Samay - Article No. 2395

Samay

سامع - تحریر نمبر 2395

جس دن سے وہ ایک گم نام جزیرے کی سیاحت سے واپس آیا تھا۔بہت اداس رہتا تھا۔ یہ بات تو نہیں تھی کہ اسے اس جزیرے کی یاد رہ رہ کر آتی تھی۔ کیوں کہ وہ جزیرہ اس قابل ہی کب تھا کہ

ہفتہ 23 مارچ 2019

جس دن سے وہ ایک گم نام جزیرے کی سیاحت سے واپس آیا تھا۔

بہت اداس رہتا تھا۔ یہ بات تو نہیں تھی کہ اسے اس جزیرے کی یاد رہ رہ کر آتی تھی۔

(جاری ہے)

کیوں کہ وہ جزیرہ اس قابل ہی کب تھا کہ اس کی زیارت دوبارہ کی جائے۔
کوئی بڑا فضول سا جزیرہ تھا۔ ‘‘کاناباتا کاٹا’’اور واقع تھا وہ بحرالکاہل میں۔
وہ ایک کلچر وفد کے ساتھ اس جزیرے میں گیا تھا۔

یہ صحیح ہے کہ اس جزیرے میں رہنے والوں کےطورطریقے عجیب و غریب تھے۔

مثال کے طور پر وہ چائے یا کافی کی بجائےسونف، کا عرق پیتےتھے۔
مصافحہ
کرنے کی بجائے ایک دوسرے کےکان اینٹھتےتھے۔ کوٹ کےاوپر قمیص پہنتےتھے۔
ناچتےوقت روتےاورعبادت کرتےوقت زور زور سےہنستےتھے۔یہ ایسی باتیں تھیں جنہیں دلچسپ کہا جاسکتا ہےاورنہ جنہیں سنسنی کےلیےلوگوں کوبیتاب ہونا چاہیےتھا۔
لیکن بدقسمتی سےجب بھی اس نے‘‘کانا بانا کاٹا’’کا ذکرکسی مجلس میں کیا اسےسخت مایوسی ہوئی۔
اول تو‘‘کانا بانا کاٹا’’کا نام سن کرہی سامعین قہقہےلگا کرہنسنےلگے۔
نہیں تو کسی نےفوراً چمک کرکہا۔‘‘ہٹاؤ یاراس بکواس کو۔ تم وہاں کیا گئےایک دم Bore بن کےلوٹے۔
جب
دیکھو کانا بانا کاٹا۔ کوئی کام کی بات کرو۔

کئی بار اس نے موقع محل سمجھ کرکانا بابا کاٹا کا ذکرچھیڑا۔

لیکن لوگوں نےتو جیسےاس میں دلچسپی لینےکی قسم کھا رکھی تھی۔
ایک دفعہ چند شاعروں کےدرمیان بیٹھےہوئےاس نےکہا۔‘‘آپ شاید نہیں جانتےکہ کانا بانا کاٹا میں تمام شاعرنثرمیں شاعری کرتےہیں۔
اوروہ
بھی چند گنےچنے موضوعات پر مثلاً گیدڑ۔ کھٹمل۔ چمگادڑ۔ سب سےبڑا شاعراس شخص کو سمجھا جاتا ہےجس نےگیدڑ پر سب سےزیادہ نظمیں لکھی ہوں میں آپ کوگولا گوقلا کی ایک نظم سناتا ہوں۔
گیدڑ کو مخاطب کرتے ہوئےوہ کہتا ہے۔؎

-----------‘‘اےگیدڑ۔ اگر تجھےشب بھرنید نہیں آتی۔

تو تُومارفیا کا ٹیکہ کیوں نہیں لگوالیتا۔اے گیدڑ۔ اتنے زور سےمت چلا۔
کہیں ایسا نہ ہو۔ کہ تیرا بڑاسا پھیپھڑا پھٹ جائے۔’’

‘‘اوراے گیدڑ------’’

اورکسی شاعرنےاس کی بات کاٹ کرکہا تھا۔

‘‘خدا کےلیےرحم کرد ہمارےحال پر۔کیوں بور کرنےپرتلےہو۔’’اوراس کی حسرت دل ہی دل میں رہ گئی تھی کہ گیدڑ والی ساری نظم وہ شاعروں کو سنا نہ سکا۔

اسی طرح ایک دفعہ اس نےوکیلوں کی ایک محفل میں کہا ۔

‘‘ آپ شاید نہیں جانتے،کہ کانا بانا کاٹا میں وکیل کو۔
‘‘ٹاپا’’
کہا جاتا ہے۔ جس کے معنی ہوتے ہیں۔‘‘دلچسپ جھوٹ بولنےوالا’’اور‘‘جج’’کو‘‘کاپا’’کہا جاتا ہےجس کےمعنی ہوئے‘‘غلط فیصلہ کرنے والا’’اورگواہ کو کہتےہیں ‘‘ماپا’’جس کےمعنی۔
۔۔۔۔۔’’

اس پرایک وکیل نےاس کی طرف اشارہ کرتےہوئےکہا تھا۔اورآپ کو‘‘باپا’’کہا جاتا ہے۔

‘‘جس کےمعنی ہوئےفضول بکواس کرنےوالا۔’’

اس دن کےبعد اس نےمعمول بنا لیاتھا کہ کسی مجلس میں کانا بانا کاٹا کا ذکرنہیں کرے گا۔

بلکہ اکیلےدُکیلےآدمی کےساتھ بات چلانےکی کوشش کرے گا۔ ایک دن سڑک پرچلتےہوئےایک فقیرنےاس سےپیسےکاسوال کیا۔
اس
نےفقیرکی ہتھیلی پرایک لکٹری کا سکہ جووہ کانا بانا کاٹا سےلایا تھا رکھتے ہوئےکہا۔

‘‘جانتےہو یہ کس ملک کا سکہ ہے۔’’

‘‘نہیں جانتا۔

’’

‘‘یہ کانا بانا کاٹا کا سکہ ہے۔ جانتےہو یہ ملک کہاں واقع ہے۔

’’

‘‘نہیں جانتا۔’’

‘‘بحرالکاہل میں، جاپان سےتین ہزار۔۔۔۔۔۔’’

‘‘جی ہوگا۔

لیکن غریب پر ورمیں نےتو پیسےکا سوال کیا تھا۔’’

ایک دوکان دارسےصابن خریدتےوقت اس نےکہا۔

‘‘کانا بانا کاٹا’’میں صابن نہیں ہوتا۔دراصل اس کی ضرورت بھی نہیں وہاں عام طور پر لوگ ایک سال بعد نہاتے ہیں۔
عجیب ملک ہے۔ وہاں دوکاندارکو‘‘چمپیٹو’’کہتےہیں جس کےمعنی ہوئے۔۔۔۔۔’’

دوکانداراس کی بات کونظراندازکرتےہوئے پوچھا۔

‘‘اچھا توآپ کو کون سا صابن چاہیے۔’’

ایک بارباغ میں ٹہلتےہوئےاس کی ملاقات ایک ضعیف آدمی سےہوئی۔

اس نےسوچا۔ موقعہ اچھا ہے۔ اس سےفائدہ اٹھایا جائے۔ آداب بجالانےکےبعد اس نےکہا۔
‘‘بڑے میاں آپ کی کیا عمر ہوگی۔’’

‘‘کانا بانا کاٹا میں کسی شخص کو ساٹھ سال کےبعد زندہ رہنےکی اجازت نہیں۔

’’

‘‘کانا بانا کاٹا کیا بلا ہے۔’’

‘‘بلا نہیں صاحب۔ ایک بڑاعجیب جزیرہ ہے۔

بحرالکاہل میں جاپان سے۔۔۔’’

‘‘اچھا ہوگا۔’’

‘‘لیکن کیا یہ عجیب بات نہیں۔

کہ وہاں ساٹھ سال کےبعد کسی کو زندہ ۔۔۔۔۔’’

‘‘توکیا اسے پھانسی کےتختےپرچڑھا دیا جاتا ہے۔

’’

‘‘جی ہاں۔’’

‘‘بڑا بےہودہ ملک ہے۔’’

‘‘جی نہیں۔ بےہودہ نہیں۔

دیکھئےنا۔ اس قانون کا یہ فائدہ ہے کہ۔۔۔۔’’

‘‘اجی رہنےدیجئے۔

بزرگوں کےساتھ ایسا بےرحمانہ سلوک !’’

‘‘سنئےتو۔ آپ نےپوری بات توسنی نہیں ۔

’’

‘‘معاف کیجئے۔ میں ایسی فضول باتیں نہیں سنا کرتا۔’’

آخر جب یہ حربہ بھی کوئی خاص کامیا ب نہ رہا تواس نےایک اورتدبیرسوچی۔

کانا بانا کاٹا سےوہ اپنےساتھ چند سنگتراشی کےنمونےلایا تھا۔
وہ اس نےاپنےکمرے میں رکھ دیئے۔ اس کا خیال تھا کہ جب کوئی ملاقاتی اس سےملنےآئےگا۔
تو ضروران پرنظر دوڑانےکےبعد ان سےمتعلق سوال کرے گا،اوربات چل نکلےگی۔
لیکن اس کےسب اندازے غلط ثابت ہوئے۔ اکثرملاقاتیوں نےان کی جانب دیکھا تک نہیں۔
ایک آدھ نےدیکھنےکےبعد فرض کرلیا کہ کسی کباڑی سےاونےپونےچند فضول مجسمےخرید لیےگئےہیں ایک دن اس نےایک ملاقاتی کی توجہ ایک مجسمےکی طرف مبذول کراتے ہوئےکہا۔
‘‘یہ کس کا مجسمہ ہے۔’’

‘‘کسی بندرکا معلوم ہوتا ہے۔’’

‘‘ارے نہیں۔

بندرکا نہیں۔ یہ کانا بانا کاٹا کےمشہور فلسفی ‘موموکوکو’کا ہے۔
’’

‘‘ہنھ۔’’

مومو کوکو بڑا۔ پہنچا ہوا فلسفی تھا۔ اس کےخیال میں انسان کی سب سےبڑی کمزوری عورت نہیں۔

افیون ہے۔ خود ‘موموکوکو’ہرروز تین سے چھ ماشےافیون کھا یا کرتا تھا۔
ایک دن جب اسے افیون نہ ملی۔ تو جانتےہو اس نےکیا کیا۔

‘‘شاید خودکشی کرلی۔’’

‘‘نہیں خود کشی نہیں کی۔ وہ ایک پودا جڑاورپتوں شمیت کھا گیا۔

لیکن جب اسے۔۔۔’’

‘‘اچھا یا رکوئی اوربات کرو۔ یہ کس کا ذکرلےبیٹھے ۔

’’

‘‘اسےسب سےزیادہ افسوس تب ہوتا تھا جب بات چل نکلنےکےبعد درمیان میں رک جاتی۔

مثلاً ایک اتوارکواس کا ایک اخبارنویس دوست اس کے پاس بیٹھا ہوا تھا، اس نےاسےمخاطب کرتےہوئے کہا۔
‘‘آپ
شاید نہیں جانتے۔ کہ‘‘کانا بانا کاٹا’’میں لوگ اخبارپڑھنےکےلئےنہیں آگ جلانےکےلیےخرید تےہیں۔
’’

‘‘لیکن وہ اخبار پڑھتےکیوں نہیں۔’’

‘‘ان کا خیال ہےکہ اخباروں میں سکینڈل کےعلاوہ کچھ نہیں ہوتا۔

’’

‘‘یہ تو کوئی معقول دلیل نہیں۔’’

اپنا اپنا خیال ہے۔

اور وہاں سب اخباروں کا نا م ایک سا ہوتا ہے۔ یعنی‘رگڑرگڑ’جس کےمعنی ہوئے۔
۔۔۔۔’’

‘‘کچھ بھی ہوئے۔ کوئی کام کی بات کرو۔’’

اورایک دن تواس کےساتھ ایک عجیب سانحہ پیش آیا۔

اس کا ایک دوست جوپیرس سےتین سال کےبعد واپس آیا تھا۔
اسےملنےکےلیے۔اس نےسوچا کہ ضرورکانا بانا کاٹا کےکچھ حالات سننےپررضا مند ہوگا۔
اس نےابھی تمہید ہی باندھی تھی کہ اس کےدوست نےمسکرا کرکہا۔
‘‘لیکن
یارکیا بات ہےفرانس کی۔ بڑا دلچسپ ملک ہےاور پیرس! پیرس! زندہ دلوں کا شہرہے۔
ہررات شب برات کا درجہ رکھتی ہے۔ آرٹسٹ بڑی لا ابالی طبیعت کےمالک ہوتے ہیں۔
گلیاں بڑی پراسرار،ہوٹل دلہنوں کی طرح سجائےجاتےہیں۔ ریلوے اسٹیشنوں پرپرستان کا دھوکا ہوتا ہے۔
سڑکیں اتنی صاف شفاف کہ ہاتھ لگے میلی ہو جائیں۔ سیاست دان معاملہ اورمہم اورنکتہ داں۔
شراب۔ آہ ظالم گویا شراب نہیں۔ ایک تیزچھری ہےکہ اترتی چلی جاتےوغیرہ وغیرہ۔

آخردو گھنٹےکےبعد جب اس کےدوست نےپیرس کا تذکرہ ختم کیا تواس نےمحسوس کیا۔

کہ ایسےشخص سےکانا بانا کاٹا کا ذکرکرنا پرے درجےکی حماقت تھی۔

جب اس کا درجہ بیکارثابت ہوا توکھویا کھویا سا رہنےلگا۔

اسےانسانوں سےوحشت سی ہونے لگی۔ یہ کیسے لوگ ہیں۔

Browse More Urdu Columns