری منگل 1 جنوری 2019

زندگی تنوع کا نام ہے آئے روز نئی نئی اختراعات اور تخلیقات حیات انسانی کو آسانیوں اور آسائشوں کے نام پر ایسی ایسی اشیاءسے متعارف کراتی چلی جا رہی ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ اب وہ زمانے گئے جب لوگ صبح سویرے بیدار ہو کر میدانوں کا رخ کیا کرتے تھے اور وہاں جا کر ورزش کے علاوہ جسمانی طور پر صحت مند رہنے کے لئے پیدل چلا کرتے تھے۔ آج کل میدان مکمل طور پر ویران ہیں اور لوگ اپنے اپنے بستر پر انٹرنیٹ کے زور پر ہر طرح کی سیروتفریح اور ورزش کا اہتمام کر لیتے ہیں۔
اگر کسی کا معالج نسخے پر ورزش یا کھیل کا لکھتا ہے تو لوگ اپنے موبائل فون پر وڈیو گیمز کھیل کر ڈاکٹر کے نسخے پر عمل کو یقینی بنا لیتے ہیں۔ اسی طرح وہ اپنی انگلیوں کی ورزش سے مختلف ملکوں کی سیر کا اہتمام کرنے کے بعد تھک ہار کر چائے کا کپ پیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یار آج تو بہت سفر کر لیا۔

(جاری ہے)

اچھے وقتوں میں ہاکی، فٹ بال اور کرکٹ کا شوق نوجوانوں کو میدانوں میں کھینچ کر لایا کرتا تھا مگر اب زمانہ بدل گیا ہے۔

اب نوجوان کسی میدان میں نیٹ پریکٹس کی بجائے اپنے موبائل فون یا لیپ ٹاپ پر ”نیٹ“ پریکٹس کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ انٹرنیٹ کے ذریعے میسر آنے والی اس پریکٹس کی وجہ سے ہماری نئی نسل میں مہارت اگرچہ بہت زیادہ آ گئی ہے لیکن وہ کام کاج کے قابل نہیں رہے۔ اب روزمرہ معمولات میں بھی انٹرنیٹ ان کے لئے سہولیات لے کر آیا ہے۔ ہیلو گوگل کہہ کر خوبصورت آواز والی حسینہ کے ساتھ گھنٹوں مزے مزے کی باتیں کرنے سے لے کر کھانا پکانے کی تراکیب اور سیکھنے سکھانے والے تمام مراحل اسی کے ذریعے طے کر لئے جاتے ہیں۔
اب تو پروفیشنل تربیت کے لئے بھی یوٹیوب نے ہرطرح کی کوچنگ ویڈیوز کا اہتمام کر رکھا ہے جس سے دنیا کی تمام زبانوں کو سیکھنے سمیت زبان کے استعمال سے متعلق بھرپور معلومات کا حامل مواد دستیاب ہے۔ آپ نے کس ملک میں اور کس معاشرے میں زبان کا استعمال کس طرح کرنا ہے، ادب آداب اور وہاں کے رسم و رواج کا لحاظ کیسے کرنا ہے یہ سب کچھ انٹرنیٹ آپ کو سکھاتا ہے۔
اب تو مہنگے داموں سفر کرنے کی خجالت سے بھی آپ بچ سکتے ہیں اس کے لئے انٹرنیٹ نے آن لائن ٹیکسی کا نظام متعارف کرا دیا ہے جس کے ذریعے آپ حسب منشا رائیڈ سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ اب سکول کے بچے اپنی ماما کو فون کر کے پوچھتے ہیں ”ماما میرے سکول بیگ کا زپ کوڈکیا ہے؟۔ زپ ہی نہیں کھل رہی“۔ کچھ نالائق بچے تو شروع شروع میں پینٹ کی زپ بھی انگلی کی بجائے زپ کوڈ سے کھولنے کی کوشش کرتے ہیں۔
انہیں انگریزی کے ورڈز(الفاظ) یاد ہوں نہ ہوں پاس ورڈ یاد رکھنے کے ماہر ہوتے ہیں۔ انٹرنیٹ نے پرانے زمانے کے رسم و رواج ہم سے چھین لئے ہیں۔ اس زمانے میں محبتیں پروان چڑھانے کے لئے طلباوطالبات ایک دوسرے سے کتابوں یا نوٹس کا تبادلہ کیا کرتے تھے جس میں حسب خواہش کسی کاغذ کے ٹکڑے پر اظہار محبت کا اہتمام بھی کر لیا جاتا تھا۔ اب ای میل کلچر نے میل فی میل کو براہ راست رسائی دے دی ہے۔
لہٰذا ”کبھی کتابوں میں پھول رکھنا، کبھی درختوں پہ نام لکھنا“ جیسی چیزیں ہمارے کلچر سے معدوم ہوتی چلی جا رہی ہیں۔ یونیورسٹی کے ایک سٹوڈنٹ کو اس کی ساتھی طالبہ نے ٹیکسٹ کیا کہ مجھے شماریات کے نوٹس فوراً چاہیں، نوجوان نے اسے جواب دیا کہ میں اس وقت گا ¶ں میں ہوں جہاں ڈیٹانیٹ ورک کام نہیں کر رہا، لہٰذا آپ میرا ای میل آئی ڈی لاگ ان کرو اور ڈرافٹ میں پڑے ہوئے نوٹس کاپی کر لو۔
لڑکی نے پاس ورڈ پوچھا تو لڑکے نے لکھا ”آئی لو یو“۔ لہٰذا لڑکی نے ”آئی لو یو ٹو“ لکھ کر ٹیکسٹ کا سلسلہ بند کر دیا۔ 90ءکی دہائی میں جب جاپانی گھڑیوں نے روایتی گھڑیوں کی جگہ لینا شروع کی تھی ان دنوں ایک نوجوان اپنے کسی نہ کسی دوست کے ہمراہ بازار میں کھڑے ہو کر ہر راہ چلتی خاتون کی طرف منہ کر کے کہتا تھا ”کیسی ہو“۔ کچھ خواتین نوٹس لئے بغیر آگے بڑھ جاتی تھیں، کچھ مسکرا کر اسے دیکھتیں جبکہ کچھ غصے میں آ کر اسے کہتیں کہ گھر پر کوئی ماں بہن نہیں ہے؟ اس پر وہ لڑکا اپنے ساتھی لڑکے سے کلا ©ئی پر بندھی نئی ڈیجیٹل گھڑی کی طرف اشارہ کر کے کہتا یار کیسیو جیسی گھڑی اور کوئی ہو ہی نہیں سکتی لیکن اس حرکت سے پہلے اس نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ اس گھڑی کی وجہ سے اس پر کوئی بری گھڑی بھی آ سکتی ہے کیونکہ ایک بار ایسا بھی ہوا کہ کسی خاتون کے پیچھے آنے والے اس کے منہ بولے شوہر نے جو کہ گھڑیوں کی مرمت کا ماہر تھا اس کی اتنی مرمت کی کہ موصوف کے چہرے پر اب تک بارہ بجے رہتے ہیں۔
موبائل فون شروع شروع میں اچھا خاصا وزنی ہوا کرتا تھا اور اسے پاکٹل کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ رفتہ رفتہ نہ صرف یہ وزن میں ہلکا ہوتا چلا گیا بلکہ ہلکے ہلکے لوگوں کے پاس بھی پہنچنا شروع ہو گیا اور اب وقت یہ آن پہنچا ہے کہ لوگ اس کے ذریعے بہت ہلکی اور نچلے درجے کی حرکتیں کرنے سے بھی باز نہیں آتے۔ ایسے ہی ایک نوجوان کی شکایت ایک لڑکی نے تایا ابو سے کرتے ہوئے کہا کہ نبیل مجھے کال کر کے ناجائز تنگ کرتا ہے۔
انہوں نے نبیل کو جھاڑتے ہوئے کہا کہ تم اپنی کزن کو کیوں ناجائز تنگ کرتے ہو۔ نبیل نے ہنستے ہوئے اپنے سیلولر کونیکشن JAZZ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ میں ناجائز نہیں جائز سے تنگ کرتا ہوں۔ ایک دور تھا لوگ رو رو کر دعائیں مانگا کرتے تھے کہ ہمارے بچے زیادہ سے زیادہ لائق ہوں اور اب بچے ہروقت دعائیں کرتے ہیں کہ ہمارے زیادہ سے زیادہ لائیکس ہوں۔
ماضی میں اچھے لکھنے والے خوبصورت اور بے لاگ تحریریں لکھا کرتے تھے اب بلاگ تحریر کرتے نظر آتے ہیں۔ نوجوانوں کو موٹرسائیکل اور گاڑی کے انجن کا پتہ ہو نہ ہو سرچ انجن کے بارے میں معلومات ہروقت ہوتی ہیں۔ پہلے لوگ تعویز کے چکر میں رہتے تھے اب ٹویٹ کے چکر میں ہوتے ہیں۔ کسی کا پیٹ زیادہ خراب ہو تو وہ بھی اس بارے میں سٹیٹس اپ ڈیٹ کرنا نہیں بھولتا۔ والدین ماضی میں سکول کے واجبات والی فیس بک دیکھ کر پریشان ہو جاتے تھے اور اب بچوں کے فیس بک اکا ¶نٹ دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم ان کاموں میں اتنے آگے نکل جاتے ہیں کہ ایک دوسرے کو فیس دکھانے کے قابل بھی نہیں رہتے۔

Browse More Urdu Columns