Painter Babu - Article No. 2348

Painter Babu

پینٹر بابو - تحریر نمبر 2348

بھلے وقتوں میں پینٹر حضرات معاشرے کا اہم ترین حصہ ہوتے تھے جو اپنے فن کے کمالات دکھا کر لوگوں کو حیرتوں میں مبتلا کر دیا کرتے تھے۔

Syed Qamar Bukhari سید قمر بخاری بدھ 2 جنوری 2019

بھلے وقتوں میں پینٹر حضرات معاشرے کا اہم ترین حصہ ہوتے تھے جو اپنے فن کے کمالات دکھا کر لوگوں کو حیرتوں میں مبتلا کر دیا کرتے تھے۔ شہر کے تمام بل بورڈز، سائن بورڈز اور دیواروں پر لکھی ہوئی تحریریں ان کے فن کا شاہکار ہوا کرتی تھیں۔ ٹیکنالوجی کی چلنے والی آندھی نے فلیکس مشینوں کی صورت میں پینٹر حضرات کے ٹھکانے ہم سے چھین لئے ہیں۔ پینٹر حضرات بہت باکمال اور ہنرمند ہوا کرتے تھے اگر ان کی تعلیمی قابلیت کا تذکرہ کیا جائے تو تعلیم سے زیادہ قابلیت ان کے لئے سند کا درجہ رکھتی تھی۔
تعلیم و تربیت میں وقت ضائع کرنے والے اس منصب جلیلہ پر فائز نہیں ہو سکتے تھے اس لئے آپ نے کبھی کسی پی ایچ ڈی کو دیواریں لکھتا ہوا نہیں پایا ہو گا۔ تاہم مجھے یہ اعزاز حاصل ہوا ہے کہ میں نے اپنی گناہگار آنکھوں سے ایک پی ایچ ڈی کو اپنے فن کے جوہر بطور پینٹر منواتے ہوئے دیکھا ہے۔

(جاری ہے)

موصوف کا نام تو پرویزحسین ڈار تھا مگر وہ اختصار سے خود کو پی ایچ ڈی کہلاتے تھے۔

وہ دعویٰ کرتے تھے کہ شہر کے سب سے بڑے پینٹر ہیں اور اس بات کی گواہی شہر کا ہر فرد دیا کرتا تھا کیونکہ سات فٹ قد کی وجہ سے شہر کے تمام پینٹروں اور آرٹسٹوں میں وہ سب سے بڑے اور نمایاں تھے۔ پرویز حسین ڈار برش سے تمام کام لے لیا کرتے تھے۔ صبح اس سے ٹوتھ پیسٹ کر کے دکان پر آتے اس لئے ان کے دانت موتیوں کی طرح چمکنے کی بجائے دھنک کے سات رنگوں کی طرح دمکتے دکھائی دیتے تھے۔
اسی برش سے شیو کرنے کے علاوہ بالوں کو خضاب بھی لگا لیا کرتے تھے۔ ان کی بیگم بلدیاتی کونسلر تھیں لہٰذا صبح گھر سے روانہ ہونے سے پہلے اپنے شوہر سے اسی برش کے ذریعے چہرے پر میک اپ کا اہتمام کرتی تھیں لہٰذا انہیں دیکھنے والوں کا کبھی ایک رنگ آتا تھا تو کبھی ایک رنگ جاتا تھا ۔ اسی برش سے وہ اپنی اکلوتی شلوار میں ہر صبح نالہ نکال کر دوبارہ ڈال لیا کرتے تھے۔
ان کا خیال تھا کہ اس عمل سے نہ صرف صبح صبح ورزش ہو جاتی ہے بلکہ نالہ رواں دواں بھی رہتا ہے۔ گھر سے نکلتے وقت اسی برش سے وہ اپنے ست رنگی بوٹ کو پالش کرنے سے بھی باز نہیں آتے تھے لیکن کبھی کبھار جوتے پالش کرنے کے بعد انہیں دانت صاف کرنے کا خیال آتا تھا تو وقت ضائع کئے بغیر لگے ہاتھوں اسی برش پر ٹوتھ پیسٹ لگا کر دانتوں کو چمکانے میں کسی تامل سے کام نہیں لیتے تھے۔
لہٰذا دن بھر ان کے منہ سے بوٹ پالش کی خوشگوار خوشبوئیں پھوٹتی رہتی تھی اس لئے انہیں کبھی کسی ما ¶تھ واش کی ضرورت اپنی زندگی میں محسوس نہیں ہوئی۔ متعدد بار انہوں نے کیبل گزارنے کے لئے برش کی ڈنڈی سے گھر کی کھڑکی کی جالی میں سے اصلی سوراخ کرنے کا اہتمام بھی کیا اور ان کا خیال تھا کہ گھروں میں اس قسم کے چھوٹے سوراخ کیبل کے علاوہ لوگوں ”کے بَل“ نکالنے کے لئے سوراخ رسانی کے کام بھی آ سکتے ہیں۔
اسی برش کی باریک ڈنڈی سے وہ نوڈلز اور سویاں اس طرح کھایا کرتے تھے جیسے چینی اور جاپانی لوگ سٹک کے ساتھ کھاتے ہیں۔ موصوف برش کی اسی ڈنڈی پر روئی لپیٹ کر دکان کے علاوہ اپنے کان بھی صاف کر لیا کرتے تھے۔ اس لئے ان کے تجربے کا نچوڑ یہ تھا کہ ڈنڈی والے برش سے صرف مکانوں کے پردے ہی نہیں پھٹتے بلکہ کانوں کے پردے بھی پھٹ سکتے ہیں۔ زیادہ صفائی کی وجہ سے حالانکہ ان کے کانوں کا پردہ پھٹا ہوا تھا تاہم اس کے باوجود بھی وہ پردے کا بہت خیال رکھتے تھے۔
دنیاوی علوم حاصل نہ کر سکنے کے باوجود وہ ہمیشہ دانش کی بات کیا کرتے تھے۔ دانش ان کا ایک بہت ہی خوبصورت اور پیارا پیارا سا شاگرد تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ علم چونکہ اساتذہ کے ذریعے منتقل ہوتا ہے اس لئے جس طرح انہوں نے اسے سیکھا، اسی طرح ہی جیسے ہے جہاں ہے کی بنیاد پر اسے منتقل کر دیا۔ اس کام میں وہ اکثر ڈنڈی بھی مار لیا کرتے تھے کیونکہ بعض شاگرد بہت شرارتی واقع ہوئے تھے۔
جس کی وجہ سے برش کی ڈنڈی سے ان کی مرمت کرنا پڑ جاتی تھی۔ لوگوں نے کبھی اس قدر اپنے اعمال کو کالا نہیں کیا ہو گا جتنا ڈار نے شہر کی ایک ایک ”وال“ کو کالا کر رکھا تھا اور شہر کی دیواریں اس منہ کالا پن پر شرمندہ دکھائی دیتی تھیں۔ شہر بھر کے تمام بنگالی بابے، سنیاسی باوے، عامل، نیم حکیم اور پنکھوں و موٹروں والوں نے ان سے ماہانہ بنیادوں پر معاہدے کر رکھے تھے۔
لہٰذا انہوں نے سال بھر اپنی مرضی سے شہر کی دیواریں کالی کرنے میں کسی سستی اور کاہلی کو آڑے نہیں آنے دیا۔ پی ایچ ڈی شروع شروع میں سینما ہالز کے باہر فلمی بورڈز بنایا کرتے تھے جس میں فنکاروں کے فن کی بلندیوں کو کئی کئی فٹ بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا تھا۔ وہ ایک نفاست پسند انسان تھے لہٰذا اداکاروں اور اداکارا ¶ں کے لباس میں اگر درزی سے کہیں کوئی لغزش رہ جاتی تھی تو وہ اپنے فن سے اسے پورا کر دیا کرتے تھے۔
موصوف آرٹسٹوں کے لباس کو حسب خواہش چھوٹا بڑا بھی کرنے میں یدطولیٰ رکھتے تھے۔ وہ دینی حوالے سے اپنے فن کا سہارا لے کر آرٹسٹوں کے لباس میں اپنی مرضی سے ترمیم کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے تھے۔ ان کے خیال میں چونکہ ریشم انتہائی مہنگا اور لوگوں کے لئے حسرت کا باعث ہوتا ہے لہٰذا وہ اداکارا ¶ں کی ریشم کی کرُتی کو اسی نیت سے ململ کی کرُتی میں تبدیل کر دیا کرتے تھے۔
ان کے تخیل کی پرواز بہت بلند تھی لہٰذا وہ ہمیشہ خواتین کے لمبے بالوں کو پسند کرتے تھے اگر غلطی سے کسی اداکارہ نے بوائے کٹ کرا رکھی ہوتی تھی تو کئی فٹ بال اپنی طرف سے ڈال دیا کرتے تھے۔ ان کے فلمی بورڈز اتنے بڑے ہوا کرتے تھے کہ دور دور سے لوگ انہیں دیکھنے کے لئے جوق در جوق آتے تھے اور کئی منچلے تو انہی تصاویر سے پوری فلم کا لطف اٹھا کر واپس لوٹ جایا کرتے تھے۔
وہ لوگوں کی دکانوں کے باہر لگے ہوئے بورڈز لکھتے وقت ہمیشہ اپنے علم کا استعمال کثرت سے کیا کرتے تھے جس کی وجہ سے لوگوں کو نئے الفاظ دیکھنے کو میسر آتے تھے۔ کئی بار وہ لفظوں کو آپس میں جوڑ کر لفظ کی ہیئت بدل دیتے تھے جیسے کمی نہ کو کمینہ اور گھی کا کنستر کو گھیکا کنستر لکھ دینا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ اشعار کی اصلاح کا کارنامہ وہ صوابدیدی طور پر سرانجام دیا کرتے تھے لہٰذا اگر علامہ اقبال کا یہ مصرعہ انہیں لکھنا پڑ جائے ”خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے“ تو وہ اسے ”خود ہی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے“ لکھا کرتے تھے۔
وہ اپنی اس اصلاحاتی سکیم پر ڈٹ جایا کرتے تھے اور اگر کوئی ان سے اختلاف کی جسارت کرتا تو وہ پورا بورڈ کالے رنگ سے مٹا کر کہتے ،جا ¶ جس سے لکھوانا ہے لکھوا لو۔ پورے شہر میں علامہ اقبال، فیض احمد فیض، احمد فراز اور ناصر کاظمی کے اشعار کو انہوں نے اپنے شعروں کی کچھار میں بدل ڈالا تھا۔ موصوف گھروں کی نیم پلیٹوں یا افسران کے ناموں کی تختیوں کو ”پھٹی“ قرار دے کر سب کی پھٹی لکھا کرتے تھے اور اس طرح لکھا کرتے تھے کہ دیکھنے والوں کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں۔

Browse More Urdu Columns