Pyari Dakar - Article No. 2350

Pyari Dakar

پیاری ڈ کا ر - تحریر نمبر 2350

کونسل کی ممبری نہیں چاہتا۔ قوم کی لیڈری نہیں مانگتا۔ ارل کا خطاب درکار نہیں۔ موٹر،اور شملہ کی کسی کوٹھی کی تمنا نہیں۔

جمعہ 4 جنوری 2019

خواجہ حسن نظامی
کونسل کی ممبری نہیں چاہتا۔ قوم کی لیڈری نہیں مانگتا۔
ارل کا خطاب درکار نہیں۔ موٹر،اور شملہ کی کسی کوٹھی کی تمنا نہیں۔

(جاری ہے)

میں توخداسےاوراگرکسی دوسرے میں دینے کی قدرت ہوتواس سے بھی صرف ایک’’ڈکار’’طلب کرتاہوں۔
چاہتا یہ ہوں کہ اپنےطوفانی پیٹ کےبادلوں کوحلق میں بلاؤں اورپوری گرج کےساتھ باہر برساؤں۔
یعنی کڑاکےکےدارڈکارلوں۔ پرکیا کروں یہ نئےفیشن والےمجھ کو زورسےڈکارلینےنہیں دیتے۔
کہتےہیں
ڈکارآنےلگےتوہونٹوں کوبھیچ لواورناک کےنتھنوں سےاسےچپ چاپ اڑا دو۔
آوازسےڈکار لینی بڑی بےتہذیبی ہے۔

مجھے یاد ہےیہ جیمس لا ٹوش۔

یوپی کےلفٹنٹ گورنرعلی گڑھ کےکالج میں مہمان تھے۔رات کےکھانےمیں مجھ جیسےایک گنوار نےمیز پرزورسےڈکارلےلی۔
سب جنٹلمین اس بےچاری دہقانی کو نفرت سےدیکھنےلگے،برابرایک شوخ وطرارفیشن ایبل تشریف فرماتھے۔
انہوں
نےنظرحقارت سےایک قدم اورآگےبڑھادیا۔ جیب سےگھڑی نکالی اوراس کوبغوردیکھنےلگے۔
غریب ڈکاری پہلےہی گھبراگیا تھا۔ مجمع کی حالت میں متاثرہورہاتھا۔
برابرمیں گھڑی دیکھی گئی تواس نے بےاختیارہوکرسوال کیا۔ جناب کیا وقت ہے۔

شریرفیشن پرست بولا۔ گھڑی شاید غلط ہے۔ اس میں نوبجےہیں۔

مگروقت بارہ بجےکاہے کیونکہ ابھی توپ کی آواز آئی تھی۔

بےچارہ ڈکارلینےوالا سن کر پانی پانی ہوگیا کہ اس کی ڈکارکو توپ سےتشبیہ دی گئی۔

اس زمانہ میں لوگوں کوسیلف گورنمنٹ کی خواہش ہے۔ ہندوستانیوں کوعام مفلسی کی شکایت ہے۔

میں تو نہ وہ چاہتا ہوں۔ نہ اس کا شکوہ کرتا ہوں۔
مجھ کو توانگریزی سرکار سےصرف آزاد ڈکار کی آرزو ہے۔ میں اس سےادب سےمانگوں گا۔
خوشامد سےمانگوں گا۔ کوئی نہ لائےگا۔ یونہی دیتا ہوں زورسےمانگوں گا ۔
جدوجہد کروں گا۔ ایجی ٹیشن مچاؤں گا۔ پرزور تقریریں کروں گا۔
کونسل
میں جاکر سوالوں کی بوچھار سےانریبل ممبروں کا دم ناک میں کردوں گا۔

لوگو! میں توبہت کوشش کی کہ چپکےسےڈکار لینےکی عادت ہوجائے۔

ایک دن سوڈا واٹر پی کراس بھونچال ڈکارکوناک سےنکالنا بھی چاہتا تھا۔
مگر کم بخت دماغ میں الجھ کررہ گئی۔آنکھوں سے پانی نکلنے لگا۔
اور بڑی دیر تک کچھ سانس رکا رکا سا رہا۔

ذراتوانصاف کرو۔

میرے ابّا ڈکار زورسےلیتےتھے۔ میری اماں کوبھی یہی عادت تھی۔
میں نے نئی دنیا کی ہم نشینی سےپہلے ہمیشہ زور ہی سےڈکار لی۔
اب اس عادت کو کیونکر بدلوں ڈکارآتی ہے۔تو پیٹ پکڑلیتا ہوں۔
آنکھیں مچکا مچکا کےزور لگاتا ہوں۔ کہ موذی ناک میں آجائےاور گونگی بن کرنکل جائے۔
مگرایسی بدذات ہے۔ نہیں مانتی۔ حلق کو کھرچتی ہوئی منہ میں گھس آتی ہے۔
اور
ڈنکابجا کر باہر نکلتی ہے۔

کیوں بھائیوں تم میں سےکون کون میری حمایت کرےگا۔

اورنئی روشنی کی فیشن ایبل سوسائٹی سےمجھ کواس اکسٹریمسٹ حرکت کی اجازت دلوائےگا۔

خلقت تو مجھ کو حزب الاحرار یعنی گرم پارٹی میں تصورکرتی ہے۔

اورمیرایہ حال ہےکہ اپنی گرم ڈکارتک کوگرما گرمی اورآزادی سےکام میں نہیں لاسکتا۔
ٹھنڈی کر کےنکالنے پرمجبورہوں۔

ہائےمیں پچھلےزمانہ میں کیوں نہ پیدا ہوا۔

خوب بےفکری سےڈکاریں لیتا۔ ایسےوقت میں جنم ہوا ہےکہ بات بات پرفیشن کی مہرلگی ہوئی ہے۔

تم نےمیراساتھ نہ دیا تو میں ماش کی دال کھانے والےیتیموں میں شامل ہوجاؤں گا کیسےخوش قسمت لوگ ہیں۔

دکانوں پربیٹھے ڈکاریں لیا کرتےہیں۔ اپنا اپنا نصیبا ہے۔ ہم ترستے ہیں اور وہ نہایت مصرفانہ انداز میں ڈکاروں کوبرابرخرچ کرتےرہتےہیں۔
پیاری ڈکارمیں کہاں تک لکھےجاؤں۔ لکھنے سےکچھ حاصل نہیں، صبربڑی چیز ہے۔

Browse More Urdu Columns