Jigar Narkh Ke Tukre - Article No. 2376

Jigar Narkh Ke Tukre

جگرنرخ کے ٹکڑے - تحریر نمبر 2376

مذاہب نےغدر،فساد،ڈاکہ زنی کوبہت معیوب قراردیا ہے۔ جولوگ ایسا کرتےہیں اپنےدین دھرم کی جڑکاٹتےہیں۔ یہ کھیتی نہ رہی توایمان اوربھی مہنگا ہوجائےگا۔

پیر 18 فروری 2019

خواجہ حسن نظامی
کاغذ کی گرانی ۔ہندوستان میں جتنےکارخانےکاغذ بنانےکےہیں۔
وہ رات دن بچاری کلوں کوچلاتےہیں۔ پل بھرکاآرام نہیں لینےدیتے۔

(جاری ہے)

گھاس اورگودڑ ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ جن سے کاغذ بنایا جاتا ہے۔
اس پر بھی پوری نہیں پڑتی۔ کاغذ کا بھاؤ دن بدن گھڑی بہ گھڑی۔
منٹ بہ منٹ۔ سکنڈ بہ سکنڈ بڑھتا چلا جاتا ہے۔ غریب اخبار والےرسالےوالےاورسب کاغذ چھاپ کرقومی،ملکی،اورشکمی خدمت کرنے والےحواس باختہ ہیں۔
بٹوے سےروپے نوٹ نکال نکال کر دے رہے ہیں۔ اور کاغذی بس نہیں کرتے۔
کہتے ہیں اورلاؤ۔ کوئی کہےلالہ صاحب میاں جی کےدل پر ہاتھ رکھ کرتودیکھو۔
وہ کمبخت دھڑک رہا ہے۔ اور کاغذ کی گرانی سے سہما جاتا ہے۔
کاغذ کا بھاؤ یہی رہا۔ یعنی اس کی تیزی بڑھتی رہی تواخباروں اوررسالوں کا چھاپنا دوبھر ہوجائےگا۔
اورضرورت جو ایجاد کی ماں کہلاتی ہے۔ حسب ذیل ایجاد یں کرائے گی۔

ہردفتراخبارکا ایک ایجنٹ ہرشہرمیں مقررہوگا۔ جس کوخبریں اورمضامیں خط میں لکھ کربھیج دیئےجائیں گے۔

وہ سب خریداروں کےپاس جاجا کرمضامین اورخبریں سنادیاکرےگا۔

1. کپڑے پراخبارچھپیں گے۔

2. کونسلوں میں انربل ممبرسوال کرکےگورنمنٹ سے یہ حق حاصل کریں گے۔

کہ گانوں کےچوکیدار۔ پٹواری، پوسٹ ماسٹر،اسکول ماسٹر،ڈاکٹر حکیم، وید، امام، پیر روزانہ ڈپٹی کمشنربہادرکےہاں حاضرہوں۔
اوران سےتازہ خبریں اورمضامین حاصل کرکےپبلک کو سنائیں اورجس قدراخبارات اوررسالہ ہیں ان کےمالکوں کوجنگ کےکریٹ سےراشن مل جایا کرے۔

3. دواؤں کی گرانی۔ ولایت کی بعض دوائیں اس قدرگراں ہوگئی ہیں جس کے سننےسےبخارچڑھ آئے۔

ایک روپیہ قیمت کےعوض بعض دوائیں چالیس روپے تک پہنچ گئی ہیں۔

ولایت پرحصرنہیں، ہندوستان کی یونانی ویدک ادویات کا بھی یہی عالم ہے۔

مشہوردواخانہ ہندوستانی دہلی نےبھی سوائی ڈیوڑھی اوربعض دواؤں کی دوگنی تگنی قیمت کردی ہےایسی حالت میں سوائےاس کےکچھ چارہ نہیں کہ ملک کےنامورحکیم وید ڈاکٹرجمع ہوکرعلم مسیرنرم سیکھ لیں اوراس کےذریعےامراض کاعلاج کریں یاوحشیانہ معالجات کارواج جاری کیاجائے۔
اوروہ داغ ناخون نکلنا ہے۔ کیونکہ ہرزمانہ میں تہذیب ووحشت کااسی طرح سےمقابلہ ہوتا آیا ہے۔
کبھی تہذیب کا غلبہ ہوتا ہے۔ کبھی وحشت کا۔

کپڑے کی گرانی۔

روئی کت رہی ہے۔ سوت بنا جارہا ہے۔ کلف تھانوں سےگلےمل رہی ہے۔
اس پربھی غل ہےکہ کپڑے کا بہاؤ چڑھتا جاتا ہے۔ غریب لوگ ایسا مہنگا لباس نہیں خریدسکتے۔

کیا مضائقہ ہےآدمی برہنا پیداہوتا ہےجس سےمعلوم ہواکہ فطرتی اورنیچرل لباس برہنگی ہے۔

نیچرانسان کوہمیشہ اصلیت کی طرف لاتی ہے۔پس رفتہ رفتہ وہ مجبورہوجائےگا۔
اوراپنےمصنوعی لباسوں کوجوباعث تکلیف ہیں خیربادکہہ دے گا۔ یہ حالت اسی وقت کاپیش خیمہ ہے۔

ایمان کی گرانی۔ ہندوستان والےہندوستان والوں پرڈاکےڈالتےہیں۔ اورکہتے ہیں کہ ہم ملک کی خدمت کےواسطےروپیہ جمع کرتےہیں۔

مگراس اقتصادی مسئلہ پرغورنہیں کرتےکہ امن میں ایمان ارزاں ہوتا ہے۔
اوربےامنی میں گراں۔ انہوں نےجنس ایمان کوفسادمچاکرمہنگاکردیا ہے۔ایمان ہی ہاتھ نہ آیا توملک کی ترقی کس کام آئےگی۔

مذاہب نےغدر،فساد،ڈاکہ زنی کوبہت معیوب قراردیا ہے۔ جولوگ ایسا کرتےہیں اپنےدین دھرم کی جڑکاٹتےہیں۔

یہ کھیتی نہ رہی توایمان اوربھی مہنگا ہوجائےگا۔

خوشی کی گرانی۔

ساری زندگی کی بنیاد اطمینان اورخوشی پر ہے۔ آج کل یہ ساری دنیامیں گراں پائی جاتی ہے۔
سونےکی گنی پرچند آنےبڑھ گئے ہیں۔اورخوشی کی نیند پرکروڑوں اشرفیوں کااضافہ ہوگیا۔

بچےہرقوم کےہمیشہ خوش رہتےہیں۔اورکسی غم کوپاس نہیں آنےدیتےمگراس وقت نےلاکھوں بچوں کی خوشی بھی چھین لی۔

لڑائی میں ان کےباپ مارےگئے۔ تب بھی وقت نےان کوخوشی نہ دی۔
یعنی ان کوامن نہ اورمسافری کےجہازوں میں گولےمارمارکران بچوں کوڈبودیا۔

یہ وقت چھوٹی قیامت ہے جہاں ماں باپ بچوں کو اور بچےماں باپ کو اپنےغم میں بھول گئےہیں۔

غم کی ارزانی۔ غم بہت سستاہوگیا۔ محرم آنےسےپہلےاس کوخرید کرگھروں میں بھرلینا چاہئے۔

عاشق مزاج تلاش غم میں سرگرداں پھرتےتھے۔ آج بازار بھرمیں یہ جنس اتنی ارزاں ہے۔

جس کی کچھ حد نہیں۔ کوئی ان کوخبردیدے۔

غم اورفکرسنگدل آدمیوں کا قدرتی علاج ہے۔

بڑے بڑے سرکش فرعون غم دہرکےآگے سرنگوں ہوجاتے ہیں۔آج کل غم اتنا سستا ہےکہ شاید دنیا سےکبرونخوت دورہونےکا وقت آیا ہے۔

بےحیائی کی ارزانی۔ ہرچیزکی گرانی نےحیا فروش فرقہ کی ارزانی کردی ہے۔

یہ خطرناک ارزانی ہے۔ حکومت ، سوسائٹی، اہل شریعت کو اس طرف جلدی متوجہ ہونا چاہئے ورنہ ارزانی پرست ہندوستان اس ڈاکوجماعت کےجال میں کثرت سے پھنس جائے گا۔

مکرودغا کی ارزانی۔ ایمان کی گرانی کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہندوستان میں مکرودغا کا مول گھٹ گیا۔

مکاری کو پالیسی اورعقلمندی کہتے ہیں۔ اورادنےٰ درجے والے بھی جو ہمیشہ کھرے ہوا کرتےتھےقریبی منافق بنتےجاتے ہیں۔
اس پرطرہ یہ کہ اس کوجائزاورشان ہوشمندی سمجھتے ہیں۔ یہ ادنی اصلاح اور روک تھام کے قابل ہےایسا نہ ہو تومرض بےدوااورلاعلاج ہوجائےگا۔

Browse More Urdu Columns