Jawani Deewani - Article No. 2341

Jawani Deewani

جوانی دیوانی۔۔۔۔۔قمر بخاری - تحریر نمبر 2341

زندگی کے کئی روپ ہیں، بچپن، جوانی اور بڑھاپا لیکن سب سے زیادہ جس روپ کو بھرپور طریقے سے محسوس کیا جاتا ہے وہ جوانی کا دور ہے۔ قیامت کی طرح جوانی کی بھی مختلف نشانیاں ہیں۔ یہ جب کسی پر آتی ہے تو اس کی آنیاں جانیاں دیکھنے والی ہوتی ہیں۔ یہ آنیاں جانیاں ”میرے ہانیاں سے لے کر میرے جانیاں“ تک جاری و ساری رہتی ہیں۔

Syed Qamar Bukhari سید قمر بخاری جمعرات 27 دسمبر 2018

زندگی کے کئی روپ ہیں، بچپن، جوانی اور بڑھاپا لیکن سب سے زیادہ جس روپ کو بھرپور طریقے سے محسوس کیا جاتا ہے وہ جوانی کا دور ہے۔ قیامت کی طرح جوانی کی بھی مختلف نشانیاں ہیں۔ یہ جب کسی پر آتی ہے تو اس کی آنیاں جانیاں دیکھنے والی ہوتی ہیں۔ یہ آنیاں جانیاں ”میرے ہانیاں سے لے کر میرے جانیاں“ تک جاری و ساری رہتی ہیں۔ انسان کو بچے کا وہ زمانہ سب سے زیادہ خوبصورت لگتا ہے جب وہ دانت نکال رہا ہوتا ہے لیکن جوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے والا ہر نوجوان آپ کو بات بات پر دانت نکالتا نظر آتا ہے۔
لہٰذا نوجوان اپنے منہ کے ساتھ ساتھ دانت چمکانے پر بھی خوب توجہ دیتے ہیں۔ جب بچوں کو انگریزی فلموں کی زیادہ سمجھ آنا شروع ہو جائے تو جان لیں کہ وہ جوانی کے دائرے میں داخل ہو چکے ہیں اس لئے ہمارے بچے کمزور تو ہو سکتے ہیں لیکن انگریزی میں کمزور نہیں ہوتے۔

(جاری ہے)

جب بچے ماں باپ سے موبائل فون یا ٹیبلٹ(ٹیب) کی فرمائش کرنا شروع کر دیں تو سمجھ جائیں کہ وہ جوانی کی منازل طے کر رہے ہیں۔

بعض والدین اپنی ٹیبلٹ(گولیاں) خریدنے کی بجائے بچوں کے لئے ٹیب خریدنا ضروری خیال کرتے ہیں اور پھر اسی موبائل یا ٹیب کی وجہ سے اولاد ماں باپ سے دور ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ جوانی کی بہار آتے ہی فلمی گیت اچھے لگنے لگتے ہیں اور نوجوان خود کو ہیرو ہیروئن سمجھ کر فضاؤں میں اڑتا محسوس کرتے ہیں۔ جب بچوں کا گھر میں دم گھٹنے لگے تو سمجھ جائیں کہ جوانی کے دور میں داخل ہو رہے ہیں۔
لہٰذا بچے اس گھٹن کا حل تلاش کرنے کے لئے گلی کی نکڑ یا پھر گرلز کالجز کے گیٹ کے سامنے تازہ ہوا کے جھونکوں میں راحت محسوس کرتے ہیں۔ جوانی بھی کیا چیز ہے جس میں نوجوان رونگ نمبر کے ذریعے رائٹ پرسن تلاش کرنے کے چکر میں رہتے ہیں۔ سیلولر نیٹ ورکس کو بھی اسی تناظر میں دیکھتے ہیں۔ عام طور پر لڑکے ٹیلی نار کو کسی ایسی نار(لڑکی) کی تلاش کا ذریعہ سمجھتے ہیں جو کسی ٹیلی وژن سکرین پر نظر آنے والی حسینہ سے مشابہت رکھتی ہو۔
رونگ نمبر کو ہمیشہ زونگ نمبر کے ذریعے ڈائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور JAZZ کے ذریعے لوگوں کو ناجائز تنگ کرنے میں لطف محسوس کرتے ہیں۔ یوں تو وہ ہروقت فون کے ساتھ چپکے رہتے ہیں لیکن اگر یوفون ہو تو ان کی چپکاہٹ میں مزید تیزی آ جاتی ہے۔ جوانی کے کئی مسائل ہوتے ہیں اس عمر میں انسان ہروقت متحرک رہنا پسند کرتا ہے اور چونکہ ہمارے بڑے بوڑھوں نے ہمیں بتا رکھا ہے کہ حرکت میں برکت ہے لہٰذا نوجوان ایسی ایسی حرکتیں کرتے ہیں جن میں کم از کم برکتوں کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
ہمارا بچپن کا ایک دوست جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی برکت پہلوان کی بیٹی کے ساتھ ایسی حرکت کر بیٹھا کہ اس کے نتیجے میں برکت نے اسے ایک عرصے تک حرکت کے قابل ہی نہ چھوڑا۔ جوانی کو دیوانی بھی کہا جاتا ہے اس لئے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے والا ہر نوجوان کسی نہ کسی ”دیوانی“ کے اس وقت تک چکر میں رہتا ہے جب تک کسی دیوانی مقدمے میںاس کا نام نہیں آ جاتا۔
والدین بچوں کو ہمیشہ بچہ ہی سمجھتے ہیںاور یہ غلط فہمی اس وقت تک رہتی ہے جب تک محلے سے شکایتیں آنا شروع نہ ہو جائیں۔ فارسی زبان میں نوجوانی کو نوعمری، جواں عمری اور جواں سالی سے یاد کیا جاتا ہے لہٰذا ہمارے ہاں ہر نوجوان اس عمر میں جواں سالی کے خواب دیکھتا رہتا ہے لیکن ایسے خوابوں کی تعبیر عموماً خشک سالی پر جا کر ختم ہوتی ہے۔ ماضی میں بچے خوبصورت نظر آنے کے لئے جب خود کو صاف ستھرا رکھنا شروع کیا کرتے تھے تو ماں باپ کو صابن کے زیادہ استعمال کی وجہ سے معلوم ہو جایا کرتا تھا کہ بچہ جوان ہو گیا ہے لیکن اب چونکہ ہینڈواش دستیاب ہیں لہٰذا اب اس قسم کی نشانی سے والدین کو بچوں کے جوان ہونے کے بارے میں پتہ نہیں چل پاتا۔
کچھ بزرگوں کو لڑکا کہلوانے کا اتنا شوق ہوتا ہے کہ وہ اپنے بالوں کی رنگائی کے ساتھ ساتھ دوسری اور تیسری شادی کے لئے طبع آزمائی کرتے دکھائی دیتے ہیں اور ایسا اس لئے کرتے ہیں کہ دلہے کے روپ میں بارات لے کر آنے والے ہر مرد کو لوگ لڑکا یا ”منڈا“ کہہ کر بلاتے ہیں۔ ہمارے ہاں ایک کہاوت یہ بھی ہے کہ مرد کبھی بوڑھا نہیں ہوتا لہٰذا مردوں کے لئے جوانی کی عمر بارہ سال سے شروع ہو کر فوت ہونے کے بارہ سال بعد تک برقرار رہتی ہے۔
کئی بار دیکھا گیا ہے کہ بوڑھے جوانوں سے زیادہ ڈنڈ بیٹھکیں لگاتے نظر آتے ہیں تاکہ لوگ انہیں لڑکا لڑکا سمجھتے رہیں۔ ہم ایک ایسے بزرگ کو بھی جانتے ہیں کہ وہ جب بھی اپنے محلے میں آتے تھے تو کسی نہ کسی سے لڑجھگڑ کر آیا کرتے تھے لہٰذا محلے کی خواتین انہیں جھانک جھانک کر دیکھتے ہوئے کہتی تھیں کہ لڑ۔۔کے آئے ہیں لہٰذا وہ اسی بات پر خوش رہتے تھے کہ عورتیں انہیں یہی کہتی ہیں کہ لڑکے آئے ہیں۔
اسی قسم کے نوجوان اپنی جوانی کی کہانی کو مستحکم رکھنے کے لئے سر پر اگر بال نہ بھی ہوں تو وگ کا وبال گلے سے اوپر تک ڈال لیتے ہیں اور کبھی کبھی منہ میں نئی بتیسی ڈینٹل سرجن سے اس طرح لوڈ کرواتے ہیں جیسے آج کل کی حسینائیں اپنے بوائے فرینڈ سے ایزی لوڈ کرواتی ہیں۔ دانتوں سے ہاتھ دھو بیٹھنے والے یہ خودساختہ نوجوان کبھی کبھی کسی سستے ماہر دندان ساز سے پتھر کے دانت اس طرح فٹ کرواتے ہیں جس طرح خودکار ہتھیار میں گولیاں لوڈ کروائی جاتی ہیں ایسے لوگ خود کو جوان ثابت کرنے کے لئے آخری گولی تک لڑتے ہیں تاہم دندان ساز انہیں چھینکنے سے اجتناب کا مشورہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس طرح آپ کی جوانی خاک میں بھی مل سکتی ہے۔
جوانوں کے لئے اب بیوٹی کلینک یا بیوٹی پارلرز کے نام سے ایسی ایسی ورکشاپیں کھل گئی ہیں جہاں حسب استطاعت ان کی ڈنٹنگ پینٹنگ کے ساتھ ساتھ ٹیوننگ اور سروس کا اہتمام ہو جاتا ہے حتیٰ کہ گوڈے تک تبدیل کرنے کی سہولیات دستیاب ہوتی ہیں اور وہاںپلاسٹک سرجری اور جسم کی جھرجھری کا اہتمام بھی باآسانی کر دیا جاتا ہے۔ اس کام کے لئے کچھ حکیم اور سنیاسی باوے بھی مارکیٹ میں موجود ہیں جو سال خوردہ نوجوانوں کی جوانی برقرار رکھنے کے لئے شہر بھر کی دیواروں کو اپنے کرتوتوں سے کالا کرتے ہوئے اس کالک کو لوگوں میں منتقل کرنے کے لئے بڑے بڑے دعوے کرتے دکھائی دیتے ہیں اور متعدد سادہ لوح حضرات ان کے پھیلائے ہوئے جال میں پھنس جاتے ہیں۔
پاکستان میں آبادی کا سب سے بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے لہٰذا آبادی کا مسئلہ قابو میں نہیں آ پا رہا کیونکہ کہا جاتا ہے کہ جوانی ایک منہ زور گھوڑے کی طرح ہے جس کو لگام نہیں دی جا سکتی۔ پوری دنیا میں ہم نوجوانوں کی بڑی تعداد رکھنے کے باوجود بے لگام ہونے کا جھومر ماتھے پر سجائے سر پٹ دوڑے چلے جا رہے ہیں لہٰذا ہمارے پاس اس مسئلے کی وجہ سے سر پیٹنے کے علاوہ کوئی حل دستیاب نہیں۔

Browse More Urdu Columns