Jhingar Ka Janaza - Article No. 2343

Jhingar Ka Janaza

جھینگرکاجنازہ - تحریر نمبر 2343

میری سب کتابوں کو چاٹ گیا۔بڑاموذی تھا۔ خدا نے پردہ ڈھک لیا۔ اُفوہ جب اس کی لمبی لمبی دومونچھوں کا خیال کرتا ہوں۔

پیر 31 دسمبر 2018

خواجہ حسن نظامی

میری سب کتابوں کو چاٹ گیا۔

(جاری ہے)

بڑاموذی تھا۔ خدا نے پردہ ڈھک لیا۔ اُفوہ جب اس کی لمبی لمبی دومونچھوں کا خیال کرتا ہوں۔
جووہ مجھ کودکھا کر ہلایا کرتا تھا توآج اس کی لاش دیکھ کربہت خوشی ہوتی ہے۔
بھلا دیکھوتوقیصرولیم کی برابری کرتا تھا۔

اس جھینگرکی داستان ہرگزنہ کہنا۔

اگردل سےعہدنہ کیا ہوتا۔کہ دنیا میں جتنےحقیروذلیل مشہور ہیں۔ میں ان کوچارچاند لگا کرچمکاؤں گا۔

ایک دن اس مرحوم کومیں نےدیکھا کہ حضرت ابن عربی کی فتوحات کمیہ کی ایک جلدمیں چھپا بیٹھا ہے۔

میں نےکہا کیوں رےشریرتویہاں کیوں آیا۔اُچھل کربولا ذرااس کا مطالعہ کرنا تھا سبحان اللہ۔
بھائی کیا خاک مطالعہ کرتےتھے۔ بھائی یہ توہم انسانوں کا حصہ ہے۔
بولاوہ قرآن نےگدھےکی مثال دی ہےکہ لوگ کتابیں پڑھ لیتےہیں مگرنہ ان کوسمجھتےہیں نہ ان پرعمل کرتےہیں۔
لہٰذا
وہ بوجھ اٹھانےوالےگدھےہیں۔ جن پرعلم وفضل کی کتابوں کا بوجھ لداہوا ہے۔

مگرمیں نےاس مثال کی تقلید نہیں کی۔ خدامثال دیناجانتا ہے۔

توبندہ بھی اس کی دی ہوئی بلاغت سے ایک نئی مثال پیدا کر سکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان مثل ایک جھینگر کی ہے۔
جوکتابیں
چاٹ لیتےہیں۔ سمجھتےبوجھتےخاک نہیں۔

جتنی یونیورسٹیاں ہیں سب میں یہی ہوتا ہے۔

ایک شخص بھی ایسا نہیں ملتا جس نےعلم کوعلم سمجھ کرپڑھا ہو۔

جھینگرکی یہ بات سن کرمجھ کوغصہ آیا۔ اورمیں زور سےکتاب پرہاتھ مارا، جھینگرپھدک کردوسری کتاب پرجابیٹھا اورقہقہہ مارکرکہنےلگا۔

واہ خفا ہوگئےبگڑ گئےلاجواب ہوکرلوگ ایسا ہی کیا کرتےہیں۔

لیاقت تو یہ تھی۔

کہ کچھ جواب دیتے۔ لگےناراض ہونےاوردھتکارنے۔

ہائےکل تویہ تماشہ دیکھا تھا۔

آج غسل خانہ میں وضوکرنےگیا تو دیکھا۔ بچارے جھینگرکی لاش کالی چیونٹیوں کےہاتھوں پررکھی ہے۔
اوروہ
اس کودیوار پرکھینچے لئےچلی جاتی تھی ۔

جمعہ کا وقت قریب تھا۔

خطبہ کی اذان پکاررہی تھی۔دل نےکہا جمعہ توہزاروں آئیں گے۔خداسلامتی دے۔
نمازپھرپڑھ
لینا۔اس جھینگرکےجنازےکوکندھادینا ضروری ہے۔یہ موقعےباربارنہیں آتے۔

بےچارہ غریب تھا۔

خلوت نشین تھا۔ خلقت میں حقیروذلیل تھا۔ مکروہ تھا۔غلیظ سمجھاجاتا تھا۔
اسی
کا ساتھ نہ دیا توکیاامریکہ کےکروڑپتی راک فیلرکےشریک ماتم ہونگے۔

اگرچہ اس جھینگرنےستایا تھا۔ جی دکھایا تھا۔ لیکن حدیث میں آیا ہےکہ مرنےکےبعد لوگوں کا اچھےالفاظ میں ذکرکیا کرو۔

اس واسطےمیں کہتا ہوں۔

خدا بخشےبہت سی خوبیوں کا جانورتھا۔

ہمیشہ دنیا کےجھگڑوں سےالگ کونےمیں کسی سوراخ میں بورئیےکےنیچےآبخورے کےاندرچھپا بیٹھا رہتا تھا۔

نہ بچھوکا سا زہریلا ڈنک تھا،نہ سانپ کا ساڈسنےوالا پھن۔

نہ کوےکی سی شریرچونچ تھی۔ نہ بلبل کی مانندعشق بازی۔
شام کےوقت عبادت رب کےلئےایک مسلسل بین بجاتا تھا۔اورکہتا تھا کہ یہ غافلوں کےلئےورہے۔
اورعاقلوں
کےلئے جلوۂ طور۔

ہائےآج غریب مرگیا۔ جی سےگذرگیا۔ اب کون جھینگرکہلائےگا۔

اب ایسا مونچھوں والا کہاں دیکھنےمیں آئےگا۔ ولیم میدان جنگ میں ہے۔
ورنہ اسی کو دوگھڑی پاس بٹھا کرجی بہلاتےکہ مری مٹی کی نشانی ایک یہی بےچارہ دنیا میں باقی رہ گیا ہے...........۔

ہاں تو‘‘جھینگرکاجنازہ ہےذرادھوم سےنکلے’’چیونٹیاں تواس کواپنے پیٹ کی قبرمیں دفن کردیں گی۔

میراخیال تھا کہ ان شکم پرستوں سےاس توکل شعارفاقہ مست کوبچاتا۔
اورویسٹ منسٹریبےیا قادیان کےبہشتی مقبرہ میں دفن کراتا۔ مگرجناب یہ کالی چیونٹیاں بھی افریقہ کےمردم خورسیاہ وحشیوں سےکم نہیں۔
کالی جوچیزبھی ہو۔ ایک بلائے بےدرماں ہےاس سےچھٹکاراکہاں ہے۔

خیرتومرثیےکےدو لفظ کہہ کرمرحوم سےرخصت ہونا چاہئے۔

؎

جھینگر کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے

قیصر کا پیارا ہے اسے توپ پہ کھینچو

اے پروفیسراے فلاسفر۔

اےمتوکل درویش۔ اے نغمۂ ربانی گانےوالےقوال ہم تیرےغم میں نڈھال ہیں۔
اورتوپ کی گاڑی پرتیری لاش اٹھانےکا اوراپنےبازو پرکالا نشان باندھنےکا ریزولیوشن پاس کرتےہیں۔
خیراب
توتوشکم مورکی قبرمیں دفن ہوجا۔ مگرہم ہمیشہ ریزولیوشنوں میں تجھےیاد رکھیں گے۔

Browse More Urdu Columns