Meri Room Mate - Article No. 2402

Meri Room Mate

میری روم میٹ - تحریر نمبر 2402

سنا ہےشبِ معراج کوتمام رات عبادت کرنےکےبعد جودعامانگی جائےوہ ضرورپوری ہوتی ہے۔ اگر واقعی اس رات کی دعامیں قبولیت کےذرا بھی امکانات ہیں تواےخدائے دوجہاں! اے وہ جس نےمجھےاورمیری روم میٹ کو پیدا کیا

بدھ 3 اپریل 2019

شفیقہ فرحت

سنا ہےشبِ معراج کوتمام رات عبادت کرنےکےبعد جودعامانگی جائےوہ ضرورپوری ہوتی ہے۔

اگر واقعی اس رات کی دعامیں قبولیت کےذرا بھی امکانات ہیں تواےخدائے دوجہاں! اے وہ جس نےمجھےاورمیری روم میٹ کو پیدا کیا اورجو ہم دونوں کوجلائےجارہا ہے۔

(جاری ہے)

میرا مطلب ہےانھیں جلا رہا ہےاورمجھےماررہا ہے۔ میں تجھےحاضروناظرجان کروعدہ کرتی ہوں کہ اب کی شب معراج میں دس بارہ پیالی چائےپی کرمیں بھی جاگوں گی اورتمام رات جاگ کرکرشن چندرکےافسانےیا فیض احمد فیض کی غزلیں پڑھنےیا جاگنے میں خواب دیکھنےکےبجائےخضوع وخشوع سےنمازیں پڑھوں گی۔
سجدے
میں سررکھ کرکسی تازہ فلم کی ہیروئن کےبلاوزکےنئےڈیزائن کےمتعلق نہیں سوچوں گی اور تسبیح پر ہاتھ پھیرتےہوئےآئندہ اتوارکو سہیلیوں کودی جانےوالی پارٹی کا مینوبھی نہیں بناؤں گی۔
بلکہ
صدق دل سےتیری عبادت کروں گی اورجب کسی دھارمک فلم کےپوترسین کی طرح درودیوار سےنوربرسنےلگےگا اوربغیرایوننگ اِن پیرس کی شیشی کھولےسارہ کمرہ بھینی بھینی مدہوش کن خوشبو سےمہک اٹھےگا اورسرخود بخود جذبۂ بصیرت سےسجدےمیں جاپڑے گا۔
یعنی وہ گھڑی آجائےگی جب میری ایک جنبش لب سےدنیا کی ہرنعمت میرےقدموں پرآسکتی ہےتو اے خدائے دوجہاں میں تجھ سےصرف یہ التجا کروں گی کہ مجھےمیری روم میٹ سےنجات دلادے!!

ممکن ہےآپ یہ سوچ رہےہوں کہ میں اورمیری روم میٹ ایک دوسرے کےجانی دشمن ہیں۔

ہر صبح آنکھ کھولتےہی بلکہ اکثرآنکھیں کھولےبغیرلڑنا شروع کردیتےہیں اور پھرتھوڑے تھوڑے وقفے کےبعد یہ لڑائی دن بھرہوتی رہتی ہے۔
حتیٰ کہ رات کوخواب میں بھی ہم لڑتےرہتے ہیں۔ اوراس روز روزبلکہ منٹ منٹ کےلڑائی جھگڑےسےتنگ آکرمیں یہ دعا مانگ رہی ہوں۔

توعرض یہ ہےکہ اتنی محنت سےاخذ کیےہوئےآپ کےیہ نتائج قطعی غلط ہیں۔

ہم دونوں میں آج تک کبھی لڑائی نہیں ہوئی۔ وہ دن بھرمسکرا مسکرا کر باتیں کرتی ہیں۔
دن میں چارچھ مرتبہ نہایت عمدہ قسم کی چائےبنا کےپلاتی ہیں۔
اپنی کتابیں قلم پنسل ہرچیزوقت ضرورت استعمال کےلیےدے دیتی ہیں۔
نتیجہ کےطورپرمیں اپنی کتابوں سےزیادہ ان کی کتابیں،اپنےقلم سےزیادہ ان کا قلم اوراپنے کپڑوں سے زیادہ ان کےکپڑے استعمال کرتی نظرآتی ہوں۔

تب توآپ سوچ رہےہوں گےکہ یقیناً میرادماغ خراب ہوگیا ہےاتنی اچھی اچھی اتنی نیک روم میٹ سے بیزارہوں۔

اب تک تو میرا دماغ خراب نہیں ہوا ہےلیکن اگرروم میٹ نہ بدلی گئی توانشاءاللہ جلد ہی خراب ہوجائےگا۔
!

اگروہ محض میری روم میٹ ہوتیں تو مجھےان کےوجود پرکوئی اعتراض نہ ہوتا۔

مگراب اِس بدقسمتی کو کیا کہئےکہ روم میٹ ہونےکےعلاوہ وہ افسانہ نگاربھی ہیں۔
!ان
کی رگ رگ میں ایک عظیم آرٹسٹ کی روح تڑپ رہی ہے۔
ان کی ساری عادتیں اٹھنا بیٹھنا، سونا جاگنا، کھانا پینا غرض کہ پسند نا پسند ہرچیزانتہائی آرٹسٹک قسم کی ہے۔
یہ اور بات ہے کہ ان کےدس میں سےپانچ افسانے شکریےکےساتھ واپس آجاتے ہیں۔
اور باقی پانچ وہ خود بھیجتی ہی نہیں۔!

انھیں اپنےافسانوں کےواپس آنےکا تواتنا رنج نہیں جتنا اس بات کا ہےکہ لوگوں کا خصوصاً ایڈیٹروں کا مطالعہ اتنا محدود اورفروق اتنا پست ہےکہ وہ ان کےافسانوں کوسمجھ نہیں سکتے۔

جب کوئی افسانہ واپس آتا ہےتو وہ ماتمی مجلس منعقد کرکےزبان وادب کی زبوں حالی پر آٹھ آٹھ آنسو روتی ہیں اوراشاروں اورکنایوں میں اہل مجلس کواس بات پرمجبورکرتی ہیں کہ واپس آئےہوئےافسانےکی شان میں قصیدے پڑھےجائیں۔

اوراب اسےمیری قسمت کی خوبی کہئےکہ مجھےاس قسم کی ہرمجلس میں شرکت کرنی پڑتی ہے۔

ماتمی مجلسیں عموماً کمرے میں ہی منعقد ہوتی ہیں اور وہ مجھےذرا خبرنہیں کرتیں تاکہ میں بطوراحتیاط اس روزکمرے سےباہر ہوسٹل سےباہر بلکہ سرے سےشہرسے ہی باہرنہ چلی جاؤں۔

چنانچہ میں شام کو ڈائیننگ ہال سےچائے پینے اور گپیں ہانکنےکےبعد اس اروے سےکمرے میں آتی ہوں کہ ذراکپڑے بدل کرکھیلنےجاؤں۔
دروازہ کھولتے ہی ٹھٹھک جاتی ہوں۔ کمرے میں میری روم میٹ اوران کی سوا درجن سہیلیاں براجمان ہیں۔
مجھےدیکھتے ہی روم میٹ صاحبہ بال بکھیرے ماتمی چہرہ بنائےمرثیہ پڑھنےکے انداز میں فرماتی ہیں۔
‘‘آؤ
آؤ تمہارا ہی انتظارکررہےتھے ہم لوگ۔’’

میں فوراً انتظار کی نوعیت کو سمجھ جاتی ہوں اور خود کودل ہی دل میں گالیاں دیتی ہوں کہ اگر انھیں کپڑوں میں کھیلنےچلی جاتی تو کون سی قیامت آجاتی۔

زیادہ سے زیادہ یہی ہوتا ناکہ خوب صورت سی ریشمی ساڑی پاؤں میں آکر نیچےسےبالکل پھٹ جاتی۔
مگر اب کپڑے بدلنےکی حماقت کر کےتو میں نےاس سےبڑی آفت مول لےلی ہے۔
بہرحال یہ جانتےہوئے بھی کہ اب یہاں سےرہائی ممکن نہیں میں کوشش ضرورکرتی ہوں۔

‘‘اچھا تو تم لوگ بیٹھو۔ میں ابھی بیڈمنٹن کھیل کےآتی ہوں۔

’’

‘‘اجی اب بیڈمنٹن ویڈمنٹن رہنے بھی دونا۔ یہاں ہماری جان پربنی ہےاورآپ کوکھیل کی سوجھی ہے۔

’’ادھرسےارشاد ہوتا ہے۔

اب ظاہرہےکہ کھیل کمبخت کسی کی جان سےبڑھ کرتوہونہیں سکتا اس لیےمسیحا بن کرکسی کی جان بچانےکی خاطراپنی جان جلانا شروع کردیتی ہوں۔

مجھےاس طرح آمادہ دیکھ کران کی کوئی ہمدرد مطلع عرض کرتی ہیں۔

‘‘دیکھونا مِملا بیچاری کا افسانہ پھرواپس آگیا۔ یہ کمبخت رسالےوالے...’’ اوروہ غزل مکمل کرنےکےفرائض مجھ پرڈال دیتی ہیں۔

‘‘کون سا افسانہ۔’’ادھورے مصرعےکو نظراندازکرکےمیں پوچھتی ہوں۔

‘‘وہی جو میں نےتمہیں اُس دن سنایا تھا۔

’’

‘‘بھئی تم تومجھے روز ہی دس بارہ افسانےسناتی رہتی ہو۔

’’میں ان کی بیچارگی کوبھول جاتی ہوں کیوں کہ گراؤنڈ پر لڑکیاں خوب شورمچارہی تھیں جس کا مطلب تھا کھیل زوروں پر ہے۔

‘‘ارے وہی والا جو ٹیلے پربیٹھ کرسنایا تھا۔’’

‘‘اوبھئی۔ ان مبہم اشاروں کوکیسےسمجھوں افسانےتو تم نےمجھےکمرے میں، باغ میں ٹیلے پر غرضیکہ ہر جگہ بیٹھ کر کھڑے ہوکر بلکہ چلتےپھرتےسنائےہیں۔

میں ان سب کو کیسے یاد رکھوں—؟’’

‘‘تم افسانہ ہی جودیکھ لو۔

’’وہ کاغذ کا پلندہ میری طرف بڑھاتی ہیں۔میں اسےالٹ پلٹ کردیکھتی ہوں۔
وہ چند سیکنڈ نہ جانےکس مشکل سےانتظارکرتی ہیں کہ میں افسانےکی تعریف میں زمین آسمان کے قلابےملادوں شروع شروع میں ذرا سچائی کےموڈ میں زیادہ رہا کرتی تھی۔
اس لیےایسےالفاظ نہیں ملتےتھےجس سےکہ بات حقیقت سےزیادہ پرے بھی نہ ہو اوران کی دلشکنی بھی نہ ہو۔
لیکن چوں کہ بہت جوڑ توڑ کےبعد بھی یہ ممکن نہ تھا اس لیےمیں سوچتی ہی رہ جاتی اوروہ خود ہی کہتیں۔

‘‘اب ایسا برابھی تونہیں ہے۔ان کےپرچےمیں توایسےایسےافسانےآتے ہیں کہ لکھنے والے شائع کرنےوالے دونوں کا منہ نوچ لینےکوجی چاہتا ہے۔

اس کا پلاٹ تو خاصا اچھا ہے۔!’’

میں نہایت سعادت مندی سےسرہلاکران کےاس پلاٹ کی داد دیتی ہوں جس کا ہیرو لکھ پتی کروڑ پتی کا اکلوتا بیٹا ہوتا ہےاور ہیروئن مالی، دھوبی، مہتر، چماریا ایسےہی کسی آدمی کی چندے آفتاب چندے مہتاب بیٹی۔

ہیرو ہیروئن کو برتن مانجھتے،جھاڑو دیتے یا سڑک کوٹتےدیکھ لیتا ہےاور دیکھتےہی اپنی اکلوتی جان سےعاشق ہوجاتا ہے۔
اور
رسید کےطور پرہیروئن غش کھا کرگر پڑتی ہے۔پھرمزیدنالائقی کا ثبوت دیتےہوئےدونوں چھپ چھپ کرملتے ہیں حسب روایت پکڑےجاتے ہیں۔
ہیروئن
کوہیروکا باپ یا اس کی ماں یا اس کی دادی چٹیا پکڑکرگھرسےنکال دیتےہیں۔
اور ہیرو کسی کروڑپتی کی لڑکی سےجو ہمیشہ بدصورت جاہل، پھوہڑ اورلڑاکا ہوتی ہےشادی کردی جاتی ہے۔
عشق
کےبعد دق کے درجےشروع ہوتےہیں یعنی شادی کےفوراً بعد ہیروہیروئن کو دق ہوجاتا ہے۔
اگر
دق نہ ہوتا تو وہ زہرکھالیتے ہیں۔ زہرنہ ملےتوکپڑوں پرتیل چھڑک کےہنسی خوشی خود کو شعلہ زاربنا لیتےہیں۔
اور
جویہ بھی نہ ہوتوندی میں ڈوب کےٹھنڈے ٹھنڈے جنت کو

Browse More Urdu Columns